Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Wazir e Azam Ke Behnoi Ka Plot

Wazir e Azam Ke Behnoi Ka Plot

وزیراعظم کے بہنوئی کاپلاٹ

وزیراعظم عمران خان کے بہنوئی کا پلاٹ اس وقت خبروں میں ان، ہے جس پر قبضہ گروپ کا قبضہ تھا اورانہوں نے اس قبضے کو ختم کرنے کے لئے مبینہ طور پر بار بارپولیس کو حکم دیا اور پھر انہیں لاہورمیں بہترین پولیسنگ کے لئے موجودہ سی سی پی او عُمر شیخ کو لگانا پڑا۔ عمران خان کے الفاظ تھے کہ وزیراعظم کے بار بار کہنے کے باوجود پولیس نے قبضہ گروپ سے پلاٹ واپس نہیں لے کر دیا اوریہ کہ لاہور جیسے شہر میں قبضہ گروپ کا یہ حال ہے تو معذرت کے ساتھ ان کی دونوں باتیں ہی غلط تھیں کہ لاہور پولیس سابق سی سی پی او ذوالفقار حمید کے دور میں ہی پی آئی اے سوسائٹی کے فیز اے ون کے پلاٹ نمبر چوراسی اور پچاسی کا قبضہ عدالتی حکم امتناعی کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے 29فروری 2020 لے کروزیراعظم کے بہنوئی احدبرکی اور ان کے ساتھی یوسف کو لے کر دے چکی ہے۔ پی آئی اے سوسائٹی جوہرٹاون اورواپڈا ٹاون جیسی کامیاب سوسائٹیوں کے جھرمٹ میں ہے جہاں قبضہ دلوانے کے لئے ڈپٹی رجسٹرار کواپریٹو خود پی آئی اے سوسائٹی پہنچے تھے، انہوں نے پولیس کی بھاری نفری طلب کی تھی اور وہاں یعقوب کھوکھر کی قبضے کی تمام تعمیرات پی آئی اے سوسائٹی کے عملے اور مشینری کے ساتھ مسمار کردی تھیں اور دوسری بات اس لئے غلط ہے کہ وہ قبضہ محض بندوقوں کی مدد سے قبضہ نہیں تھا بلکہ اسے ایک عدالتی حکم نامے کی قانونی طاقت حاصل تھی۔ میں یقینی طورپر بطور صحافی کسی عدالتی حکم نامے کو غلط نہیں کہہ سکتا لیکن اگر آپ حقیقت پوچھتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے حکم ناموں پر قبضے ہوتے اور برقراررہتے ہیں۔

میں پی آئی اے سوسائٹی کے صدرمرزادلدار بیگ سے ملا، مجھے ستر برس کے اس بزرگ میں نوجوانوں سے زیادہ طاقت، ہمت اوربہادری نظر آئی کہ وہ چار برس سے اس علاقے میں کھوکھروں کے مشہور زمانہ قبضہ گروپ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے۔ سوشل میڈیا پر کھوکھروں کا قبضہ گروپ نواز لیگ کے رہنماوں افضل کھوکھراور سیف کھوکھر وغیرہ سے منسوب کیا جاتا ہے مگراس میں بڑانام پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی کرامت کھوکھر کا بیان کیا جاتا ہے جنہیں مشہور زمانہ منشا بم کی گرفتاری روکنے پر ثاقب نثارتک طلب کرچکے ہیں اور وہاں ان کے ساتھ ندیم بارا بھی چیف جسٹس کے سامنے رو پڑے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ پلاٹ واقعی وزیراعظم کے بہنوئی احدبرکی کا ہے جن کانام احدنیازی بیان کیا جا رہا تھا مگر جناب حفیظ اللہ نیازی نے تصحیح کی احد صاحب برکی ہیں، مرزادلدار بیگ نے تصدیق کی کہ پچاسی نمبر پلاٹ ان کے والد عبدالاحد کو ہی پی آئی اے سے ملا تھا جبکہ چوراسی نمبر پلاٹ یوسف کا ہے جس کا قبضہ واپس ہونے کے بعد قتل ہو گیا تھا اوران کی بیوہ نسیم یوسف قتل کے اس مقدمے کی مدعیہ ہیں جس میں قبضہ گروپ یعقوب کھوکھر کے دو بیٹے اس وقت جیل میں ہیں۔ میرا یہ سوال تھا کہ یعقوب کھوکھر کو حکم امتناعی کس بنیاد پر ملا تو اس کا جواب یوں ہے کہ یعقوب کھوکھر کے مطابق اس نے پی آئی اے سوسائٹی کو اپنی آبائی زمین فروخت ہی نہیں کی لہٰذا اس پرالاٹمنٹ نہیں ہوسکتی مگر دوسری طرف سوسائٹی کے پاس رجسٹری اورانتقال موجود ہے۔ یعقوب کھوکھر مجموعی طور پراس دعوے اور عدالتی حکم کے ساتھ پی آئی اے سوسائٹی کے دس پلاٹوں پرقابض تھا جن میں سے صرف وزیراعظم کے بہنوئی اور ان کے ساتھی کے پلاٹ واگزار ہوئے۔

