صاحبان اختیارات اور عدم تحفظ
وہ سب بھاگ رہے ہیں دوڑنے کے انداز میں چل رہے ہیں، یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی اژدھا ان کے پیچھے لگ گیا ہے، اس سے بچنے کے لیے گھروں کی سمت قافلہ رواں دواں ہے کچھ لوگ دفتر سے لوٹے ہیں اور کچھ تعلیمی درسگاہوں، کارخانوں اور دکانوں سے، اس افراتفری اور خوف و ہراس کی پرچھائیوں کے درمیان نوجوان لڑکیاں، عمر رسیدہ مرد و زن بھی اور خواتین کے ساتھ ان کے بھائی، باپ ہیں، کسی کے ساتھ ان کا خاوند ہے، لیکن جس کا کوئی نہیں ہے، وہ تنہا ہی بھاگی چلی جا رہی ہیں، زندگی کا بوجھ اٹھائے، ڈر اور خوف کے زہریلے سانپوں کو اپنے بدن پر رینگنے کے احساس کو چھپائے رواں دواں ہیں، کچھ لوگ حفظ ماتقدم کے تحت پٹرول ڈلوانے والوں کی قطار میں جا کر کھڑے ہوگئے ہیں، یہاں بھی عدم تحفظ کا اژدھا ان کے گرد منڈلا رہا ہے نہ جانے کب کیا ہو جائے، کیا جوان اور بوڑھی عورتیں اور معصوم بچے، پھول جیسی بیٹیاں، کوئی محفوظ نہیں۔
متشدد کا کچھ پتا نہیں کہاں سے نمودار ہو جائے اور عزت و پاکبازی کی چادر کو سر بازار تار تار کر ڈالے، ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، ہزاروں پہرے دار بے بس ہو جائیں گے اور قانون مصلحت کے تقاضوں کے تحت خاموشی اختیار کرلے گا، سب جانتے ہیں ایسا ہی ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے اور یوں ہی ہوتا رہے گا، خواہکوئی بھی ریاست ہو یا کفار کی شرپسندی۔
سورج کا سرخ گولہ مغرب کی آغوش میں پہنچنے کے لیے سفر جاری رکھے ہوئے ہے کہ یہ اس کا روز کا معمول اور حکم خداوندی ہے۔ ملگجا اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے اور بہت جلد سیاہ شب نمودار ہونے والی ہے، شیطان اور اس کے چیلے صدا سے ہی ظلمتوں کے شیدائی ہیں، بہت آسانی کے ساتھ اپنا کام کر جاتے ہیں انھیں کسی کا ڈر نہیں۔ انسانیت پر دھاوا بولنے میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ہے۔
ان شیاطین کے لیے کوئی قانون ہے اور نہ سزا۔ سزا اگر مل بھی جاتی ہے تو تھوڑے ہی عرصے بعد رہا کردیا جاتا ہے کہ جا بیٹا! اپنا کام کر، رام بھلی کرے گا۔ رام تو بھلی کرے گا پر اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے، دیر ہے اندھیر نہیں ہے، بعض مجرمان کی فائلیں ردی کے ڈھیر تلے دب جاتی ہیں اور بعض کی سامنے آ جاتی ہیں، جس طرح بلدیہ فیکٹری کا فیصلہ آیا ہے۔ اس میں سقم ہے کہ نہیں؟ اس حقیقت سے وہی آشنا ہیں جنھوں نے کیس تیار کیا اور عدالت تک پہنچایا۔
موٹروے کے واقعے نے سب کے دل دہلا دیے ہیں کوئی بھی باعزت شخص اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہا ہے۔ چونکہ اس سانحے کے بعد ہر روز پہ در پہ عزت و ناموس پر دھبہ لگانے اور خاندانوں کو ذلت کے احساس سے ہمکنار کرنے کے واقعات جنم لے رہے ہیں۔ حکمران خاموش تماشائی اور بے حسی کی مورت بنے بیٹھے ہیں، جیسے ان کے اختیار میں کچھ نہیں رہا، تمام ادارے بھی حکومت کے ہمنوا ہیں، اگر احساس زندہ ہوتا اور ضمیر کچوکے مارتا تو یہی اہم لوگ فوراً جیلوں میں جمع کیے ہوئے ان مجرمان کو ایسی عبرت ناک سزا دیتے کہ سالہا سال کوئی بدکردار اپنے اندر ہمت نہ پاتا بلکہ اپنی غلیظ سوچ پر بھی لعنت ملامت کرتا۔
