Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Arundhati Roy Ke Chasham Kusha Mushahidat

Arundhati Roy Ke Chasham Kusha Mushahidat

ارون دھتی رائے کے چشم کشا مشاہدات

بھارت کی مشہور ناول نگار ارون دھتی رائے پاکستان میں اپنی تخلیقی تحریروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن مضامین کی وجہ سے زیادہ سراہی جاتی ہیں جن کے ذریعے وہ بھارتی ریاست کے بیانیے کو نہایت جرأت سے کھوکھلا اور انسان دشمن ٹھہراتی ہیں۔ کشمیر کی آزادی کے بارے میں بھی ان کے جذبات قابل قدر ہیں۔ بھارتی حکومت نے اگرچہ ان کی وجہ سے ارون دھتی رائے کے خلاف "غداری" کا مقدمہ قائم کررکھا ہے۔ مذکورہ مقدمے کی اگرچہ سختی سے فی الحال پیروی نہیں ہورہی۔

ارون دھتی رائے سے میری صرف ایک بار سرسری ملاقات ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں ایک تخلیقی لکھاری تسلیم کئے جانے کے باوجود میں ان کی انکساری اور سادگی سے بہت متاثر ہوا۔ اپنی تعریف سے وہ فخر محسوس کرنے کے بجائے بچیوں کی طرح شرماجاتی ہیں۔ ان کے انقلابی خیالات سے کہیں زیادہ ارون دھتی رائے کے لکھے پہلے ناول نے مجھے بہت متاثر کیا۔ انگریزی میں سبزرنگ کے مختلف روپ کو انہوں نے جس طرح بیان کیا وہ اس زبان پر کامل گرفت کا حیران کن اظہار ہیں۔

طویل وقفے کے بعد ارون دھتی رائے نے اب ایک اور تحریر لکھی ہے۔ یہ ناول کے بجائے آپ بیتی ہے جو بنیادی طورپر ان کی والدہ کی شخصیت کے بے پناہ پہلو اجاگر کرتی ہے۔ "Come to Me Mother Mary"مذکورہ کتاب کا عنوان ہے اور یہ گزشتہ ماہ چھپا ہے۔ میں اسے خرید کر پڑھ نہیں سکا ہوں۔ اس کے بارے میں اگرچہ جو تبصرے چھپے ہیں انہیں پڑھ کر اندازہ ہوا ارون دھتی رائے کی تازہ ترین تخلیق ان کی والدہ -میری رائے" کی شخصیت ہی اجاگر کرنے پر مرکوز رہی۔ اس کی بدولت یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ارون دھتی رائے نے آخری ناول 2017ء ہی میں لکھا تھا۔ The Ministry of Utmost Happinessاس کا عنوان تھا۔

ارون دھتی رائے کے بارے میں بہت کم پاکستانی یہ جانتے ہیں کہ وہ کیرالہ میں صدیوں سے آباد مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس برادری کا دعویٰ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے اس دنیا سے اٹھائے جانے کے تقریباََ 50برس بعد تھامس نام کا ایک تبلیغی جہاز میں بیٹھ کر کیرالہ آگیا تھا۔ کیرالہ ان دنوں مالابار کہلاتا تھا۔ یہاں سے کالی مرچ، دار چینی اور لونگ وغیرہ کی وسیع پیمانے پر بحری جہازوں کے ذریعے آج کے یورپ تک برآمد ہوتی تھی۔ مون سون کی ہوائیں مذکورہ تجارت کو تیز رفتار بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوتیں اور اکثر جہازوں کے ملاح عرب نژاد ہوتے۔ شام سے تعلق رکھنے والے مسیحی نصرانی پکارے جاتے تھے۔ وہ زیادہ تر شام کے مشرقی علاقوں میں مقیم تھے۔ ان کی اکثریت مگر ان علاقوں میں آباد تھی جو آج کے ایران اور عراق کا حصہ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد کیرالہ آئے تھامس نے تبلیغ کے ذریعے اونچی ذات کے کئی برہمنوں کو مسیحی مذہب اختیار کرنے کو مائل کیا۔ وہاں مسیحوں کی تعداد نمایاں ہونا شروع ہوئی تو مشرقی شام سے مزید مسیحی گھرانے بھی مشکل دنوں میں کیرالہ آنے لگے۔ اس وقت کیرالہ میں مسیحیوں کی تعداد 18فی صد بتائی جاتی ہے۔ مسلمان 25فیصد سے بڑھ چکے ہیں جبکہ ہندواکثریت 54فی صد کی حامل ہے۔

