Jinnah, Pakistan, Mullaiat o Mazhabi Pehwaiat
جناح، پاکستان، ملائیت و مذہبی پیشوائیت

نصابی کتابوں میں تو جناح "حضرت قائد اعظم، بابائے قوم محمد علی جناحؒ تھے"۔ سرکاری ٹی وی پر وہ زیادہ تر "جناح کیپ، سفید شیروانی میں نظر آتے تھے"۔ ہمارے اہلسنت المعروف بریلوی کی مساجد میں علماء و مشائخ کے ہاں وہ "ولی کامل تھے"۔ 25 دسمبر کی صبح، نماز فجر کے بعد مساجد میں ان کے لیے قران خوانی کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔
پھر میں نے جب پاکستان ٹائمز، لیل و نہار، وویو پوائنٹ، ہفت روزہ نصرت، الفتح کراچی، ویکلی آؤٹ لک کراچی اور ڈیلی ڈان میں میں چھپنے والے درجنوں مضامین پڑھے اور کئی ایک ایسی کتابیں پڑھیں جس میں وہ "مسٹر جناح" تھے۔
جناح کی سیاست کے اولین ادوار جو 1930ء تک کے زمانے کی ان کی زندگی پر روشنی ڈالتے تھے تو میری ملاقات ایک لبرل، روشن خیال، عقلیت پسند، سیکولر، نیشنلسٹ، قانون پسند "جناح" سے ہوئی۔ وہ لندن اور ممبئی کی بورژوازی ہائی کلاس سوسائٹی میں بہت معروف تھے، جنھیں شکسپئیر اس حد تک پسند تھا کہ وہ اس کے مشہور و معروف کرداروں کے مکالمے ادا کرتے، اداکاری کے جوہر دکھاتے۔
بہت کامیاب وکیل تھے۔ ممبئی کے پارسی سرمایہ دار ہوں، بوھری، اسماعیلی تاجر ہوں، بڑے بڑے نواب، راجا، مہاراجا، سردار اور خوانین کے وکیل تھے۔ وکالت سے لاکھوں ماہانہ کماتے تھے۔ حصص کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ رئیل سٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے تھے۔ ممبئی اور دلّی میں انتہائی پوش علاقوں میں ان کے بنگلے تھے۔ لاہور، ممبئی، کراچی جیسے شہروں میں ان کے پاس رہائشی اور کمرشل جائیدادیں تھیں جن کا ماہانہ کرایہ لاکھوں روپے وصول ہوتا تھا۔ وہ مہنگے ترین لباس، جوتے، ٹائیاں خرید کرتے تھے۔ مہنگے ترین سگار اور سگریٹ کے برانڈز خریدتے تھے۔ اعلی کوالٹی کی شراب پیتے تھے، ہمبرگ برگر، سینڈوچ کھانے سے انہیں گریز نہیں تھا۔
وہ ممبئی کے طبقہ اشرافیہ کی حسین ترین جوان خواتین میں بہت مقبول تھے۔ ان کی شخصیت کی کشش نے ان کے پارسی سیٹھ دوست کی بیٹی کو ان پر فریفتہ کر دیا تھا اور پھر جناح بھی اس کی محبت شدید محبت میں مبتلا ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہ جو مذہب کو زرا اہمیت نہیں دیتے تھے، اس پسند کی شادی نے انہیں ممبئی کورٹ میں اپنا آبائی مذہب اسماعیلی خوجہ چھوڑ کر اثناء عشری خوجہ کا سرٹیفیکٹ داخل کرانے پر مجبور کردیا۔ ان کا یہ سرٹیفیکٹ ان کی موت کے بعد ان کی جائیداد پر پیدا ہونے والے تنازعے کے وقت محترمہ فاطمہ جناح کے بہت کام آیا ہے، جس سے یہ بات پایہ ثابوت کو پہنچی کہ وہ اثناء عشری خوجہ تھے، اس لیے ان کی وراثت اسی مذہب کے مطابق تقسیم ہوگی ناکہ خوجہ اسماعیلی شیعہ مذہب کے قانون وراثت کی روشنی میں۔ فاطمہ جناح کے گواہوں میں نوابزادہ لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔
جناح نے گاندھی کی جانب سے آل انڈیا کانگریس کی سیاست میں "مذہب" کی شمولیت اور مذہبی اصطلاحوں کے استعمال کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے تحریک خلافت، تحریک ہجرت، تحریک عدم موالات کی شدید مخالفت کی۔
جب گاندھی نے گانگریس پر اپنا کنٹرول مکمل کرلیا اور ان کے پیروکاروں نے ان کی شدید توہین کرنا شروع کی تو وہ آل انڈیا کانگریس سے الگ ہوگئے اور 1925ء سے 1935ء تک انہوں نے "کمیونل ایشو" پر اپنا رویہ بہرحال "تھوکریٹک" نہیں ہونے دیا۔ ان کی سیاست "کمیونل" تو تھی مگر وہ فرقہ وارانہ نہیں تھی۔
