جام فدا حسین کے دلکش افسانے
جام فدا حسین بھیٹ کا نام اردو ادب کے حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اس کی وجہ ان کی حقیقت نگاری ہے ان کی جتنی تحریریں سامنے آئی ہیں وہ معاشرتی حقائق، سماجی ناہمواری اور غیر منصفانہ رویے کی عکاس ہیں۔
چند سال قبل ان کی کراچی کے حوالے سے اہم کتاب بعنوان "کراچی کا آشوب اور اردو افسانہ" شایع ہوئی تھی، یہ ایم فل کے مقالے پر مبنی تھی، جسے انھوں نے مکمل تحقیق اور محنت و لگن کے ساتھ قلم بند کیا تھا، کراچی میں ہونے والے مظالم کی داستان انھوں نے خون جگر سے رقم کردی، قاری بھی خون کے آنسو رونے پر مجبور تھا، مصنف کی نگارشات کا یہی وصف ہے کہ وہ سچائی کے خمیر سے اٹھتا ہے اور پھر جزئیات نگاری کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔
اب عنقریب ان کے افسانوں کا مجموعہ بعنوان "لال رضائی" شایع ہونے والا ہے، ان کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جام فدا حسین ایک بہترین افسانہ نگار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں ان کے افسانوں میں الف لیلیٰ کی داستانیں رقم نہیں کی گئی ہیں بلکہ انھوں نے جو کچھ دیکھا، سمجھا اور رشتوں، ناطوں کو روزمرہ کے معاملات میں برتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بصیرت و بصارت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے تجربات کو تحریر کے قالب میں ڈھالا ہے، ان کی دور رس نگاہ کا کمال ہے کہ ایسے لرزہ خیز واقعات و سانحات کو لفظوں کا پیکر عطا کردیا ہے۔
مصنف کا انداز بیان سادہ اور دلنشین ہے، بیانیہ طرز کی کہانیاں اپنی بنت اور اسلوب کے اعتبار سے تادیر یاد رکھی جائیں گی اور دل سے نکلی ہوئی بات دل میں اترے گی۔ تخلیقیت کے اس انداز نے افسانوں کو توانائی بخشی ہے، افسانوں کا ابتدائیہ پیچ و خم اور تجسس کی فضا قاری کو اپنی گرفت میں اس وقت تک تھامے رکھتی ہے جب تک کہ افسانہ اپنے انجام کو نہ پہنچ جائے اور یہی تخلیق کار کی کامیابی ہوتی ہے۔
سماجی کرب، تشدد اور جنسی ہراسگی کے حالات و واقعات کو انھوں نے کہانیوں کا روپ عطا کیا ہے اور کرداروں کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر مکالموں کی فضا پروان چڑھائی ہے۔ اس بدبودار اور تعفن زدہ ماحول میں مصنف کی کئی کہانیوں نے جنم لیا ہے، ویرانوں، جنگلوں اور کچرا کنڈیوں میں پھینکی گئی تشدد زدہ لاشیں، تڑپتے، سسکتے والدین اور لاقانونیت کی سیاہ تصویروں کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ یہ کہانیاں لہو رنگ ہوگئی ہیں، ہر سطر اشکبار اور نوحہ کناں ہے، ایسے ہی سانحات کے تناظر میں سانس لیتی ہوئی ایک کہانی "آستین کا سانپ" ہے، اس طرح کے واقعات آئے دن منظر عام پر آتے ہیں، تخلیق کار کا یہی کمال ہے کہ وہ دل کی آنکھ سے باہر کا روتا، فریاد کرتا ہوا منظر دیکھے اور پھر قلم کے حوالے کردے۔ جام فدا حسین چونکہ کہانی لکھنے کا ہنر جانتے ہیں، "آستین کا سانپ" انھی حالات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ چند سطور ملاحظہ فرمائیے:
"شام کا اندھیرا کافی بڑھنے کے باوجود فہد گھر نہ پہنچا تھا، سب پریشان تھے، فہد کا کہیں پتا نہ تھا وہ آج دوپہر سے ہی گھر سے غائب تھا، سب رشتے دار اور محلے والے بھی اکٹھے ہوگئے تھے، حامد بھی گھر میں موجود تھا، حامد مجھے تسلی دے رہا تھا، حامد نے پولیس میں رپورٹ درج کرانے کا مشورہ دیا، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لوگوں کی باتیں سن سن کر سیکڑوں وسوسے جنم لے رہے تھے، میرے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں کہ اللہ نہ کرے کسی نے اغوا کیا ہو، یا کوئی حادثہ پیش آیا ہو، میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔"
