افغانستان اور شام میں پیدا ہونے والی ہلچل
نقشے پر نگاہ ڈالیں تو افغانستان شام سے بہت دور نظر آتا ہے۔ ان دو ممالک کی ثقافت میں اسلام کے علاوہ مشترک باتیں ڈھونڈنا بھی بہت مشکل ہے۔ 1980ء کی دہائی نے مگر جغرافیائی اور ثقافتی شناختیں بھلاکر عرب دنیا کے تقریباً ہر ملک کے نوجوانوں کی اکثریت کو افغان جہاد، کی جانب متوجہ کیا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ مذکورہ جہاد، کو سرکاری سطح پر سب سے زیادہ مصر کی حکومت نے پروپیگنڈا ٹول کے طورپر استعمال کیا۔ بنیادی وجہ اس کی یہ تھی کہ مصر کے صدر سادات نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے ایما پر کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ اس کی جانب سے اسرائیل کوباقاعدہ ریاست کے طورپر تسلیم کیے جانے کو مسلم امہ کی بے پناہ اکثریت نے اسلام سے غداری مترادف ٹھہرایا۔
مصر میں کئی دہائیوں سے احیائے اسلام، کے لیے اخوان المسلمین نامی تنظیم بھی کام کررہی تھی۔ یہ نہایت منظم جماعت تھی جو قدامت پرست حلقوں میں بہت مقبول تھی۔ سادات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ صلح کے معاہدے کے بعد اس کا اثر بہت تیزی سے مصر کے شہری متوسط طبقے میں بھی ردعمل کے طورپر پھیلنا شروع ہوا۔ مصر کی اشرافیہ کا اہم حصہ بھی اخوان سوچ سے متاثر ہونا شروع ہوگیا۔ خود کو اخوان المسلمین کے بڑھتے اثر سے محفوظ، رکھنے کے لیے سادات افغان جہاد کا کٹر حامی بن گیا۔ اس نے اپنی فوج کے لیے خریدی روسی کلاشنکوف کی کثیر تعداد بھی افغان مجاہدین کو تحفتاً بھجوانا شروع کردی۔ افغان مجاہد مصر سے ملی ان بندوقوں کو ان کے ملک میں درآئی کمیونسٹ فوجوں سے چھینی بندوقیں بتاتے ہوئے اپنے جہادی کارناموں کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے۔
سادات نے اس کے علاوہ نہایت مکاری سے مصر کے کئی دانشوروں اور جہاد کو بے چین نوجوانوں کو بھی افغانستان بھجوانے کے لیے اکسانا شروع کردیا۔ اسے گماں تھا کہ جذباتی نوجوانوں کو افغان جہاد کی نذر کرنے کے بعد وہ اور اس کی حکومت محفوظ ومستحکم رہے گی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ سادات کو ایک فوجی پریڈ میں اس کے سپاہیوں ہی نے قتل کردیا۔ اس کے بعد آئے حسنی مبارک کی حکومت کوکئی برسوں تک افغان جہاد کی بدولت انقلابی، ہوئے مسلم انتہا پسندوں پر قابو پانے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا پڑے۔
مصر کے علاوہ شام کے بے شمار نوجوان بھی افغان جہاد میں شریک ہونے کو بے تاب رہے۔ مجھے خبر نہیں کہ حال ہی میں اسد راج کا خاتمہ کرنے والی تنظیم -ہیئت تحریر الشام-کا سربراہ ابو محمد الجولانی جہاد میں حصہ لینے کے لیے افغانستان آیا تھا یا نہیں۔ عراق پر امریکا کے قبضے کے بعد وہ مگر اپنے ملک سے وہاں چلا گیا تھا۔ عراق میں اس نے القاعدہ سے منسلک زرقاوی کی بنائی تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد مصر سے ابھرے ڈاکٹر ایمن الظواہری سے بھی رابطے میں رہا۔ عراق ہی میں وہ امریکا کی قید میں چلا گیا۔ امریکا کی قیدمیں پانچ برس گزارنے کے بعد وہ معتدل مزاج، ہوگیا۔ اب پگڑی اور عبا نہیں فوجی کمانڈوز کی وردی پہنتا ہے اور شام کے عوام کو یقین دلانے کی کوشش میں مصروف کہ اس کی نگہبانی میں چلائی حکومت خواتین کے ساتھ افغان طالبان والا رویہ اختیار نہیں کرے گی۔