وہ مسلم برادری کے حقوق اور ان کے تحفظ کی بات "سیکولر انداز" میں ہی کر رہے تھے۔ وہ اس وقت تک "ہندؤ" اور "مسلمان" کو الگ الگ قوم تصور نہیں کرتے تھے۔ وہ اسے ہندوستانی قوم پرستی کے وسع اور متنوع تناظر میں رکھ کر دیکھ رہے تھے۔ تبدیلی یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک ان دو برادریوں کے درمیان کمیونل ایشو کا کوئی سیاسی تصفیہ نہیں ہوتا، ہندوستان کو آزادی نہیں ملے گی اور اس دور میں ان کا یہ کہنا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کوئی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے تو وہ آل انڈیا مسلم لیگ ہے۔
جناح کے ہاں "فرقہ وارانہ" نکتہ نظر 1935ء کے ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی اور قانون ساز صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد آیا جب آل انڈیا کانگریس نے آل انڈیا مسلم لیگ سے کم از کم صوبہ متحدہ جات، بنگال اور مرکز میں شراکت اقتدار سے انکار کردیا اور ان کے انتہائی گہرے دوست موتی لال نہرو کے کے بیٹے جواہر لال نہرو نے انہیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کو نہ صرف مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ماننے سے انکار کردیا بلکہ انھوں نے ایک طرف تو یہ کہا کہ ہندوستان کا مسئلہ "ہندؤ۔ مسلمان" نہیں بلکہ "غربت اور امارت" کے درمیان بڑا تضاد ہے، دوسری طرف انھوں نے مسلمانوں کی روایتی قدامت پرست مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے یہ کہنا شروع کردیا کہ مسلمانان ہند کی نمائندگی ان جماعتوں کے علماء و مشائخ کرتے ہیں، ان میں سب سے بڑی جماعت جمعیت علمائے ہند تھی۔
جناح نے اس کے جواب میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کو "ہندؤں" کی نمائندہ جماعت قرار دیا اور اپنے پرانے کمیونل سیاسی موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے یہ دعوا کیا کہ ہندوستانی قوم نام کی کوئی قوم سرے سے موجود نہیں ہے۔ ہندوستان اصل میں دو قوموں کا ملک ہے۔ ایک مسلمان قوم ہے جس کی نمائندگی ال انڈیا مسلم لیگ کر رہی ہے اور دوسری "ہندؤ" قوم ہے جس کی نمآئندگی "آل انڈیا نیشنل کانگریس کر رہی ہے۔ انہوں نے "مذہب" کی بنیاد پر قوم کی تشکیل کا بھرپور دفاع کیا۔
اس طرح 1937ء سے لیکر 1945ء کے درمیانی عرصے کے دوران جناح کے آل انڈیا نیشنل کانگریس کے جملہ صدور سوائے ابوالکلام آزاد کے ساتھ "ہندؤ۔ مسلم" ایشو پر جتنے بھی مذاکرات ہوئے وہ سب کے سب اس وجہ سے ناکام ہوئے کہ ان کی شرط یہ تھی کہ کانگریس یہ تسلیم کرے کہ وہ ہندؤ قوم کی نمائندہ جماعت ہے اور اس بنا پر اسے نہ تو مسلمانوں کی طرف سے کوئی تجویز پیش کرنے کا حق ہے نہ سکھ، کرسچن اور دلت کی طرف سے کوئی تجویز پیش کرنے کا حق ہے۔ دوسرا وہ یہ تسلیم کرے کا مسلمان الگ قوم ہیں اور ان کی واحد نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم لیگ ہے۔ مسلمان قوم کا وہ حق خود ارادیت تسلیم کرے، جہاں جہاں وہ اکثریت میں ان علاقوں پر مشتمل انہیں الگ وطن بنانے کا حق حاصل ہے۔ جناح نے آل انڈیا نیشنل کانگریس کے رہنماء گاندھی کی یہ تجویز بھی مسترد کردی کہ اگر وہ مسلمان اکثریت آبادی کے صوبوں میں ان کی ایتھنک شناخت کی بنیاد پر ریفرنڈم کرالیں کہ آیا وہ الگ ہونا چاہتے ہیں ی ہندوستانی فیڈریشن میں رہنا چاہتے ہیں۔ جناح گاندھی کی یہ تجویز بھی مسترد کردی۔ ان کے نزدیک پنجاب، بنگال، صوبہ سرحد، سندھ کی سوائے مسلم قومی سیاسی شناخت کے علاوہ کوئی شناخت نہیں تھی۔