عموماً چیف جسٹس صاحب کے بیانات اصلاح معاشرہ کے حوالے سے اکثر سامنے آتے ہیں گزشتہ سالوں میں چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار بھی سماجی المیوں اور زیادتی کی نشاندہی کیا کرتے اور اکثر جائے وقوعہ پر مثلاً اسپتالوں وغیرہ میں پہنچ کر داد رسی کیا کرتے تھے ان مریضوں اور بے یار و مددگاروں کی جو ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، صاحبان اختیارات کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے وطن کی ماں، بیٹیوں کی عزت و وقار کو اپنے گھر کی عزت کی طرح ان کو تحفظ کا احساس دلائیں، اس کے لیے اس بدبو دار معاشرے کے ناسور کو کاٹ کر پھینک دیں ورنہ گھناؤنے کیڑے، رینگتے ہوئے دور دور تک پہنچ جائیں گے کراچی سے کہیں زیادہ پنجاب کا برا حال ہے، پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی یہ آزمائش کا وقت ہے کہ وہ اس دلدل سے معصوم لڑکیوں اور راہ چلتی، گھر میں بیٹھی خواتین کو کس طرح حفاظت بخشیں گے اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی آزمائش میں کامیاب ہوں گے۔
جناب عثمان بزدار کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے، اوکاڑہ، گوجرانوالہ اور دوسرے علاقہ چیچہ وطنی میں گن پوائنٹ کے زور پر اس شیطان مردود نے جنسی تشدد کی داستان رقم کر ڈالی، لڑکی تنہا تھی، راستہ ویران تھا، ظالموں نے درندگی کی مثال قائم کردی اسے اسلحے کے زور پر حویلی میں لے گئے۔ کراچی میں اسٹیٹ ایجنٹ نے اپنے چہرے پر بدنما داغ اور بیوہ کے منہ پر کالک مل دی، ایسے معاملات میں پولیس کا بھی گھناؤنا کردار سامنے آیا ہے۔ بعض واقعات میں تو وہ خود بھی ملوث رہی ہے، شہر جنگل بن گئے ہیں، درندے بے دھڑک شکار کی تلاش میں گلی کوچوں میں پھیل گئے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ کے ہوں یا پنجاب کے آنکھیں بند کرکے حکومتی امور انجام دے رہے ہیں، دیگر حکام کا بھی اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کرنے میں نمایاں کردار رہا ہے۔ انھیں بنسری بجانے کا بڑا شوق ہے اور وہ بجا رہے ہیں۔
موجودہ حکومت میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے آٹا، دالیں، سبزی غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہیں، ذرا وزیر اعظم عمران خان اپنے ملک کے باسیوں کی تنخواہوں اور مزدور کی اجرت کا حساب تو لگائیں کہ یہ لوگ ماہانہ کتنا کماتے ہیں بیس، تیس ہزار سے زیادہ نہیں۔ اس معمولی رقم میں گھر کا کرایہ اور بچوں کی فیس ادا کریں یا بھوکا شکم بھریں، ساتھ میں مزید ظلم یہ کہ جان بچانے والی دواؤں کی قیمت میں ہوش ربا اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اچھا ہی کہا، نہ دوا خریدنے کی سکت ہوگی اور نہ جان بچے گی۔ جان جانا ہی زیادہ بہتر ہے کہ غم روزگار اور نہ عدم تحفظ کا خوف لیکن غریب کے لیے تو مرنا بھی مشکل ہے قبر بھی مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے۔ استغفراللہ ہم کس مقام پر آگئے ہیں۔