27 ویں ترمیم اور رعایا کی بے بسی

پیپلز پارٹی کے جوان سال رہنما نے گزرے ہفتے کے آغاز میں ایک ٹویٹ لکھ کر روایتی اور سوشل میڈیا میں رونق لگادی۔ مذکورہ ٹویٹ میں انھوں نے جید صحافی کی طرح اندر، کی ایک اہم ترین خبر پھوڑی۔ ان کی دی خبر کے مطابق 8فروری 2024ء کے بعد سے تیار ہوا حکومتی بندوبست جسے جمہوریت کی ہائبرڈ قسم بھی کہا جاتا ہے آئین میں 27ویں ترمیم کا متمنی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے بجائے وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ فوج کی قیادت کے حوالے سے تنظیمی ڈھانچوں میں تبدیلی آئے گی۔
ان دونوں معاملات پر وہ حکومت سے تعاون کو رضا مند سنائی دیے۔ آئین کی 27ویں ترمیم مگر ان سے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملے اختیارات میں کمی کا تقاضا بھی کررہی تھی۔ وہ اس پر سمجھوتے کو تیار نہ تھے۔ اپنی جماعت کی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔ مذکورہ اجلاس میں ہوئے فیصلوں کے بعد ہفتے کی دوپہر پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں 27ویں ترمیم کا بالآخر جو مسودہ باقاعدہ منظوری کے لیے پیش ہوا وہ ان کا مطالبہ تسلیم کرتا سنائی دیتا ہے۔ فوج کا تنظیمی ڈھانچا اور وفاقی آئینی عدالت ہی 27ویں ترمیم کے اصل موضوع دکھائی دیے۔
جو مسودہ پیش ہوا ہے اسے آئین کی کتاب سامنے رکھ کردیکھنا چاہیے۔ قانون سے نابلد مجھ جیسا جاہل مگر تقابلی جائزے کی مشق سے گزرنے کے باوجود کوئی انوکھی چیز دریافت نہیں کر پائے گا۔ فیصلہ یہی کیا ہے قائمہ کمیٹیوں کی چھلنی سے گزرنے کے بعد 27ویں ترمیم کا مسودہ جب دونوں ایوانوں میں بحث کے لیے پیش ہو تو اس کی حمایت اور مخالفت میں ہوئی تقریروں سے کچھ سیکھنے کی کوشش کروں۔ میں اور آپ تفصیلات مگر اسی صورت میں جان پائیں گے اگر 27ویں ترمیم کے مسودے پر سیر حاصل بحث ہو۔ اچھی حکومت، کا قیام یقینی بنانے کے لیے تیار ہوئے قوانین پرپارلیمان میں عام بحث کا رحجان مگر ختم ہوچکا ہے۔ اشرافیہ منتخب، ساتھیوں کی مدد سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے جو قوانین تیار کرتی اور کرواتی ہے انھیں پارلیمان کے سامنے رکھتے ہی منظور کرلیا جاتا ہے۔
اس روایتِ بد کا آغاز ان دنوں جمہوریت کی سب سے بڑی محافظ ہوئی تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں شروع ہوا تھا۔ قمر جاوید باجوہ کی میعادِ ملازمت میں اضافہ مقصود تھا۔ یاد رہے کہ اس تناظر میں قانون کی تیاری کا حکم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دیا تھا۔ موصوف اہم ترین مقدمات کے بارے میں فیصلے لکھتے ہوئے ناولوں کے اقتباسات اور مشہور لکھاریوں کے اقوال کو پیش لفظ کے طورپر استعمال کیا کرتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی سے افتخار چودھری کے سپریم کورٹ کا تقاضا تھا کہ وہ بطور وزیراعظم پاکستان سوئس حکومت کو ایک خط لکھیں۔ جس خط کی فرمائش تھی اس کے ذریعے پاکستان کے وزیراعظم نے سوئس حکومت سے سرکاری طورپر یہ پوچھنا تھا کہ ان کے ملک کے صدر کی مبینہ طورپر کرپشن کے ذریعے کمائی دولت کون سے سوئس بینکوں میں کس مقدار کے ساتھ موجود ہے۔
