امام اعظم‘ ولی اور علما دین
ایک بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کے دربار میں ایک دہریہ آیا اس نے کہا کہ یہ کائنات طبعی طور پر وجود میں آئی ہے اور اس کا بنانے والا کوئی نہیں، سب چیزیں بنتی چلی گئیں، لوگ پیدا ہوتے رہے اور مرتے رہے یہ دنیا ایک طبعی کارخانہ ہے پھر وہ بولا کہ مسلمانوں کا کوئی بڑا عالم ہو تو اسے بلاؤ، تاکہ میں اس سے مناظرہ کروں اور اسے دنیا کی اصل حقیقت بتاؤں۔
ان دنوں سب سے بڑے عالم امام ابو حنیفہ تھے جن کے علم کے چرچے ہر خاص و عام کی زبان پر تھے۔ چنانچہ اس دہریے کی خواہش پر امام ابو حنیفہ کو بلایا گیا۔ دربار لگا ہوا تھا، وزرا، مشیران خاص سب جمع تھے اور منتظر تھے کہ وہ کب تشریف لاتے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد ہی قاصد آگیا اور اس نے کہا کہ امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ تم چلو میں آتا ہوں۔ درباری کافی دیر تک بے چینی کے ساتھ ان کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہ پہنچے، تب دہریے نے بڑھکیں مارنا شروع کردیں کہ وہ میرے علم و فضل کے رعب میں آگئے ہیں اور چھپ کر بیٹھ گئے ہیں وہ میرا مقابلہ نہیں کرسکتے ابھی وہ شیخی مار ہی رہا تھا کہ اسی دوران امام ابو حنیفہ تشریف لے آئے۔
خلیفہ نے پوچھا اتنی تاخیر کیسے ہوئی جب کہ درباری آپ کے منتظر ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ نے دیر سے آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ دراصل بات یہ تھی کہ جب میں دریا کے کنارے پر پہنچا تو کشتی کا دور دور تک پتا نہیں اور دریائے دجلہ ویران پڑا تھا، کوئی شخص وہاں موجود نہ تھا کہ جس سے وجہ پوچھی جاتی اور بغیر کشتی کے آپ کے محل تک پہنچنا ناممکن تھا۔
ابھی میں حیران و پریشان کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے کہ اسی دوران دجلہ کے پانی سے تختے نمودار ہونا شروع ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے تختے نظر آنے لگے اور پھر وہ تختے جڑنا شروع ہوگئے اور کشتی کی شکل اختیار کرلی پھر کیا دیکھتا ہوں بڑی بڑی کیلیں نکلنے لگیں اور وہ کیلیں بغیر کسی بڑھئی کے ٹھکنا شروع ہوگئیں اور پٹروں کے درمیان بننے والی دراڑوں کے لیے روغن نکل آیا اور جس نے ان دراڑوں کو بند کردیا پھر وہ کشتی چلنے لگی اور میرے نزدیک آکر جھک گئی، اور میں اس میں بیٹھ گیا، میرے سوار ہوتے ہی کشتی چل پڑی اور مجھے میری مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا وہ رکی اور میں اتر کر سیدھا محل کے راستے پر آگیا اور اب میں آپ کے سامنے ہوں، محل میں موجود ہر شخص حیرت اور دلچسپی سے یہ واقعہ سن رہا تھا اور مبہوت بنا بیٹھا تھا۔
دہریے نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ آپ اتنے بڑے عالم ہیں لیکن باتیں بچوں کی طرح کرتے ہیں۔ بھلا کبھی ایسا ہوا ہے کہ خودبخود کوئی کام پایہ تکمیل کو پہنچ جائے، آپ تو بڑے ہی نادان ہیں۔ میں نے تو آپ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ دہریے کے جواب پر محل میں سناٹا چھا گیا اور سب لوگ امام اعظم کی طرف دیکھنے لگے، کچھ توقف کے بعد آپؒ اطمینان سے بولے بچہ میں نہیں ہوں اور نہ ہی نادان، بچوں والی بات آپ کر رہے ہیں، اب ذرا سوچیے کہ جب ایک کشتی بغیر بنانے والے کے نہیں بن سکتی، لکڑی، کیلوں کا انتظام نہیں ہو سکتا ہے تو اتنا بڑا یہ جہان، یہ کائنات اس کی چھت آسمان، زمین اور زمین پر سمندر، دریا، پہاڑ اور چاند سورج بغیر بنائے کس طرح آسمان پر جلوہ گر ہو سکتے ہیں کوئی تو ہے جو نظام کائنات کو چلا رہا ہے۔
دہریے نے آپؒ کی بات سنی، ندامت کا پسینہ چہرے پر آگیا اور وہ سر جھکا کر باہر نکل گیا۔ اس کے سوا چارہ بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے ترجمہ: "سن لو کہ جو اللہ کے ولی ہوتے ہیں نیک بندے ہوتے ہیں، ان پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا اور نہ غم، وہ صرف اور صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کے احکام کی پیروی کرتے ہیں۔" امام ابو حنیفہ کی علمیت اور نیک نامی نے ہر شخص کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا اس وقت کے خلیفہ وقت منصور کو ان کی عزت و شہرت پسند نہیں تھی اور وہ قلبی طور پر بغض رکھتا تھا۔ اس نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ ان تین شہروں، بصرہ، کوفہ اور بغداد کے قاضی بن جائیں آپ نے خلیفہ وقت کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اس عہدے کا اہل نہیں سمجھتا۔ خلیفہ نے کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ نے جواب میں کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تب تو میں بالکل اس مرتبے کا قائل نہیں ہوں چونکہ جھوٹا آدمی قاضی نہیں بن سکتا اور اگر سچا ہوں تب میں خلیفہ وقت کے خلاف بھی فیصلہ دے سکتا ہوں چونکہ اکثر اوقات حالات ایسے ہوجاتے ہیں اور انصاف امیر، غریب، بادشاہ و فقیر کو ہرگز نہیں دیکھتا۔ خلیفہ منصور کو امام اعظم کی حکم عدولی بالکل پسند نہیں آئی لہٰذا انھیں جیل میں ڈلوا دیا، یہ مدت تقریباً چار سال تھی وہ اپنی بات منوانے کے لیے وقتاً فوقتاً کوڑے بھی لگواتا اور آخر میں وہ آپ کی جان کے درپے ہو گیا اور کھانے میں زہر ملا دیا۔ آپؒ نے زہر کے اثرات محسوس کرلیے تھے لہٰذا آپ نماز کے لیے کھڑے ہوگئے اور حالت سجدہ میں اپنی جان، جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
سچ بولنے کی سزا میں منصور بن حلاج پر اذیتوں کے پہاڑ توڑے گئے، سولی پر چڑھایا گیا، جیل میں ڈالا گیا۔ قتل کا فتویٰ جاری ہوا، سولی پر جس وقت لٹکے تھے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے، حضرت لعل شہباز قلندرؒ نے منصور حلاجؒ کے حالات کے حوالے سے یہ شعر کہا ہوگا:
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجر خونخواری می رقصم
(تو وہ قاتل ہے کہ دنیا کو تماشا دکھانے کے لیے میرا خون بہاتا ہے اور میں وہ بسمل ہوں کہ خون آشام خنجر کے نیچے رقص کرتا ہوں )
غرض جس نے بھی حق کی راہ چنی وہ موردِ الزام ٹھہرایا اور جس ہستی کو بھی عزت و توقیر نصیب ہوئی اس کی شہرت دوام نے اس کے حاسد پیدا کردیے اس کے اپنے وہ ساتھی جو دوران سفر پیچھے رہ گئے انھوں نے بہتان تراشی، نفرت اور دشمنی کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا اور اسے نقصان پہنچا کر ہی دم لیا۔ مولانا روم نے کیا خوب فرمایا ہے۔ جب قلم کسی غدار کے ہاتھ میں آئے گا تو یقینا منصور کو دار پر کھینچا جائے گا۔ (ترجمہ)
مولانا طارق جمیل کو بھی اللہ نے بے پناہ شہرت اور عزت دی، یہ وہی مولانا ہیں جنھوں نے خواجہ سراؤں کو عبادت کی طرف مائل کیا۔ شوبز کے لوگ بھی اپنی پرفریب اور دلکش دنیا چھوڑنے پر تیار ہوئے ان کے بیانات میں نہ تعصب ہے اور نہ نفرت بلکہ امت مسلمہ اور رشتوں ناطوں میں محبت کی چاشنی کا مزہ اور اس کے فوائد سے آگاہ کرتے ہیں۔ اب اگر انھوں نے ٹی وی چینل پر دعا کے دوران حق بات کہی اور ان لوگوں کو برا کہا جو برے تھے سب کو تو نہیں کہا۔
پاکستان میں بے شمار برائیاں پروان چڑھی ہیں جھوٹ، بددیانتی اور بے حیائی عروج پر ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ایک عالم دین کی کلاس ان لوگوں نے لی جو ان کے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں تھے۔ مولانا طارق جمیل کو معافی بھی نہیں مانگنی چاہیے تھی۔ کس بات کی معافی، کیا انھوں نے قوم کی دولت لوٹی تھی قتل کا ارتکاب کیا تھا یا وطن عزیز سے غداری؟ آج جو ہم کورونا وائرس کے عذاب میں مبتلا ہیں یہ اعمالوں کی سزا ہی تو ہے جس کا ذکر مولانا طارق جمیل نے کیا تھا۔