جناح کا مسلم قومیت کا تصور خود مسلمانوں کی فرقہ وارانہ مذہبی، نسلیاتی۔ ثقافتی اور لسانی شناحتوں کی کوئی سیاسی حثیت نہیں مانتا تھا اور وہ اس بنیاد پر کسی قومیتی یا قوم کے تصور کی بھی نفی کرتا تھا۔ وہ پہلے دن سے روایتی علماء کو مسلمان قوم کی سیاسی، معاشی، سماجی صورت گری میں فائنل اتھارٹی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی تھی کہ مسلم قدامت پرست علماء اور علاقائی، لسانی و نسلیاتی۔ ثقافتی شناختوں کو سیاست میں اہمیت دینے والے مسلم سیاست دان اور جماعتیں ان کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد میں یہی دو مسئلے " نفاذ اسلام کی کیا صورت ہو؟" اور پاکستان کی سیاسی اعتبارسے کیا ثقافتی۔ لسانی شناخت ہوگی؟ انتہائی شدت اختیار کر گئے۔
جناح نے پاکستان بننے کے بعد اپنےتصور مسلم قومیت میں 14 اگست 1947ء کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران تھوڑی سی ترمیم کی۔ انہوں نے جہاں پہلے مسلم قومیت کے سیاسی تصور میں کسی مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی۔ نسلی شناخت کو خارج کیا تھا، وہیں اب انہوں نے ریاست پاکستان میں پاکستان کے شہری ہونے کی سیاسی تعریف کو اور وسعت دی کہ پاکستان کے شہری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام شہری برابر ہوں گے اور یہ شہری بتدریج سیاسی اعتبار سے نہ مسلمان ہوں گے، نہ ہندؤ، نہ کرسچن، نہ سکھ، نہ سنّی، نہ شیعہ، نہ پٹھان، نہ پنچابی، نہ سندھی، نہ بلوچی ہوں گے بلکہ وہ سب پاکستانی ہوں گے۔ ان کی کابینہ میں وزیراعظم سنّی (بریلوی)، وزیر قانون دلت، وزیر خارجہ قادیانی (احمدی) تھے۔
جناح کے اس مسلم قوم کے تصور کے ساتھ جو نئی ریاست پاکستان کے زمینی حقائق سے بالکل الگ تھلگ تھا اور ان کی اپنی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ کے اندر بھی اسے متفقہ حثیت حاصل نہ تھی بعد میں آنے والے حکمرانوں نے وہ حشر کیا کہ اس کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔
خود جناح کے ساتھ بھی ان کی اپنی مسلم لیگ اور پاکستان کی سول و فوجی نوکر شاہی نے بہت بڑا مذاق کیا۔
جناح کے ذاتی دوست اور ان کے گھر والوں کی جو شہادتیں ہمارے پاس ہیں، ان کے مطابق جناح کے ذاتی طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ انہیں "شراب، سگار، سگریٹ کے رسیا"، انتہائی مہنگے اور جدید ترین لباس و سامان آرائش کے دل دادہ بدستور بتاتے ہیں۔ وہ ان کی زندگی کے معاملات میں اسلامی عبادات و فرائض کی ادائیگی کے داخل ہونے کی بھی کوئی شہادت نہیں دیتے۔ اسی طرح جناح نے اپنے حصص کے کاروبار، رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو بھی جاری رکھا۔
ان کی وصیت میں ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد اور اثاثوں کی تفصیل اس پر روشنی ڈالتی ہے۔
جناح کا جدید ترقی پسند طرز زندگی، ان کی بہن کا تجرد اور پردہ نہ کرنا یہ ایسے معاملات تھے جن کو مسلم لیگ مخالف علماء و مشائخ نے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان میں جمعیت علمائے ہند اور انجمن مجلس احرار ہند سب سے آگے تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے سربراہ مولانا حسین احمد مدنی نے ان کی شادی میرج ایکٹ ہند کے تحت بعذریعہ کورٹ ہونے کو لیکر اسے غیر اسلامی، غیر شرعی ٹھہرایا۔ اس پر ایک کتابچہ بھی تحریر کیا اور ان کے نزدیک جناح اور رتی بائی کےتعلقات شرعی معنی میں میاں بیوی کے نہیں تھے۔ یہی بات مجلس احرار والوں نے کہیاور کہا کہ "ایک کافرہ کے واسطے جناح نے اسلام کو چھوڑ دیا۔ وہ قائد اعظم نہیں، کافر اعظم ہیں "۔