مصنف نے نہایت چابکدستی اور نہایت سلیقے سے افسانے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے، چیونگم کی ناگوار بدبو اور متلی کا احساس آج تک زندہ تھا، جب حامد نے چیونگم کھانے کو دی تھی اور آج پھر وہی بدبو مردہ بیٹے کے منہ سے غسل دیتے وقت آ رہی تھی، چونکہ چیونگم کی ٹکیا اب تک اس کے دانتوں کے درمیان دبی ہوئی تھی اور اب حامد کا بھیانک چہرہ غمزدہ باپ کے سامنے تھا۔
کتاب میں پہلا افسانہ "گڑیا" کے نام سے شامل ہے، بیٹیاں بھی گڑیا ہی کی طرح ہوتی ہیں، معصوم اور بے ضرر، ساری عمر وہ انھی خوبیوں سے آراستہ نظر آتی ہیں۔ کہانی کا کلیدی کردار ایک مفلوک الحال باپ ہے، ایک غریب باپ اپنی بیٹی کو گڑیا دلانے کے ارمان کو پورا کرنے کے لیے اسے بازار لے جاتا ہے، پھر اسے یہ بھی خیال آتا ہے کہ کیوں ناں اپنی شہزادی بیٹی کو کسی سستے سے ہوٹل میں کھانا ہی کھلا دے اور وہ بھی گوشت کی بنی ہوئی ڈش۔ چنانچہ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے وہ ریستوران کا رخ کرتا ہے۔ خلاف توقع سو، دو سو روپے کے بل کی جگہ بیرا ساڑھے پانچ سو کا بل لے آتا ہے، اس کے اعتراض پر وہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ٹھنڈا پانی، رائتہ اور سلاد کے پیسے بھی اس میں شامل ہیں، اس وقت اس مفلس باپ کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے اور آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ مفلسی اور بے بسی کے تانوں بانوں سے بنی ہوئی یہ کہانی دلوں کو گرماتی ہے اور انجام جاننے کی تمنا بیدار ہوتی ہے۔
جام فدا حسین کا ایک اور افسانہ "ڈیڑھ اینٹ" کے عنوان سے ہے یہ افسانہ معاشرے کے سلگتے مسائل پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح لوگوں کے مسلک اور فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے اور پھر لاشوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ مصنف کی تحریر کی یہ خوبی ہے کہ وہ کہیں بھی مبلغ کا کردار ادا نہیں کرتے ہیں بلکہ کفایت لفظی سے کام لیتے ہوئے معاشرے میں پیدا ہونے والی طبقاتی کشمکش اور برائیوں کا پردہ چاک کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انھیں منظر نگاری کو پینٹ کرنے میں بھی دسترس حاصل ہے۔"کاش میرا بھی گھر" سے ابتدائی پیراگراف۔
"یہ چکی نیچے بہنے والے پہاڑی نالے کے تیز بہاؤ سے چلتی تھی، قریب ہی گھاس کا میدان تھا، لیکن اس میں چاروں اطراف میں اگے خوبانی، آڑو، اخروٹ کے چھوٹے بڑے درخت بہت بھلے معلوم ہو رہے تھے، بلند و بالا پہاڑوں کا منظر بہت دلکش تھا، نیچے ڈھلوان میں پہاڑیوں کی چوٹیوں پر موجود پگھلتی برف کا سفید پانی جھاگ بناتا اپنی بے مثال خوبصورتی کا عکس دلوں پر انمٹ نقوش ثبت کر رہا تھا۔" مذکورہ افسانے میں کیلاش برادری کے معاشی مسائل، رہن سہن، تہذیب و ثقافت اور ان کے رویوں کو مصنف نے دردمندی کے ساتھ افسانے کے قلب میں سمو دیا ہے۔
کتاب میں 29 افسانے ہیں یہ سب افسانے کسی نہ کسی مسئلے اور المیے کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ان افسانوں کو تخلیقیت کے خوبصورت رنگوں میں رنگ دیا گیا ہے۔
میں جام فدا حسین بھیٹ کو خلوص دل کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں۔