کیرالہ کے شامی-نژاد مسیحی اپنی روایات برقرار رکھنے کے ضمن میں بہت کٹراور ثابت قدم ہیں۔ ارون دھتی رائے کی ماں نے مگر اپنی برادری سے باہر پسند کی شادی کی۔ شادی کے بعد ان کاشوہر شراب کے نشے میں غرق رہتا۔ ارون دھتی رائے کی ماں اس سے الگ ہوگئی۔ "طلاق یافتہ" ہونا ان دنوں بہت معیوب گردانا جاتا تھا۔ میری رائے نے مگر ہمت نہ ہاری۔ بچوں کو پڑھانے کے لئے سکول کھول لیا۔ اس کے علاوہ کیرالہ کی مسیحی خواتین کو جائیداد میں حصے کا حق دلوانے کے لئے بھارتی سپریم کورٹ تک گئی۔

ارون دھتی رائے نے اپنی ماں کو ہیرو کے طورپر پیش کرنے کے بجائے ایک سخت گیر ماں کی صورت اجاگر کیاہے۔ ارون دھتی رائے اور اس کے بھائی کو "سبق" سکھانے کے لئے وہ اکثر انہیں تشدد کا نشانہ بناتی۔ "مادرانہ شفقت" کے جذبے سے وہ نظر بظاہر قطعاََ محروم تھی۔ اپنی سگی ماں کو جابر وظالم شخصیت کے طورپر پیش کرنا بہت جرأت کا تقاضہ کرتا ہے۔ ارون دھتی رائے نے مگر یہ جرأت دکھائی ہے۔ اس کی جرأت پر حیران ہوتے ہوئے بھی میں یہ سوچنے سے باز نہ رہ سکا کہ کئی حوالوں سے ارون دھتی رائے اپنی ماں ہی کی طرح ہے۔ لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ منکسرانہ اور دوستانہ ہے۔ جابر ریاستوں کے بیانیے کو کھوکھلا ثابت کرنے کی ضد مگر اس نے اپنی ماں ہی سے ورثے میں حاصل کی ہے۔

پیر کی رات نیند نہ آنے کی وجہ سے یوٹیوب کے پھیرے لگارہا تھا تو اچانک ارون دھتی رائے کا تازہ ترین انٹرویو نمودار ہوا جو اس نے نیویارک میں موجود ہونے کی وجہ سے مشہور اینکر مہدی حسن کو دیا ہے۔ انٹرویو کا پہلا حصہ ارون دھتی رائے کی شخصیت اور تازہ ترین آپ بیتی کے ذکر پر مرکوز رہا۔ ارون دھتی رائے سے مگر غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر بھی سوالات ہوئے۔ عالمی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے مہدی حسن نے ارون دھتی رائے سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آج کے بھارتی خود کو اسرائیل کے اتنا قریب کیوں محسوس کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے جبکہ نہرو کا بھارت مصر کے ناصر کے بہت قریب ہوا کرتا تھا اور اندراگاندھی بھی اپنے اقتدارکے دوران یاسرعرفات اور پی ایل او کی عالمی فورموں پر ڈٹ کر حمایت کرتی رہی۔

ارون دھتی رائے نے مذکورہ سوال کے جواب میں نہایت سادہ الفاظ میں سمجھایا کہ مسلمانوں سے نفرت نے محض بھارتی ریاست ہی کو نہیں بلکہ وہاں کی ہندواکثریت کو بھی اپنی ریاست سے کہیں زیادہ اسرائیل نواز بنادیا ہے۔ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اس نے یہ بتاتے ہوئے مجھے حیران کردیا کہ آج کے بھارت میں مختلف بڑے شہروں کے اہم بازاروں میں اگر فلسطینیوں کے قتل عام کی مذمت میں فقط مسلمان ہی نہیں دیگر بھارتی شہریوں کی جانب سے کوئی مظاہرہ ہورہا ہو تو "پولیس کے بجائے وہاں کے دوکاندار" ایسے مظاہرے کو باہم مل کر ناکام بنادیتے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت میں اسرائیل سے محبت گویا بھارتی ریاست سے زیادہ وہاں کی اکثریتی آبادی کے دلوں میں گھر کرچکی ہے۔ ارون دھتی رائے کے مشاہدے کو سن کر میرا دل کانپ گیا۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی نسل کشی کی مذمت نہ کرنا انسان دشمنی ہے۔ بھارت میں لیکن اس کا برسرعام ڈھٹائی سے اظہار ہورہا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan