Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Afghan Qazia Mein Hamari Ghalatiyan

Afghan Qazia Mein Hamari Ghalatiyan

افغان قضیّہ میں ہماری غلطیاں

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ جنگی جھڑپیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور یہ محض اتفاق نہیں کہ ان میں شدت طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کے بعد آئی ہے۔ "آپریشن سندور" کے ذریعے اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد دلی نے نہایت سوچ بچار کے بعد بالآخر فیصلہ کیا کہ فی الوقت پاکستان کے ساتھ براہ راست جنگ چھیڑنے کے بجائے طالبان کو پاکستان کے ساتھ جنگی جھڑپوں میں الجھایا جائے۔

یہ حقیقت سمجھنے کے لئے آپ کو جنگی امور کا ماہر ہونے کی ضرورت نہیں کہ طالبان باقاعدہ فوج کی تشکیل دینے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ بنیادی طورپر وہ چھاپہ مارگروہوں پر مشتمل ہیں جو گوریلا تخریبی کارروائیوں کے ذریعے اپنے مخالف کو چین سے رہنے نہیں دیتے۔ سوویت یونین اور امریکہ کے خلاف انہوں نے یہ ہی پالیسی اپناتے ہوئے ان دونوں سپر طاقتوں کوافغانستان چھوڑنے کو مجبور کردیا تھا۔

"افغان جہاد" کے نتیجے میں سوویت یونین کی پسپائی اور بعدازاں سکڑکر روس تک محدود ہونا مگر "افغان مجاہدین" ہی کا کارنامہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان نے "تزویراتی گہرائی" جیسے احمقانہ تصور کے نام پر ان کا کھل کر ساتھ دیا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو ویسے بھی ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول رہ نما کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد دنیا سے سرپرستی اور پذیرائی درکار تھی۔ 27 دسمبر1979ء کی شام کمیونسٹ فوجیں افغانستان میں درآئیں تو ان دنوں کے امریکی صدر کارٹر کے مشیر برائے قومی سلامتی برزنسکی نے تھیوری دی کہ پاکستان کے ذریعے "مجاہدین" کی پشت پناہی کرتے ہوئے امریکہ ویت نام میں اپنی ذلت آمیز ہزیمت کا بدلہ لے سکتا ہے۔ امریکہ کے اتحادی بھی اس تصور کے حامی ہوگئے۔

کارٹر مگر دنیا بھر میں"جمہوریت" کو توانا بنانے کے وعدے پر برسراقتدار آیا تھا۔ اسی باعث اس کے دورِ اقتدار میں شہنشاہ ایران کے خلاف تحریک چلی اور وہ ملک سے فرار ہونے کو مجبور ہوگیا۔ ابتداََ شاہ مخالف تحریک ایران کے شہری متوسط طبقے کی ترجمان نظر آئی۔ امام خمینی نے مگر نہایت مہارت سے اسے "اسلامی انقلاب" میں تبدیل کرلیا تو کارٹر انتظامیہ کا بھی جمہوریت سے جی بھرگیا۔ پاکستان کو البتہ افغانستان کو "آزاد" کروانے کے لئے 400 ملین ڈالر کی پیش کش ہوئی۔ جنرل ضیاء کو بخوبی اندازہ تھا کہ ایران کی وجہ سے ناکام ہوا کارٹر صدارتی انتخاب ہار رہا ہے۔ اس کی جگہ ریگن کی فتح یقینی تھی۔ وہ بی فلموں کا اداکار ہونے کی وجہ سے ٹی وی سکرینوں پر اچھا لگتا تھا اور عموماََ یک سطری فقرے کے ذریعے اپنا مدعا بیان کردیتا۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق کی وجہ سے وہ کمیونزم کے خاتمے کو بھی بے چین تھا۔

جنرل ضیاء کی جانب سے کارٹر کی پیش کش کو "Peanuts"کہتے ہوئے رد کردیا تھا۔ یاد رہے یہ مونگ پھلی کا انگریزی متبادل ہے۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ کارٹر مونگ پھلی کی کاشت کا تقریباََ اجارہ دار بھی تھا۔ "پی نٹس" لہٰذا اس کی ذات پر لگائی ایک ذہین پھبتی تھی۔ کارٹر بالآخر صدارتی انتخاب ہار گیا تو ریگن نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کے فوجی حکام کے ساتھ سوویت یونین کو افغانستان میں گھیر کر ناکام بنانے کے لئے طویل ملاقاتیں کیں۔ "مجاہدین" کو "گوریلا جنگ" کی بدولت تربیت دی گئی۔ سی آئی اے کے حکام ڈالر بھرے سوٹ لے کر پاکستان آتے رہے۔

