زمینیں اور زمانے
کچھ لوگ خاموشی سے اپنا کام کیے جاتے ہیں انھیں ناجائز شہرت حاصل کرنے کے لیے ڈھول پیٹنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آتی ہے، انھیں معلوم ہے کہ ان کی کار گزاری اور صدق دل اور لگن سے کیا ہوا کام ہی ان کی شناخت ہے، مبین مرزا کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، مبین مرزا کی زندگی کا بیشتر حصہ ادب کی خدمت کرتے ہوئے گزرا ہے۔ وہ خوبصورت کتابیں شایع کرتے ہیں ان کا اشاعتی ادارہ "بازیافت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
"مکالمہ" کے عنوان سے باقاعدگی کے ساتھ سہ ماہی اور ششماہی پرچہ بھی نکالتے ہیں۔ ان کے کئی افسانوں کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں، حال ہی میں شایع ہونے والی کتاب جوکہ دس افسانوں پر مشتمل ہے، "زمینیں اور زمانے" کے عنوان سے شایع ہوئی ہے۔ کتاب 208 صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کا انداز بیان کلاسیکی ہے ہر کہانی افسانے کے قالب میں زندہ جاوید نظر آتی ہے، متحرک، بولتی ہوئی، سانسیں لیتی ہوئی، یہ کہانیاں جنھیں افسانوں کا روپ عطا کیا ہے ہمارے معاشرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے افسانوں کے تمام کردار توانا ہیں منظر نگاری دل آویز ہے۔
حالات و واقعات، رشتوں ناتوں کی زہرناکیوں، سماجی تلخیوں کو ایک ایسا پیراہن عطا کیا ہے جسے پڑھ کر قاری عش عش کر اٹھتا ہے، یہ افسانے پڑھنے والوں کو کئی کئی دن تک اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں، افسانے کا طلسم مکمل افسانہ بلکہ تمام افسانے پڑھنے پر مجبور کردیتا ہے۔ مصنف کے افسانوں کے کردار مہذب اور شائستگی کے رنگوں سے آراستہ ہیں۔"زمینیں اور زمانے" کے افسانے پڑھتے ہوئے مجھے بنت اور اسلوب کے اعتبار سے بیدی کے کئی افسانے یاد آگئے۔
بیانیہ طرز کے افسانوں میں دلکشی بھی اور تجسس کی فضا بھی پروان چڑھتی ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ قاری کو دھوکا دینے اور جھوٹ بولنے، انا کے خول میں ملبوس کرداروں سے ہرگز نفرت نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ انھیں اس طرح قبول کرتا ہے کہ یہ سب کچھ معاشرے کا حصہ ہے، افسانوں کے زیادہ تر کردار یا پھر جتنے میں نے افسانے پڑھے ہیں سب شاکر و صابر ہیں وہ انتقام پر یقین نہیں رکھتے وہ "بھولی بسری عورت" کی لالی ہو، اجنبی موسم کی فرخندہ ہو، یا پھر دہری سزا کی افشاں ہو، طارق کی تابعداری اور چاچا جی کی دور اندیشی، دانشوری بھی قاری کو متاثر کرتی ہے۔
جہاں تک منظر کشی کا تعلق ہے تو مصنف نے لفظوں سے تصویریں پینٹ کی ہیں، ہر چیز واضح اور ہر بات مدلل ہے۔ معاشرتی قصے کہانیوں میں اور کہانیاں افسانوں میں ڈھلتی ہوئی تخلیقیت کے حسن اور اظہار بیان کے محاسن کو بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔
مجموعے کی تین چار کہانیاں میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالیں۔
افسانہ "بھولی بسری عورت" سے ایک اقتباس۔