دوسری طرف جماعت اہلسنت، سنّی کانفرنس، رضائے مصطفی ہندوستان کے علماء و مشائخ اور پیر تھے۔ وہ جناح کے بارے میں اپنے خواب اور ان میں دی گئی بشارات بیان کر رہے تھے۔ ان میں سے کئی ایک نے جناح کو رات کو مصلے پر گڑاگڑاتے ہوئے اللہ سے راز و نیاز کرتے ہوئے پایا۔ مولانا حسرت موہانی تک نے اس کا ایک مشاہدہ درج کیا۔ سیالکوٹ کے علاقے علی پور سیداں سے تعلق رکھنے والےبہت بڑے پیر جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے پیر سید جماعت علی شاہ جو محدث علی پوری کہلاتے تھے انھوں نے بھی ایک خواب بیان کیا جس ميں انھوں نے کہا کہ انھوں نے پیغمبر اسلامؑ کو جناح کو "اسلام کا جھنڈا" تھماتے ہوئے دیکھا۔ دار العلوم دیوبند کا باغی علماء کا دھڑا اور جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام بنانے والا (مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولاناظفر عثمانی، مولانا احتشام الحق تھانوی) بھی جناح کو راسخ العقیدہ پابند شرع مسلمان قرار دے رہے تھے۔
جماعت اسلامی کے بانی سید ابولاعلی مودودی کے نزدیک "قوم، قومیت" ان جیسی سب اصطلاحیں قران و سنت کے خلاف اور مغربی لادین، کافرانہ تصورات تھے اور نیشنلزم چاہے کسی شکل میں ہو وہ کفریہ اور طاغوتی نظام تھا۔ انھوں نے مسلم لیگ کی اسلام پسندی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا " لیگ کے بڑے قائد سے لیکر چھوٹے مقتدی تک سب ک ذہنیت غیر اسلامی ہے"، مارچ 1948ء کی ترجمان القرآن کی اشاعت میں تو انہوں نے پاکستان کو درندے تک کی پیدائش لکھ ڈالا۔ وہ قرارداد مقاصد کی منظوری سے پہلے پاکستان کو غیر اسلامی ریاست، اس کی نوکری کو غیر شرعی قرار دیتے رہے اور اپنے اراکین جماعت اسلامی کو اس سے تعاون کرنے اور اس کی نوکری سے منع کرتے رہے۔ انھوں نے کشمیر کی لڑائی کو بھی اسی وجہ سے "جہاد" قرار دینے سے انکار کیا تھا جب ریاست ہی غیر اسلامی تھی تو اس کی طرف سے اعلان جہاد کی کوئی شرعی حثیت نہیں تھی۔
سید مودودی نے 1949ء کے بعد اپنے موقف میں تبدیلی کی، اب ریاست پاکستان ایک اسلامی مملکت تھی جس کو حقیقی اسلامی مملکت بنانا ان کا مطمع نظر ٹھہرا۔ نظریہ پاکستان، دو قومی نظریہ وہ ان دونوں کے سب سے بڑ علمبردار بن گئے۔
تیسری طرف پاکستان کا ترقی پسند دھڑا جس میں ایک طرف لبرل ترقی پسند دانشور تھے جن میں غلام احمد پرویز، ڈاکٹر فضل الرحمان، کے کے عزیز، ڈاکٹر رشید جالندھری سب سے نمایاں تھے وہ جناح کی مسلم قومیت کی تشریح سیکولر طریقے سے کرتے تھے اور دوسری طرف کمیونسٹ تھے جن میں کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے نظریہ ساز سبط حسن کی نظر میں پاکستان بنانے میں ایک طرف گماشتہ سرمایہ دار، رجعت پرست جاگیردار، برطانوی سامراج کی پروردہ سول و فوجی نوکر شاہی اور ملاں تھے جو پاکستان کو عالمی سامراجی نوآبادیاتی طاقتوں کی گماشتہ ریاست میں بدلنے کی کوشش کر رہے تھے، دوسری طرف مزدور، کسان، ترقی پاکستان انقلابی درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے دانشور اورطلباء تھے جو پاکستان کو سوشلسٹ ریاست بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان میں بعد ازاں چین نواز کمیونسٹ، سوشلسٹ دانشور جیسے پروفیسر عزیز الدین، میجراسحاق، صفدر میر وغیرہ تھے جن کا خیال یہ تھا کہ پاکستان ہندؤ بورژوازی کے غلبے، براہمن واد کے تسلط کے خلاف تحریک کےنتیجے میں تشکیل پایا اور یہ پاکستان میں عوامی جمہوری انقلاب برپا کرنے کو اپنا نصب العین بتارہے تھے۔
