ممتاز صحافی زیب اذکار سے مکالمہ (حصہ اول)
زیب اذکار حسین صحافت اور فکشن کے اعتبار سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں، وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں، گویا انھوں نے حقائق کی منظر نگاری کے لیے صحافی ہونے کو ترجیح دی اور اسے ہی اپنا روزگار کا وسیلہ بنایا اور ایک انگریزی اخبار سے وابستہ ہوگئے اور صحافیانہ سرگرمیوں میں دن رات ایک کر دیے۔
، بے شمارکالم لکھے، انٹرویوز لیے اورآشوب زمانہ کے حوالے سے رپورٹس لکھیں اپنے اخبار کے لیے، قانون، عدالت اور انسانی حقوق کی پامالی پر مضامین لکھنا ان کے پیشے کا حصہ ہے ادبی سرگرمیوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے اسی وجہ سے ادب کی اہم شخصیات اور ادبی تقریبات کا احوال بھی وہ بڑے موثر انداز میں بیان کرتے ہیں، انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اپنے اخبار کی پہلی ایمپلائیز یونین سی بی اے کے فاؤنڈنگ پریزیڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔
پریس کلب کے سبزہ زار پر جہاں ماحول بڑا پرسکون اور خوشگوار ہوتا ہے۔ دیے گئے وقت کے مطابق وہاں پہنچے ان سے چند سوالات کیے جو ہماری دیرینہ خواہش تھی، ان کی صلاحیتوں اور ذمے داریوں کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کیا جائے چونکہ وہ صرف صحافی ہی نہیں بلکہ فکشن رائٹر بھی ہیں ایسا عموماً ہوتا ہے کہ اخبار سے وابستہ اشخاص شاعری یا ادب کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کی بنا پر قدم رکھ ہی دیتے ہیں۔ ہمارا ان سے پہلا سوال تھا کہ آپ خود اپنے حالات زندگی کو مختصراً بیان کیجیے۔ ان کا جواب تھا۔
میں نے سرگودھا شہر میں آنکھ کھولی سن 1960 تھا، میرے والد میڈیسن کی تجارت کیا کرتے تھے، اسی سلسلے میں بہن بھائی شہروں شہروں کی سیرکیا کرتے۔ دراصل ہمارے خاندان کا تعلق ایران کے شہر شیراز سے ہے، کچھ عرصہ ہمارے بزرگ انڈیا فیض آباد میں بھی مقیم رہے اس کے ساتھ ہی ہمارا ایک خاص حوالہ حضرت سلطان باہوؒ سے بھی ہے۔ اس کی وجہ میرے خیال کے مطابق یہ رہی ہوگی کہ وہ حضرت عباس علمدار کی اولاد میں سے ہیں اور ہمارا بھی کچھ اسی طرح کا سلسلہ ہے اور بھی معاملات مشترک ہوسکتے ہیں جن کا مجھے زیادہ علم نہیں ہے۔
زیب اذکار صاحب آپ عرصہ دراز سے افسانے لکھ رہے ہیں اور اب تو ناول و شاعری کی طرف بھی آگئے ہیں وہ کیا محرکات تھے جس نے آپ کے قلم کو مہمیز کیا؟
(انھوں نے عادتاً انکساری سے نظریں جھکا کر جواب دیا۔ یہ ہم نے اس لیے ان کے اوصاف بیان کیے ہیں حقیقتاً وہ ایک شریف النفس اور باوقار شخصیت کے مالک ہیں۔ ) بات یہ ہے کہ گھر کا ماحول ہر لحاظ سے ادبی تھا، تہذیب، تمیز، شرافت اور دیانت ہمیں ورثے میں ملی۔ سونے پر سہاگہ والدین بھی باذوق تھے شعر وادب سے انھیں لگاؤ تھا، کتابیں بھی میسر آگئی تھیں لہٰذا ہم بہن بھائی بھی مطالعے کی طرف راغب ہوگئے اور بہت جلد قلم سنبھال لیا۔ میں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اپنے ہاتھ سے لکھ کر رسالہ ترتیب دیتا تھا، اس میں کہانیاں، لطیفے اور مزاحیہ اشعار ہوتے تھے اور باقی آیندہ کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور پھر بہن بھائیوں میں ہی یہ تقسیم ہوجاتا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ شوق پروان چڑھتا چلا گیا۔
آپ کے بہن بھائیوں پر بھی ماحول کے اثرات مرتب ہوئے؟
بالکل ہوئے، بڑے بھائی شاعری کی طرف آگئے، آج کل وہ امریکا میں مقیم ہیں ان کا ایک شعری مجموعہ "Never Lost" کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔ میرے چھوٹے بھائی اسرار حسین بھی بہت اچھے شاعر تھے، تنقیدی مضامین بھی لکھا کرتے تھے، انھوں نے لفظ "شاکی" کا تخلص اختیارکیا تھا لیکن افسوس اب وہ ہم میں نہیں ہیں، ان کی جواں مرگی نے ایسا خلا پیدا کردیا ہے جو کبھی پُر نہ ہوسکے گا، مرحوم اسرار حسین کے ذکر نے ماحول کو سوگوار بنا دیا تھا۔ لہٰذا ہم نے فوراً ایک دوسرا سوال داغ دیا۔
زیب اذکار صاحب یہ بتائیے کہ آپ کا ادب و تنقید کے حوالے سے اچھا خاصا کام جمع ہوگیا ہوگا کیا یہ آپ کی کاوشیں کتابی شکل میں آچکی ہیں یا آنے والی ہیں؟