"گاڑی ایئرپورٹ سے نکل کر امپیریل سینما کے سامنے سے ٹھنڈی سڑک کی طرف ہولی۔ ہاں اس کے حافظے میں تو ٹھنڈی سڑک ہی تھی اور اس وقت وہ تھی بھی ٹھنڈی سڑک۔ یہ جو پلازہ اور کئی کئی منزلہ عمارتیں اس سڑک پر نظر آ رہی تھیں، یہ سب تو پچھلی دو دہائیوں کی ترقی ہے، ورنہ اس سے پہلے تو یہاں دو رویہ درختوں کی قطاریں تھیں اور ان کے پیچھے فوجی بیرکیں، کھلے میدان اور مختصر آبادی کے چھوٹے چھوٹے نشان تھے لیکن اب تو اس علاقے کی صورت ہی بدل گئی تھی، وہ پرانہ نقشہ تو شاید اس کی طرح صرف انھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ رہ گیا ہو گا جو ان ساری تبدیلیوں سے پہلے شہر ملتان کو چھوڑ کر کہیں اور جا بسے ہوں گے۔ چھوڑی گئی زمینیں اور بھلائی گئی عورتیں ہمیشہ کے لیے مرد کے حافظے میں اپنی جگہ بنا لیتی ہیں یہ راز اس پر کھلا تھا لیکن ذرا بعد میں۔"
مذکورہ افسانے کا کلیدی کردار طارق ہے جو ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جہاں ذات، اعلیٰ و ادنیٰ کنبوں کی تفریق کو اولیت، انسانیت اور اسلامی تعلیم کو ثانوی درجہ دیا جاتا ہے۔ ادھر بھی حالات کی ستم ظریفی نے طارق اور اس کی چاہت لالی کو ایک دوسرے سے جدا کردیا لیکن جب ایک طویل عرصے کے بعد طارق کی ملاقات لالی سے ہوئی تو دونوں کے دلوں میں ہجر کی چبھن اور کسک انھیں طوفانی لہروں کے سپرد کردیتی ہے اس جگہ تخلیق کار کا کمال یہ ہے کہ دونوں ماضی کے حوالے سے ایک جملہ بھی ادا نہیں کرتے ہیں لیکن منظرنامہ اور مکالمے کی فضا میں اداسی اور محرومی کا احساس قاری کو شدت کے ساتھ ہوتا ہے۔
"دہری سزا" یہ افسانہ بھی اپنی بنت کے اعتبار سے دل کو چھو لینے والا افسانہ ہے چاچا جی کا مضبوط کردار ان کی حکمت عملی اور اپنے خاندان کی بقا کے لیے مدبرانہ فیصلے مردانہ غیرت، خاندانی شرافت اور وقار کا جیتا جاگتا شاہکار ہے یہ چاچا جی کی شخصیت ہی تھی کہ ان کے حکم پر ان کا یتیم بھتیجا احتشام دیارِ غیر سے چلا آیا، اس بات کو وہ ہرگز نہیں بھولا تھا کہ وہ چاچا جی کا مجرم ہے ان کی دوسری جواں سالہ بیوی افشاں سے وہ اظہار محبت کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور پھر اسے ملک بدر کردیا گیا اور اب جب کہ وہ چاچا جی کے بلانے پر آگیا تھا تو چاچا جی نے بڑے بڑے انکشافات کیے، اسی افسانے سے چند سطور۔
"اس دن تمہارے اس واقعے کے بعد میں نے اپنا ٹیسٹ کروایا طے ہوا کہ میں باپ بن ہی نہیں سکتا، ظاہر ہے وہ تماشا دیکھنے کے بعد اس عورت کی میری زندگی میں کوئی جگہ باقی نہیں تھی، میں نے اسے طلاق دی اور باپ کے گھر بھیجنے سے پہلے بتا دیا کہ عدت پوری کرنے کے بعد اس کے گھر والوں کے پاس، اس کے پاس ایک رشتہ آئے گا، جس سے اسے نکاح کرنا ہے" افسانہ نگار نے مکالموں کی شکل میں احتشام کو شادی کرنے پر مجبور کیا اور چاچا نے کینسر جیسے موذی مرض اور اپنی زندگی کے قلیل عرصے سے بھی آشکارا کردیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ خاندان کی اکلوتی اولاد ہے اس لیے پرکھوں کا سارا ورثہ اور ساری عزت و ناموس سب کچھ تم کو ہی منتقل کرنا ہے۔"
مبین مرزا کے لکھے ہوئے تمام افسانے ہر لحاظ سے مکمل اور بھرپور ہیں۔ میں انھیں دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں وہ کم لکھتے ہیں لیکن بہت خوب لکھتے ہیں۔