آئینہ دار، کلیدِ سخن اور آبیل
1230 پاکستان سے بہت دور البرشرکرسٹل کی دوسری منزل پر بیٹھی مطالعہ کتب میں مصروف ہوں، موسم بھی خوشگوار ہے نہ سردی اور نہ گرمی، گھوم پھرکر تھک بھی چکی ہوں لہٰذا آج آرام کا دن ہے سوچا ان کتابوں پر کچھ لکھوں جو میں اپنے ساتھ لائی تھی۔ آبیل، کلید سخن اور آئینہ دار" میرے سامنے ہی رکھی ہیں۔ تینوں کتابیں قابل ذکر ہیں۔ چند دنوں قبل ہی مجھے ایک کتاب " کلید سخن" کے عنوان سے موصول ہوئی ہے۔ اس کے مصنف خلش کلکتوی ہیں لیکن تزئین نو یوسف راہی چاٹگامی نے کی ہے۔
پیش لفظ خیام العصر محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے تحریر کیا ہے۔ اسی مضمون سے چند سطور، وہ لکھتے ہیں کہ "خلش کلکتوی کا اردو شعرا میں بلند مقام ہے وہ سند کا درجہ رکھتے ہیں فن شاعری اور علم عروض میں ان کی عظمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، خلش صاحب کا طریقہ تفہیم نہایت سہل ہے، انھوں نے دشوار کو آسان بنانے کی سعی جمیل کی ہے، میرے خیال میں عروض کی مشکلات کو سمجھنے والے صاحبان عروض اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ انھوں نے بہت سے عروضی پہاڑوں کو ہموار کیا ہے جو کام ان سے پہلے کے ماہرین عروض، جو علم عروض کے اساطیر میں شمار ہوتے تھے ان سے زیادہ کام کیا اور طلبا کے لیے آسانیاں فراہم کردی ہیں، غیر ضروری اصطلاحات کو ختم کیا ہے، زحافات کو بھی کم کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے، دلیل کے ساتھ ہر بات کی ہے۔
ویسے بھی ادب کا طالب علم اصناف سخن سے نہ کہ دلچسپی رکھتا ہے بلکہ اکثر اوقات شعری ذوق اور مطالعہ کرنے کے بعد شعر کہنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ غزل، نظم زیادہ تخلیق کی جاتی ہے اس کتاب میں نظم و غزل کے بارے میں مکمل معلومات بہم پہنچائی گئی ہے۔ یقینی بات ہے نئے لکھنے والے بہتر طریقے سے لکھنے کی کوشش کریں گے۔ "اقسام نظم بہ لحاظ ہیئت" کے عنوان سے بتایا گیا ہے کہ نظم کی 10 اقسام ہیں۔ فرد، قطعہ، رباعی، غزل، مثنوی، ترجیح بند، ترکیب بند، مستزاد، مسمط، نظم، ان اصناف کی تعریف بھی کی گئی ہے کہ کچھ شعرا غزل کے لغوی معنی کو ہی اہمیت دیتے ہیں کہ غزل نام ہی عورتوں سے بات کرنے کا ہے، عشق و محبت کی بازگشت اور حسن و عشق کا بیان ہی ضروری ہے، شعرا ادب کے لیے یہ کتاب بہترین تحفہ ہے جس کا پڑھا جانا ضروری ہے۔
شفیق احمد شفیق کی شعر و ادب کے حوالے سے اہمیت مسلم ہے، وہ شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ تنقید و تحقیق پر بھی ان کا کام قابل ذکر ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ "ادراک" 1991 میں شایع ہوا، اس کتاب پر بھارت کی ایک ادبی انجمن نے انھیں فراق گورکھپوری اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا۔ ترتیب و تدوین کے اعتبار سے ان کی 5 کتابیں اور تین شعری مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔
بزنس ریکارڈر ماہنامہ انٹر ایکشن میں My Views on Reviews کے عنوان سے تبصروں پر مشتمل کالم لکھتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کی ادبی خدمات ہیں مضمون کی طوالت کے خوف سے اصل موضوع پر آتے ہیں اور "آئینہ دار" پر بات کرتے ہیں۔ جناب خواجہ منظر حسن منظر ان کی رباعیات کے حوالے سے اس طرح رقم طراز ہیں کہ "شفیق احمد شفیق نے اپنے عہد کے سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی حالات سے متاثر ہوکر رباعی کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ہے، جناب ڈاکٹر جمال نقوی نے اپنے مضمون "ادبی آئینوں کا محافظ" میں لکھا ہے کہ "رباعی کہنا سہل نہیں ہے، یعنی بقول جوش ملیح آبادی اپنی بے پناہ مشاقی اور نہایت دیدہ وری کی بدولت دریا کو کوزے میں بھرنے کا کام انھیں اس قدر آگیا ہے کہ اب رباعی شفیق احمد شفیق کے قابو میں آگئی ہے کیونکہ قلیل الفاظ کی وساطت سے کثیر معنی کا احاطہ کرکے صرف چار مصرعوں میں اس ربع مسکون کے تمام تجربات یا مشاہدات، تاثرات، نظریات اور افکار کا سمیٹ لینا ایک ننھے سے قطرے میں قلزم کو مقید کرلینا ہر شاعر کے بس کا روگ نہیں۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ تو نہیں ہے کہ تخلیقیت کے عمل میں خون جگر کرنا پڑتا ہے تب کہیں لہو کے پھول قرطاس ادب پر اپنا رنگ جماتے ہیں اس کی وضاحت شفیق احمد شفیق نے اس طرح کی ہے:
الفاظ کو تمثیل عطا کرتے ہیں
اظہار کو ترسیل عطا کرتے ہیں
ہم سینچتے ہیں خون سے فن پاروں کو
تہ داری و تکمیل عطا کرتے ہیں
اور انسانوں پر یکساں کرم کو بے حد دلکشی کے ساتھ نمایاں کیا ہے:
ساون ہو کہ بھادو ہو، عطا جاری ہے
ممنونِ کرم اس کا ہر اک ہاری ہے
منکر ہو، منافق ہو کہ ملحد سب پر
برکھا مرے مالک کی سدا جاری ہے
تخلیقیت کا کرب سہنے اور معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرنے والے گویا قلم بالجہاد کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اور ہمارا معاشرہ ہماری حکومت وہ قدر نہیں کرتی ہے، جس کے وہ حقدار ہیں، جس طرح ہمارے ملک میں استاد کی عزت نہیں، اسی طرح قلم کار کو اس کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے وہ لکھتا ہے کتابوں کی اشاعت کا کٹھن مرحلہ طے کرتا ہے لیکن پبلشر اسے اس کی کتابوں کی خرید و فروخت کا منافع دینے سے قاصر نظر آتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پیٹ بھرنا اور ضروریات زندگی کی چیزوں تک پہنچ بہت مشکل سے ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اپنا گھر نہیں بنا پاتا اسی احساس کو شفیق احمد شفیق نے بے حد دردمندی اور ذہنی کرب کے ساتھ سمویا ہے۔
اس وقت جو میرے ہاتھ میں کتاب آئی ہے وہ صفدر علی خان کا شعری مجموعہ ہے جو مزاحیہ شاعری پر مشتمل ہے، انھوں نے شاعری کے پیکر معاشرتی مسائل اور انسانی حقوق اور سماجی رویوں کی عکاسی شگفتہ انداز میں کی ہے جسے پڑھ کر قاری تادیر لطف لیتا ہے۔ مذکورہ مجموعے پر ڈاکٹر یونس حسنی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ جیسے قدآور قلم کاروں نے ان کی شاعری کو سراہا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار جناب سلطان جمیل نسیم نے اپنے مضمون "چمکتے اور کھنکتے لہجے کا شاعر" میں لکھا ہے کہ "وہ پاکستان کے مقتدر مزاح گو شاعروں کی صف میں اپنی ایک امتیازی جگہ بنا چکے ہیں اور اگر اس امتیازی جگہ میں ایک انچ کی کسر یا ایک انگل کا فاصلہ بہت سے ادب دوستوں کو محسوس ہوتا ہے تو صفدر علی خان کا ذوق و شوق اور لگن بہت جلد ان کو اپنے عہد کے طنز و مزاح نگار شعرا کی صف میں ایک نمایاں مقام پر پہنچا دے گا۔
شاعر نے بیلوں کے سینگ کھانے کا خود ہی انتظام کرلیا جب ہی انھوں نے اپنی کتاب کا نام "آبیل" رکھا ہے۔ ان کا مطلب ہے کہ "آبیل" مجھے مار، مار سے دل نہیں بھرا ہے کیا؟ چونکہ آج کا زمانہ تو ایسا ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی شکل میں ایک دوسرے کو مارنے پر تلا ہوا ہے۔ صفدر علی خان "انشا" کے عنوان سے ایک پرچہ بھی سالہا سال سے نکال رہے ہیں، کالج کے پروفیسر رہ چکے ہیں اکثر شاعری کے حوالے سے ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں اور ہنسنے ہنسانے کا اہتمام خلوص دل کے ساتھ کرتے ہیں چلیے چند اشعار سے محظوظ ہوتے ہیں۔
خرد مندی کا جادہ دیکھتا ہوں
تو خود کو پا پیادہ دیکھتا ہوں
ہوئی ہے آخرت کی فکر جب سے
منافع میں خسارہ دیکھتا ہوں