کچھ کام خصوصاً افسانوی مجموعہ "دور اذکار افسانے" کے عنوان سے شایع ہوچکا ہے، باقی بہت سا کام ایسا ہے جو زیر ترتیب ہے انھی میں مضامین کو یکجا کرنا اور ناولوں کی اشاعت بھی شامل ہے۔
اچھا تو کیا آپ ناول لکھ چکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ نے نام تجویزکرلیے ہوں گے تو برائے مہربانی اپنے قارئین کو آنے والی کتابوں سے آگاہ کیجیے۔
ایک ناول "بندوبست" اور دوسرا " ثابت ہے کائنات کا ہونا"۔
"بندوبست" نام آپ نے اچھا تجویزکیا ہے، اس میں معنی خیزی ہے اور سوچنے پر مجبورکرتا ہے، اس کی تھیم کیا ہے؟
جی بہت شکریہ، وہ مخصوص مسکراہٹ اور عاجزی کے ساتھ گویا ہوئے۔ بندوبست کی کہانی ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ کبھی وہ اپنے طرز عمل سے بالکل نارمل نظر آتا ہے تو کبھی ایب نارمل اور نفسیاتی مریض، گویا ناول کا یہ کلیدی کردار ہے ویسے اہمیت تو ہر کردار کی اپنی جگہ مسلم ہے۔
اور آج کل جو آپ شاعری کرنے لگے ہیں بلکہ محفلوں میں سناتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں افسانوں سے شاعری کی شاہراہ پر کیسے چڑھے؟
بس یوں سمجھیں کہ میں جب اپنا ناول "بندوبست" لکھ رہا تھا تو کرداروں اور موقع کی مناسبت سے اشعار شامل کرنا ضرورت میں شامل ہوگیا اور نثر لکھتے لکھتے نثری نظموں کی طرف آگیا، گویا یہ دانستہ نہیں ہوا، بلکہ قدرتی سا عمل تھا اور اب باقاعدہ شاعری کرنے لگا ہوں۔
تو اسی کو کہتے ہیں "ایک پنتھ دو کاج"۔
ابھی آپ نے اپنے افسانوی مجموعہ کا ذکر کیا اس میں کئی افسانے ایسے ہیں جو قاری کو چونکا دیتے ہیں، آپ نے نت نئے تجربات کیے ہیں؟
آپ کا اشارہ کس طرف ہے؟ زیب اذکار نے استفسار کیا؟
جی میرا اشارہ افسانہ "تین میں نہ تیرہ میں" یہی عنوان ہے نا، آپ کا مکمل افسانہ ابتدا سے انجام تک محاوروں کے ذریعے تکمیل کو پہنچا ہے۔ ابتدا اس طرح ہے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ پیروں تلے زمین نکل گئی اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اس کے علاوہ ایک عجیب و غریب زبان آپ نے ایجاد کی ہے جسے آپ ہی سمجھ سکتے ہیں؟ جی آپ نے درست فرمایا اس کا نام "ٹنڈ منڈ تحریر" ہے یہ ان حالات کی تنہائی ہے جب خونریزی اور نفرت و تعصب کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ اور طاقت اظہار سلب کرلی گئی تھی۔ تب ان گونگے اور بہرے لفظوں کا جنم ہوا تھا۔
آپ کے افسانے بیانیہ طرز سے دور ہیں جب کہ بنیاد تو وہی ہے؟ جواب میں انھوں نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے، میں نے افسانہ نگاری میں تمثیلی علامتی اور استعاراتی طور پر تجربات کیے ہیں، میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فن افسانہ نئے تجربات اور رجحانات کا متقاضی ہے۔
آپ نے درست فرمایا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ علامتوں کا استعمال اس وقت وجود میں آیا جب اظہار رائے پر پابندی لگ گئی تھی۔
بقول شہزاد منظر اس دور میں شہری آزادی کو کچلنے کا عمل شروع ہوگیا تھا اور انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی عائد کردی گئی تھی اس کے چند سال بعد پہلا مارشل لا نافذ ہوا۔ انھی حالات کے تناظر میں انتظار حسین، انور سجاد کے ساتھ دوسرے افسانہ نگاروں کے نام بھی سامنے آئے۔ آپ نے ان اہم تاریخ ساز افسانہ نگاروں سے کس حد تک استفادہ کیا؟ بات یہ ہے کہ میں نے کسی کو کاپی نہیں کیا۔
میں اس تبدیلی کو جدیدیت کا تقاضا سمجھتا ہوں، اس کی وجہ انڈیا میں بغیر مارشل لا لگے علامتی افسانے لکھے جا رہے تھے، میرا انداز فکر شعوری عمل ہے، بس ذہن میں ایک خاکہ ہوتا ہے جو فطری سطح پر کبھی تمثیل تو کبھی علامت، تجریدیت اور استعاراتی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ ایک جینوئن تخلیق کار خواہ وہ آرٹسٹ ہو یا افسانہ نگار یا اظہار کی دوسری صورتوں میں جڑا ہوا ہو۔ اس کی کاوشیں فلسفے، نفسیات، آرٹ اور دوسرے اظہار فنون سے مل گئی ہیں اور ان کے اثرات ان تحریروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔
(جاری ہے)