پاکستان میں"افغان جہاد" کا سیزن شروع ہوا تو مشرق وسطیٰ کے مصر کے علاوہ کئی ممالک نے اپنے ہاں کے "اسلامی انقلابیوں" کو "جہاد" لڑنے کے لئے افغانستان جانے کو اُکسانا شروع کردیا۔ اپنے ہاں ممکنہ سیاسی عدم استحکام پر قابو پاتے ہوئے یوں پاکستان کو "جہادیوں"کے سپرد کردیا گیا۔ صحافت میں اپنا مقام بنانے کے لئے مجھے 1980ء کے ابتدائی پانچ سالوں میں اس وقت بہت دُکھ ہوتا جب اسلام آباد کے پنج ستاری ہوٹلوں میں گل بدین حکمت یار جیسے "مجاہد" کلاشنکوف اٹھائے محافظوں کے ہمراہ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کے ہجوم سے طویل خطاب فرماتے اور یہ وہ برس تھے جب پاکستان کی تمام -جی ہاں جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتوں سمیت-سیاسی جماعتیں"کالعدم" ٹھہرادی گئی تھیں۔ ان کے رہ نما صحافیوں سے چھپ کر ملا کرتے۔ ہم ان کے ساتھ ہوئی گفتگو رپورٹ بھی نہیں کرسکتے تھے۔

پاکستان میں سیاست اور آزادی اظہار پر کامل پابندی کے باوجود امریکہ اور اس کے یورپی اور دیگر اتحادی پاکستان کو افغانستان "آزاد" کروانے کی جدوجہد پر توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے نہایت محترم گردانتے۔ اپنے صحافتی کیرئیر کی ابتداہی میں مقامی ہی نہیں عالمی سیاست پر چھائی منافقت کی دریافت نے مجھے ہمیشہ کیلئے اداس کردیا۔ سیاست خواہ مقامی ہو یا عالمی، "اصولوں" سے مبرا ہوتی ہے۔ مجھ جیسے احمق مگر دیوانگی میں"حق وباطل" میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ "حق" کا انتخاب کرنے والی عملی زندگی میں ہر اعتبار سے ناکام رہتے ہیں۔ جھوٹ کا فروغ صحافی کو ککھ پتی سے لکھ پتی بناسکتا ہے۔

سیاست میں"حق اور باطل" کے مابین نام نہاد جنگ کی حقیقت سمجھ جانے کے باوجود عمر کے اس حصے میں بھی اکثر گماں ہوتا ہے کہ کم ازکم فلاں گروہ یا شخص جھوٹی کہانیاں کھڑنے سے اجتناب برتے گا۔ چند ہی دن قبل میرا یہ گماں بھی مٹی میں مل گیا۔ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی دلی میں سرکاری مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد بذریعہ کار سہارن پور روانہ ہوگئے۔ یوپی کے اس شہر میں دارالعلوم دیوبند قائم ہوا تھا۔

برطانوی سامراج کے دور میں 1866ء کے برس قائم ہوا یہ مدرسہ برصغیر میں"اسلام کو زندہ وتابندہ" رکھنے کے نام پر قائم ہوا تھا۔ اس کے چند اکابرین نے انگریزی استعمار کے خلاف بے تحاشہ قربانیاں بھی دی ہیں۔ ان دنوں مذکورہ مدرسے کے صدر مولانا ارشد مدنی ہیں جو دارالعلوم دیوبند کے ایک بڑے استاد حسین احمد کے خاندان سے ہیں۔ متوکل کے استقبال کو وہ خود دارالعلوم کے دروازے پر موجود تھے۔ طالبان کے وزیر خارجہ کا انتظار کرتے ہوئے صحافیوں کو انہوں نے نہایت فخر سے آگاہ کیا کہ "دارالعلوم دیوبند" نے افغانستان کے امیر حبیب اللہ خان کو 1915ء میں اس امر پر مجبور کیا کہ وہ اپنے ہاں ہندوستان کی "جلاوطن /آزاد" حکومت قائم ہونے دے۔