ٹھنڈے دل سے سوچیں تو کسی بھی ملک کے وزیراعظم کی جانب سے اپنے ہی ملک کے صدر کے خلاف تیسرے ملک کو لکھا ایسا خط وزیراعظم کے ملک کی تحقیر ہی نہیں بلکہ ڈھول بجاتے ہوئے یہ اعلان کرنے کے مترادف ہے کہ اس کا ملک بدعنوانی کا مرکز ہے۔ وطن عزیز میں تاہم ٹھنڈے دل سے سوچا نہیں جاتا۔ اندھی نفرت ہم پر غالب رہتی ہے۔ افتخار چودھری یوسف رضا گیلانی سے جس نوعیت کے خط کا تقاضا کررہے تھے اس کے بارے میں ہمارے پڑھے لکھے افراد کی اکثریت نے بھی مذکورہ بالا تناظر میں غور نہیں کیا۔ مجھ جیسے دیہاڑی دار کالم نگاروں اور ٹی وی پروگراموں کی ریٹنگ کو بے قرار اینکر خواتین وحضرات نے بلکہ سینہ کوبی کرتے ہوتے ہوئے افتخار چودھری کا ساتھ دیا۔ یوسف رضا گیلانی ٹس سے مس نہ ہوئے تو انھیں توہینِ عدالت کی سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا۔ اس ضمن میں فیصلہ لکھتے ہوئے کھوسہ صاحب نے خلیل جبران کے حیف ہے اس قوم سے، والی نثری نظم سے آغاز کیا۔
قوم پر حیف بھیجنے والے کھوسہ صاحب مگر قمر جاوید باجوہ کی میعادِ ملازمت میں تجویز کردہ اضافے کے بارے میں فیصلہ لینے کی جرأت دکھانہیں پائے۔ انھیں اچانک یاد آگیا کہ پاکستان میں عوام کی منتخب کردہ پارلیمان بھی موجود ہے۔ قانون سازی، اس کا ذمہ ہے۔ قمر جاوید باجوہ کی میعادِ ملازمت میں اضافے کا فیصلہ اس کے سرڈال کر باجو کی گلی، سے نکل گئے۔ پارلیمان بھی بھولی، نہیں تھی۔ اس نے قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کے لیے جو قانون تیار کیا وہ تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ اس جماعت کی نظر میں چور اور لٹیروں، پر مشتمل اور اقتدار میں باریاں لینے والی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بھی متفقہ طور، پر 12 منٹ کی ریکارڈ مدت میں قومی اسمبلی سے منظور کرلیا۔ تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی اسے منظور کرنے میں فقط 12 ہی منٹ لیے۔ زندگی میں پہلی بار تحریری طورپر اعتراف کررہا ہوں کہ مذکورہ قانون کی عاجلانہ منظوری کے بعد میرا جھکی ذہن جھکی نہ رہا۔ اس وقت سے قنوطیت اور مایوسی میری فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔
سیاستدانوں سے کاملاً مایوس ہوا ذہن لہٰذا ہفتے کے روز نمودار ہوئے 27ویں ترمیم کے مسودے سے ہرگز حیران نہیں ہوا ہے۔ دل ودماغ میں کوئی امید باقی رہ گئی ہوتی تو آئین کی کتاب کو پیش ہوئے مسودے کے ساتھ رکھ کر تھوڑے غوروفکرکے بعد یہ کالم لکھتا۔ ہم صحافیوں کے لکھے الفاظ کی لیکن یقین مانیے کوئی وقعت باقی نہیں رہی۔ وہ زمانے لد گئے جب ہم سوال اٹھاتے تو حکمران پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ ہم صحافیوں کی بے علمی اور بے وقعتی کو ہفتے کے دن چھپے ایک کالم میں میرے دوست سہیل وڑائچ نے ایک اور انداز سے دیکھا ہے۔
اشرافیہ کارعایا پر کنٹرول مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے جو لوگ ماضی میں متحرک رہتے انھیں نام لے کر معتوب کیا جاتا تھا۔ قدرت اللہ شہاب، میاں منظور قادر اور الطاف گوہر مذکورہ تناظر، میں بہت بدنام ہوئے۔ 2019ء کے بعد سے اشرافیہ کے کنٹرول کو مستحکم بنانے والے قوانین البتہ بے چہرہ لوگوں، کی جانب سے تیار ہوئے نظر آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی رعایا کسی طلسم کا غلام ہے۔ اس طلسم کو سمجھنا ہو تو کبھی وقت نکال کر کافکا نامی ناول نگار کی تحریریں پڑھ لیا کریں۔ اپنی بے بسی کو درگزر کرنا آسان ہوجائے گا۔