کالم کا آغاز شام اور افغانستان کے مابین اسلام کے علاوہ چند مشترکہ باتیں ڈھونڈنے سے ہوا تھا۔ ان کی نشاندہی مقصود نہ تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ جب سے شام میں اسد راج کا خاتمہ ہوا ہے میرا وسوسوں بھرا دل نجانے کیوں جبلی طورپر یہ سوچنا شروع ہوگیا کہ اب افغانستان میں بھی کوئی بڑا واقعہ، ہوگا۔ بدقسمتی سے بدھ کے روز میرے دل میں امڈتے خدشات درست ثابت ہوئے۔ افغانستان کے مشہور زمانہ حقانی نیٹ ورک کے خلیل الرحمن حقانی جو مجاہدین کے معاملات دیکھنے والی وزارت کے مدارالمہام تھے اپنے دفتر میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بم دھماکے کے ذریعے جاں بحق ہوگئے۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے کنوئیں کے مینڈک ہوئے پاکستانیوں کی اکثریت کے لیے یہ سوچنا بہت دشوار ہوگا کہ خلیل الرحمن حقانی کا قتل افغانستان کے لیے بھونچال ثابت ہوگا۔ افغان طالبان نظر بظاہر کٹر اسلامی ہونے کی وجہ سے ہمیں متحد اکائی کی صورت نظر آتے ہیں۔ نظریات، مگر افغانوں کو متحد اکائی کی صورت دینے میں اکثر ناکام رہے ہیں۔ طالبان سے پہلے وہاں کمیونسٹ ابھرے تھے۔ کٹر کمیونسٹ، بھی لیکن خلق اور پرچم دھڑوں میں منقسم رہے۔
اپریل 1978ء کا انقلاب ثور، خلق دھڑے نے اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔ اس کے سربراہ کا تعلق قندھار سے تھا۔ پرچم، دھڑے والوں نے مگر اس کی انقلابی، سوچ پر سوال اٹھانا شروع کردیے۔ اس دھڑے میں شامل بیشتر افراد کابل کے معتدل طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہاں کی مشہور یونیورسٹیوں کے طالب علم رہے تھے۔ ایک حوالے سے وہ افغان اشرافیہ کے نمائندے بھی تھے۔ ان کے برعکس نور محمد ترکی جسے خلقی، قندھار کی دہقانی سوچ کے نمائندہ سمجھے جاتے تھے۔ خلق اور پرچم دھڑوں کے مابین جاری رہی کش مکش نے بالاخر سوویت یونین کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ہمسائے میں آئے انقلاب، کو بچانے کے لیے اپنی افواج دسمبر1979ء میں کابل پر قابض فوج کی صورت بھیج دے۔
کٹر اسلام پسند ہونے کے باوجود طالبان بھی قندھار اور افغانستان کے مشرق سے ابھرے حقانی جیسے گروہوں میں تقسیم ہیں۔ حقانی پاکستان کے بے شمار وجوہات کی بدولت قریب شمار ہوتے ہیں۔ اس دھڑے کی حقیقی قیادت خلیل الرحمن کے پاس تھی جو ایک مشہور مجاہد جلال الدین حقانی کے برادرِ خورد ہیں۔ حقانی دھڑے کو پس منظر میں رہتے ہوئے منظم رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔ موصوف ایک کائیاں سفارت کاربھی تھے جو عالمی دنیا کو یہ سمجھانے میں مصروف رہتے کہ طالبان کو معتدل مزاج، ہونے کے لیے وقت درکار ہے۔ ان کے قتل کے بعد کابل میں انتہا پسند دھڑے توانا تر محسوس کریں گے جوافغانستان کے پاکستان جیسے ہمسایوں کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