امیر حبیب اللہ خان نے جس حکومت کو تشکیل ہونے دیا وہ اپنی سرشت میں"مذہبی" نہیں"سیکولر" حکومت تھی کیونکہ اس میں محض مسلمان ہی شامل نہیں تھے۔ مولانا مدنی یہ بتانا بھول گئے کہ مذکورہ حکومت قائم ہوگئی تو ہمارے ہاں"تحریک ہجرت" کا آغاز ہوگیا۔ میرے آبائی شہر لاہور کے کئی محلوں سے لوگ گھر بار، تعلیم وکاروبار چھوڑ کر کابل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ان کی اکثریت کو مگر کابل تک پہنچنے ہی نہ دیا جاتا تھا۔ کسی نہ کسی طرح وہ دارالحکومت پہنچ جاتے تو وہاں موجود برطانوی ایجنٹوں کو ان کے بارے میں تازہ ترین معلومات پہنچائی جاتیں۔ کابل سے دور رکھے "مہاجرین" کی اکثریت کو مقامی بااثر افراد یا حکومتی نمائندے گھیر گھار کر خیبر کے پار دھکیل دیتے اور اس کے عوض برطانیہ سے مناسب معاوضہ وصول کرتے۔

مولانا ارشد مدنی یہ حقیقت بھی فراموش کرگئے کہ امیر حبیب اللہ خان اپنے والد امیر عبدالرحمان کی وفات کے بعد 1901ء میں برسراقتدار آیاتھا۔ اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد موصوف برطانوی وائسرائے -لارڈ منٹو- سے ملنے کلکتہ آئے۔ برطانوی وائسرائے کو امیر حبیب اللہ خان نے یقین دلایا کہ وہ کبھی غلام ہندوستان میں"شورش" برپا کرنے والوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ روس سے بھی فاصلہ رکھتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو "غیر جانب دار" رکھیں گے۔ اس کے عوض برطانیہ موصوف کو سلطنت کا استحکام یقینی بنانے کے لئے مالی معاونت فراہم کرتا رہے گا۔

امیر حبیب اللہ خان افغانستان کو "جدید" بنانے کا خواہش مند بھی تھا۔ اسی وجہ سے اس نے وہاں حبیبیہ کالج کی بنیاد رکھی اور کابل میں پہلی بار بجلی کا استعمال متعارف کروایا۔ افغانستان میں تعلیم نظام کو فروغ دینے کے لئے اس نے "دارالعلوم دیوبند" سے رجوع نہیں کیا تھا۔ اس کی "جدت پسند" طبیعت کے باوجود افغانستان دربار کے امراء کے نزدیک وہ برطانیہ کا "ٹو ڈی" شمار ہوتا تھا۔ اسی باعث لغمان کے قریبی جنگل میں شکار کرتے ہوئے وہ ایک افغان فوجی کے ہاتھوں مارا گیا۔ تاریخ شبہ کرتی ہے کہ اس کے قتل کی سازش اس کے بیٹے امان اللہ خان نے اس وجہ سے تیار کی تھی کیونکہ وہ خود تخت سنبھالنے کے بعد افغانستان کو "مزید جدید" مگر برطانوی اثر سے آزاد کروانا چاہتا تھا۔

فروری 1919ء میں امان اللہ خان بادشاہ بن گیا۔ برطانیہ سے جنگ بھی لڑی مگر اس کے ساتھ "راولپنڈی سمجھوتہ" کرنے کو مجبور ہوا۔ برطانوی استعمار نے اس کے باوجود "ترقی اور جدت پسند" بادشاہ کے خلاف "عورتوں کو بے پردہ کرنے" کے الزام میں کرائے کے ملائوں کے ہاتھوں"کفر کے فتوے" لگوائے اور بالآخر بچہ سقہ کے ذریعے اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ کالم کے اختتام سے قبل مولانا مدنی کو یہ بھی یاد دلانا چاہوں گا کہ مختلف شورشوں کے بعد بالآخر نادرشاہ افغانستان کا بادشاہ ہوا تو اس نے اپنے ہاں تعلیمی نظام مرتب کرنے کے لئے "دارالعلوم دیوبند" کے کسی عالم کو زحمت نہیں دی تھی۔ موصوف نے علامہ اقبال کے علاوہ مولانا سلمان ندوی اور علی گڑھ کے سرراس مسعود کو اس ضمن میں افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan