امریکی انخلاء مکمل
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء 31اگست کا سورج طلوع ہونے سے قبل ہی مکمل ہوگیا تو طالبان نے ہوائی فائرنگ کے ذریعہ اپنی فتح کا جشن منایا۔ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر حافظ طاہر اشرفی کا ٹویٹ مگر اس تناظر میں نہایت بردبار تھا۔ انہوں نے فقط "اللہ اکبر" لکھا۔ اس کے بعد ایک اور ٹویٹ میں مولانا سمیع الحق مرحوم کی تصویرلگاتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
نوشہرہ کے قریب واقع دارلعلوم حقانیہ نے بے شمار طالبان کی مذہبی تعلیم وتربیت میں ا ہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ مولانا اپنے پراسرار قتل تک کئی دہائیوں تک اس مدرسے کے مدارالمہام رہے تھے۔ کئی حوالوں سے طاہراشرفی صاحب یہ سوچنے میں حق بجانب تھے کہ مولانا کی پھیلائی سوچ بالآخر کامیاب وکامران ہوئی۔ اس کی بدولت ان دنوں دنیا کی واحد سپر طاقت کہلاتے امریکہ کو افغانستان سے ذلیل و رسوا ہوکر راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ افغانستان کو امریکہ اور یورپ کے معیار کے مطابق "مہذب اور جمہوری ملک" بنانے کے لئے مسلط ہوئی جنگ دو دہائیوں تک جاری رہنے کے باوجود اپنے اہداف حاصل نہ کرپائی۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل مکمل ہوجانے کے بعد ہمارے خطے پر نگاہ رکھنے والی سنٹرل کمانڈ کا انچارج جنرل میکنزی زوم کال کے ذریعے واشنگٹن میں بیٹھے صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتا رہا۔ اس کے چہرے پر ندامت و پشیمانی نمایاں تھی۔ لہجہ بھی شکست خوردہ تھا۔ وہ یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوا کہ افغانستان سے باہر نکلتے ہوئے اس کا ملک ان تمام افغانوں کو بحفاظت اپنی افواج کے ہمراہ لا نے میں ناکام رہا ہے جو 20سالہ جنگ کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی معاونت کرتے رہے۔ اسے یہ فکر بھی لاحق تھی کہ خراسان کے نام سے بنائی داعش افغانستان میں بہت متحرک ہوچکی ہے۔ طالبان اس کی دانست میں اپنے تئیں اس تنظیم کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ امریکہ کو اس کے خلاف فضائی حملے جاری رکھنا ہوں گے۔ اسے یہ گماں بھی تھا کہ امریکہ کو فوجی شکست دینے کے باوجود طالبان امریکہ سے معاشی تعاون کے طلب گار رہیں گے۔ اپنے معاشی اثرورسوخ کی بدولت امریکہ طالبان کو لہٰذا نرم رویہ اختیار کرنے کو مائل کرسکتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ جنرل میکنزی کی سوچ کے مطابق افغانستان اب بھی امریکہ کا آنے والے کئی برسوں تک درد سر رہے گا۔
امریکی سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں مصر رہا ہوں کہ اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کے بعد بائیڈن انتظامیہ اس ملک کے معاملات سے لاتعلقی اختیار کرلے گی۔ عورتوں کے حقوق، آزادیٔ صحافت اور انسانی حقوق کی بابت امریکہ کی جانب سے برتی فکر مندی بنیادی طورپر لاہوری زبان والی رنگ بازی ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک بدترین آمریتوں کے شکنجے میں کئی دہائیوں تک جکڑے رہے ہیں۔ ان کی کثیر تعداد امریکہ کی قریب ترین اتحادی رہی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 1950ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ بڑھتی محبت سے جمہوریت اور انسانی حقوق کے بارے میں اپنی بڑھک بازی کی قلعی کھول دی تھی۔
چند روز قبل ا مریکی صدر صحافیوں کے روبرو آکر افغانستان سے اپنی افواج کو ذلت آمیز عجلت کے ساتھ نکالنے کا ڈھٹائی سے دفاع کرتا رہا۔ یوں کرتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا کہ اگر نائن الیون نہ ہوا ہوتا تو امریکہ فقط جمہوریت کے قیام کے لئے افغانستان پر حملہ کرنے کو آمادہ ہوتا یا نہیں۔ بائیڈن ایک نہایت تجربہ کار سیاست دان ہے۔ کئی دہائیوں تک امریکہ کا سینیٹر منتخب ہوتا رہا۔ آٹھ برس اوبامہ کا نائب صدر بھی رہا۔ افغانستان میں امریکی افواج کی بھاری بھر کم تعداد اور موجودگی اسے کبھی پسند نہیں آئی۔ وہ سنجیدگی سے یہ تصور کرتا ہے کہ امریکہ اپنے وسائل اس ملک پر قبضہ جمانے میں ضائع کرتا ر ہا ہے۔ چین نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اپنی معیشت کو ترقی دینے پر کامل توجہ مرکوز کرتے ہوئے امریکہ کے ہم پایہ سپرطاقت بننے کے قریب پہنچ گیا۔
ہر امریکی صدر کو اپنی Legacyیعنی وراثت کی بہت فکر لاحق ہوتی ہے۔ وہ تاریخ میں کوئی بڑا کام کرتے ہوئے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ نکسن نے چین کے ساتھ دوستانہ روابط بناتے ہوئے تاریخ بنائی تھی۔ ریگن نے 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی گیم لگائی۔ جارج بش مگر عراق اور افغانستان کو "جمہوری اور ترقی یافتہ" بنانے میں ناکام رہا۔ اوبامہ نے آٹھ برس ان ممالک سے امریکہ کی جان چھڑانے کی نذر کردئیے۔ ٹرمپ بھی افغانستان سے انخلاء کو بے چین تھا۔ طالبان کو "امارت اسلامی افغانستان" مانتے ہوئے اس نے ان کے ساتھ دوحہ میں طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ کیا۔ وہ معاہدہ اشرف غنی کے تحت بنائے حکومتی بندوست کے لئے ڈیتھ وارنٹ تھا۔ ٹرمپ مگر اپنے منصوبے کو بروقت مکمل نہ کرپایا۔ ذلت ورسوائی اس ضمن میں بائیڈن کا مقدر ہوئی۔
ایک کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے بائیڈن مگر پراعتماد رہا کہ ہر روز کوئی نئی کہانی سننے کے عادی امریکی عوام چند دنوں بعد افغانستان کو بھول جائیں گے۔ بائیڈن کو اقتدار سنبھالے ابھی آٹھ ماہ ہی گزرے ہیں۔ اپنے اقتدار کے بقیہ برسوں میں وہ امریکی وسائل کو اپنے ہی ملک میں خوش حالی پھیلانے کے لئے وقف کرنا چاہ رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اقتدار کے چار سال مکمل کرنے کے بعد وہ امریکہ کو چین سے کہیں زیادہ طاقت ور اور معاشی اعتبار سے ناقابل تسخیرملک بنادے گا۔
ٹیلی وژن سکرینوں اور خاص کر سوشل میڈیا نے کابل ایئرپورٹ کے حوالے سے جو مناظر تاریخ کے لئے ریکارڈ کئے ہیں انہوں نے بائیڈن کو مگر بوکھلا دیا ہے۔ جمعرات کے روز ایک خودکش حملے کی وجہ سے گیارہ امریکی فوجیوں کی ہلاکت اس کے لئے مزید پریشانی کا باعث ہوئی۔ عراق اور افغانستان میں برسوں تک فوجی خدمات دینے والے امریکی ان ہلاکتوں کے حوالے سے چراغ پا ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے متحرک ہوگئے۔ ان کے بے شمار گروہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پیغام پھیلارہے ہیں کہ بائیڈن نے امریکہ کی ذلت ورسوائی یقینی بنانے والے انداز میں افغانستان سے انخلاء کا عمل مکمل کیا۔ اس کے خلاف مواخذے کی بات بھی چل نکلی ہے۔
پیر کے روز پاکستان میں نیویارک ٹائمز کا جو شمارہ صارفین کے گھروں میں آیا اس کے صفحۂ اوّل پر ایک سابق فوجی ایلیٹ ایکرمین کا لکھا ایک مضمون بھی شائع ہوا۔ یہ لکھاری عراق اور افغانستان میں کئی برسوں تک تعینات رہا ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد ناول نویسی شروع کردی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے لکھا اس کا مضمون جوبائیڈن کے خلاف مرتب ہوئی نہایت جذباتی چارج شیٹ تھی۔ نیویارک ٹائمز ٹرمپ کا بدترین دشمن شمار ہوتا ہے اور وہ بائیڈن کے دفاع کو ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ کابل ایئرپورٹ کے حوالے سے ابھرے مناظر نے مگر اس کا رویہ بدل دیا ہے۔
مجھے خدشہ ہے کہ بائیڈن اپنے خلاف شدت سے ابھرتی آواز ہی سے گھبرا کرایسے فیصلے لینے کو مجبور ہوجائے گا جو اس کی دانست میں دنیا کو بھرپور انداز میں یاد دلائیں کہ افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء کے باوجود امریکہ اب بھی فوجی اعتبار سے دنیا کی سب سے طاقت ور قوت ہے۔ اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے میرے دل ودماغ میں ابھرتے خدشات کو کھل کر بیان کرنے کی ہمت سے البتہ میں محروم ہوں۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کروں گا کہ میرے خدشات بالآخر غلط ثابت ہوں۔