ایک پروفیسر حمزہ علوی بھی تھے جن کے نزدیک پاکستان مسلمانوں کے پڑھے لکھے درمیانے طبقے کے تنخواہ دار طبقے نے تشکیل دیا تھا۔ ان اسلامی لبرل، سوشلسٹ اور سیکولر سوشلسٹ کمیونسٹ طبقات میں جناح کے حوالے سے جو "مشترکہ" خیال تھا وہ یہ تھا کہ جناح سیکولر، روشن خیال، ترقی پسند تھے اور اختلاف لبرل و سوشلسٹوں میں یہ تھا کہ وہ جدید سرمایہ داری کے حامی تھے یا سوشلزم کے حامی تھے اور دوسراہ خیال یہ مشترک تھا کہ جناج "ملائیت اور مذہبی پیشوائیت" کے خلاف تھے۔
ایوب خان کے دس سالہ دور آمریت میں "جناح" کو ریاستی سطح پر بھی ایک لبرل، روشن خیال، ترقی پسند، اینٹی ملاں کے طور پر پیش کیا جاتا رہا، اس دور میں ہیکٹر بولائیتھو کی زیر نگرانی جناح کی جو آفیشل سرکاری سوانح حیات مرتب کی گئی اس میں جناح کے اسی لبرل، روشن خیال، ترقی پسند، ملاں و مذہبی پشوائیت مخالف تصور کو نمایاں کیا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ جناح کے ہاں جو پاکستان کی ریاست کے آئین کے وفاقی پارلیمانی جمہوری ہونے کے جو خیالات تھے، ان کا زکر سرکاری سطح پر نہیں ہوا کرتا تھا۔
سترکی پوری دہائی میں بھی جناح ایک اسلامی ترقی پسند، روشن خیال، اسلامی سوشلسٹ، اینٹی ملاں اور وفاقی پارلیمانی جمہوریت پسند سیاستدان کے طور پر پیش کیے جاتے رہے۔ جبکہ بھٹو کی نیشنلائزیشن کے مخالف لبرل انہیں سوشلسٹ نہیں سمجھتے تھے اور وہ اس پہلو کی نفی کرتے رہے۔
اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی سمیت تمام مذہبی سیاسی جماعتیں جناح اور اقبال کے تصور پاکستان کو اپنے " ملائیت اور مذہبی پیشوائیت" کی تعبیرات کے ساتھ پیش کرتے رہے۔
سترکی دہائی میں بھٹو حکومت نظریاتی سطح پر ایک ترقی پسند، روشن خیال اسلامی جمہوری پاکستان کی علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر"ملائیت اور مذہبی پیشوائیت " کے دباؤ کے آگے جھکتی چلی گئی۔
پیپلزپارٹی اور پشتون و بلوچ قوم پرستوں، فار لیفٹ کے درمیان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھاختلافات بڑھتے چلے گئے اور دوسری طرف رجعت پرست، بنیاد پرست متحد اور طاقتور ہوتے چلے گئے اور بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور ضیاء آمریت کے اگلے گیارہ سال جناح کو "حضرت مولانا قائداعظم محمد علی جناحؒ " بنانے اور پاکستان کو "سعودی عرب" بنانے کے سال تھے۔ اس پورے دور میں پاکستانی ریاست کی فوج، سول انتظامیہ، عدالتی اسٹبلشمنٹ، تعلیمی اسٹبلشمنٹ سب میں "ملائیت اور مذہبی پیشوائیت" اتنی سرایت کرگئی کہ اس کے زیر اثر پاکستان کے شہروں میں جو نئی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی طبقہ اور اس کی غالب دانش تشکیل پائی وہ سر تا پا "ملائیت و مذہبی پیشوائیت" کے کسی نہ کسی ماڈل کی پیرو تھی اور ہے۔
لبرل ترقی پسندی اشرافیہ کے ایک محدود سے سیکشن تک محدود ہوکر رہ گئی جبکہ لیفٹ کی سیاست تعلیمی اداروں اور صنعتی سیکٹر، سروسز سیکٹر سے رخصت ہوگئی۔ آج حالت یہ ہے کہ پاکستان میں بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، گلگتی بلتی اور کشمیری عوامی قومی تحریکیں بھی "مذہبی پیشوائیت و ملائیت" کے اثر سے بچ نہیں سکیں۔

