خس و خاشاک کی مانند
زندگی کا محلول قطروں کی مانند بہتا ہی چلاجاتا ہے اور احساس اس وقت جاگزیں ہوتا ہے جب حیات کا مشکیزہ پچک جاتا ہے موسموں کی رتیں گزرجاتی ہیں، تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے، بیماری اور گلے لگ جاتی ان حالات میں کسی کا مقدر محتاج خانہ بنتا ہے اورکسی کا اسپتال اور اس کا آئی سی یوکچھ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں وہ آخری ایام گھر میں ہی اپنے پیاروں کے ساتھ گزارتے ہیں اور زندگی کو الوداع کہتے ہوئے سفر آخرت پر روانہ ہوجاتے ہیں۔
لیکن جب صحت جواب دے جاتی ہے اور بندہ کسی کام کاج کے قابل نہیں رہتا ہے تب بیتے دنوں کی یادیں اورگزرے زمانے بڑے یاد آتے ہیں پروجیکٹر چلتا ہے اور فلم شروع ہوجاتی ہے، بلی، وائٹ اور رنگین تصویریں متحرک ہوجاتی ہیں۔ منظر جاگ جاتے ہیں تلخ و شیریں یادیں جلتے بجھتے دیپ کی مانند متوجہ کرلیتی ہیں اور یہ بستر مرگ پر پڑا ہوا شخص اپنے بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی کٹھنائیوں کو یاد کرکے اشک بار ہوجاتا ہے۔
پچھتائوے کی چادر دراز ہوجاتی ہے، وہ سوچتا ہے کہ اس نے کون سا گناہ ایسا تھا جو نہیں کیا۔ والدین کی نافرمانی، جوانی میں خواہشات کے سرپٹ گھوڑے کی سواری، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی ناکامی منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔
والدین اور اساتذہ کی نصیحتوں کو فضول باتیں سمجھ کر ٹالتا رہا اور اگر سن بھی لیں تو چند منٹوں میں ہی اڑن چھو ہوگئیں اور پھر وہی کاروبار زندگی اور شادی کے بعد تو والدین بوجھ نظر آنے لگے اور پھر کسی ٹرسٹ میں انھیں بے کار و بے مقصد سامان کی طرح جمع کرادیا۔ لیکن اب ماں باپ کے چہرے سامنے ہیں اور پچھتاوے کا پتھر سینے پر رکھ دیا گیا ہے۔ پھر وہ سوچتا ہے میرے ساتھ شیطان نے بڑی گہری چال چلی قطرہ قطرہ سیاہی کا میرے قلب نازک پر انڈیلتا رہا۔ اور اب جب کہ من سیاہ ہوگیا تب اس کے ہی اشاروں پر ناچا۔
آج کے دور میں ہر شخص نے شیطان کی راہ کو اپنا لیا ہے اس وقت کو یکسر بھلا دیا جب لاد چلے گا بنجارا۔ پھر دکھ اور پچھتائوے کے سوا کچھ نہیں بچتا ہے دنیا دارالعمل ہے۔ عمل کا ہی پھل ملتا ہے میٹھا ہو یا کڑوا۔ لیکن زندگی کے آخری پل بڑے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ انسان بے بس ومجبور خالی ہاتھوں اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے۔
شیطان کی کارگزاریاں اور اللہ کے نیک بندوں کو راہ راست سے ہٹانے کا عمل اس کا پسندیدہ ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال حریم شاہ ہے جو آج کل جدید فیشن کی طرح شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور والد ماجد دکھ کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہیں اور دل لہو بن کر چشم گریہ میں بدل گیا ہے۔ وہ زار و قطار رو رہے ہیں اپنے رب سے فریاد کر رہے ہیں کہ اے میرے رب میں نے اس کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اس کے اساتذہ کرام نے بھی اسے دینی تعلیم سے روشناس کرایا تھا اس نے عالمہ کا کورس کیا تھا وہ خود بھی اچھی طرح واقف تھی کہ کون سا راستہ پرخار ہے یا پھر صاف و شفاف ہے۔ پھر یہ کیا ہوا؟
صبح و شام، ہر تقریب، ہر موقع پر سیلفی بنانے کے شوق نے ہر لحاظ سے بربادی اور اجل کے دروازے کھول دیے، مساجد تک میں ہر نوجوان کے پاس سیل فون ہوتا ہے۔ وہ سلام کس مشکل سے پھیرتا ہے کہ اس کی جان تو فون میں اٹکی ہوتی ہے، نمازکے دوران جہاں موقع لگا وہ سوشل میڈیا پر اِن ہوگیا۔ ٹی وی پر تو ایسے پروگرامز بھی دکھائے جاتے ہیں جنھیں دیکھ کر ایک انسان بہترین انسان بن سکتا ہے انسانیت اور انسانی رویوں کو بدلنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات، حضورؐ کی سیرت پاک، کلام پاک کا ترجمہ و تفسیر، جناب طارق جمیل صاحب جیسے جید علما کی تقاریر سے بھی استفادہ ممکن ہے لیکن کیا کیا جائے کہ اس حقیر سی دنیا میں اتنی کشش ہے جو مرد ناداں کو اپنے ساتھ لیے گھومتی ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ عقل و دانائی سے کورا ہوتا ہے جو اس دنیا کے عبرتناک واقعات سے سبق نہیں سیکھتا ہے۔
ایک ماڈل اللہ کو پیاری ہوگئی حق اس کی مغفرت فرمائے (آمین) لیکن بات غورو فکرکی ہے کہ اس نے جس راہ کا انتخاب کیا تھا، آج اسی راستے پر بے شمار لڑکیاں چل نکلی ہیں وہ یہ نہیں سوچ رہی ہیں کہ اسے بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا گیا بلکہ وہ اس کی بولڈنس سے متاثر ہیں وہ کس قدر بے باکی سے میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلز پر بات کرتی تھی پھرکس قدرجلد شہرت حاصل کی۔ آج کل ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دکھایا جاتا ہے اس پروگرام کی یہ خوبی یا خامی ہے کہ اینکر پرسن اندرون پاکستان سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بلاتے ہیں اور انھیں ایسے ایسے چیلنجز دیے جاتے ہیں جن کا کرنا ناممکنات میں سے نظر آتا ہے لیکن یہ سادہ لوح اور دنیا پرست کامیابی کے حصول کے لیے سب کچھ کر گزرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
90 فیصد ینگ جنریشن ٹی وی کے اثرات قبول کرتی ہے اسی طرح دوسرے پروگرام بھی جن کے ذریعے قوم کو زیادہ سے زیادہ ایسے کھیلوں یا دوسرے امور کی طرف راغب کیا جاتا ہے جن کے ذریعے محض تحائف کا حصول ہے قیمتی انعامات جیتنے کے لیے پیکٹوں کے نمبر بتانا اور اس طرح دولت ہزاروں، لاکھوں میں بڑی آسانی سے مل جاتی ہے۔ نہ ان کاموں کے لیے تعلیم کی ضرورت پیش آتی ہے اور ذہن کو جلا بخشنے کے لیے علم حاصل کیا جاتا ہے۔ ان لوگوں سے ان پروگراموں کے ذریعے طبی امداد، نیشنل گارڈ کی تربیت، قرآن فہمی کے ذوق کے لیے انبیا کے واقعات اور سوالات کیے جاسکتے ہیں تاکہ کچھ سیکھنے کو ملے لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔
آج پاکستان کتنے برے حالات میں گھرا ہوا ہے، اندرونی خلفشار بیرونی خطرات، بغاوتیں، سازشیں اور قدرتی آفات علیحدہ، زلزلے، سیلاب، طوفان، قتل و غارت، اغوا، بے پناہ تشدد، بے رحمی اور سفاکی کی جیتی جاگتی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، افواج پاکستان کے جوان آئے دن دشمنوں کی بربریت کے تحت جام شہادت پیتے ہیں اور غازی بن کر صبح و شام دشمن سے نمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں، وزیر اعظم اور ان کے رفقا خارجی حالات کو بہتر بنانے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہیں۔
حالات کا ابتر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے، عذاب کی شکل میں مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا درپیش ہے، لیکن قوم کے نوجوان اسمارٹ فون اور ٹی وی چینلز کے ان پروگراموں میں دیکھنے اور حصہ لینے میں اپنا وقت ضایع کر رہے ہیں انھیں تفریح فراہم کرنا ہے تو تاریخی معلومات اور تاریخی ڈراموں کے اولالعزم اور فاتح حکمرانوں کی زندگی اور جنگوں کا احوال مکالموں کی شکل میں ادا کروانے کا اہتمام کریں کسی زمانے میں جناب طارق عزیز کے نیلام گھر کو بے پناہ شہرت حاصل تھی، ناظرین نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور پڑھنے لکھنے، معلومات میں اضافہ کرنے کا شوق پیدا ہوا۔
زندگی ہوتی ہی بے وفا ہے کسی کا ساتھ نہیں نبھاتی، چھوٹی سی حیات میں منفی و مثبت کام کرتے گزر جاتی ہے لیکن وہ لمحات بے حد تکلیف دہ ہوتے ہیں جب موت چند قدم کے فاصلے پر ہوتی ہے اور بے بس انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ ساری عمر رنگ رلیوں میں مبتلا رہا کسی کا حق ادا کرنے کی بجائے اس کا حق بڑی آسانی سے چھین لیا لیکن اب پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں، دنیا اب اسے خس و خاشاک کی مانند نظر آرہی تھی ایک آندھی تھی، ہواؤں کے جھکڑ تھے جو اسے اڑائے لیے پھر رہے تھے، اور اب "کاش" کے سوا کچھ نہیں بچا، سوائے اس کے کہ کاش میں یہ کرتا، کاش میں وہ کرتا وغیرہ وغیرہ۔ ایسا ہی حال اکثریت کا ہے، بہت کم لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں دنیا کی لذتوں سے دور رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے آخری وقت کے لیے نیکیاں اور سکون جمع کرنے کی ضرورت ہے۔