 میں نے وزیراعظم کے بہنوئی کے بارے بھی تحقیق کی کہ کہیں وہ غلط دعویٰ تونہیں کر رہے تو علم ہواکہ وہ اچھے اورنیک آدمی ہیں اورتبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں۔ ان سے واٹس ایپ پررابطہ ہوا توانہوں نے بتایا کہ وہ اللہ کی راہ میں نکلے ہوئے ہیں اور چالیس روزہ لگا رہے ہیں۔ میرے ساتھ پی ٹی آئی کے پارلیمانی سیکرٹری اوررہنما نذیر چوہان بھی تھے جو اس معاملے کو پوری طرح سیاسی جمع تفریق کے لئے استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سوسائٹی کی ملی بھگت سے یہ قبضے ہو رہے ہیں جو تحقیق پر غلط ثابت ہوا۔ علم ہواکہ پی آئی اے سوسائٹی میں اکیس سو پلاٹ ہیں اوران میں سے صرف پندرہ پر قبضے ہیں، ان پندرہ میں سے دس پر یعقوب کھوکھر کا قبضہ تھاجو اب آٹھ پر رہ گیا ہے مگر اب یہاں ایک اور تکنیکی نکتہ ہے کہ وزیراعظم کے بہنوئی اور ان کے ساتھی اپنے ملکیتی پلاٹ فروخت کرنا چاہتے ہیں مگروہ پولیس کی مدد سے قبضہ تولے چکے اور وہاں اپنے پکھی واس، بٹھا چکے مگروہ پلاٹ اس وقت تک ان کے نام پر ٹرانسفر نہیں ہوسکتے جب تک حکم امتناعی خارج نہ ہو۔ جناب نذیر چوہان کی جذباتی تقریر تھی کہ وہ لوگ کہاں جائیں جن کوایسے اسٹے آرڈرزکی وجہ سے تیس تیس برس تک اپنے ہی پلاٹوں کی ملکیت نہیں ملتی تومیرا سوال تھا کہ کیا تمام حکم امتناعی اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دئیے جائیں اور جو جوکسی طاقت ورشخص کا بہنوئی ہو وہ پولیس کو استعمال کر کے قبضے کر لے۔ میرا یہی سوال جناب سی سی پی او لاہور سے تھا جب مجھے وزیراعظم کے انٹرویوکی ویڈیو واٹس ایپ پرملی۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ قبضے کروانا اور چھڑوانا پولیس کا کام نہیں ہے ورنہ یہاں آدھے پاکستان پر قبضے ہوجائیں گے۔ اب ان کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ مالکان پلاٹ بیچنا چاہتے ہیں مگرڈیڑھ کروڑسے زائد کا پلاٹ پچاس لاکھ میں بھی نہیں بک سکے گا۔

ہمارے ہاں یہ کام بہت برا ہے کہ طاقت ورلوگ جھگڑے والی جگہ سستے داموں خرید لیتے ہیں اور پھر اسے تھانے کچہری کی مدد سے سیدھا کر لیتے ہیں۔ جب میں تحقیق کے لئے پی آئی اے سوسائٹی کے دفتر میں موجود تھا کہ وہاں لاہور کے سینئر اورمعروف صحافی نے بتایا یوسف صاحب نے بھی یہی کام شروع کر دیا تھا جس کا نتیجہ برانکلا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کے بہنوئی پولیس کی مدد سے آٹھ، نوماہ پہلے قبضہ لے چکے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ انہیں یہ لڑائی اپنی اہلیہ کے بھائی کے ذریعے نہیں بلکہ عدالت میں لڑنی چاہئے اور جناب احمد برکی کی اہلیہ کے بھائی کو بھی پولیس کو قبضہ دلوانے کا حکم دینے کے بجائے ان ہزاروں بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کے بارے سوچنا چاہئے جن کو ان کے بہنوئی جیسے معاملے کا سامنا ہے۔ وزیراعظم اس وقت تمام اداروں کے ساتھ ایک ہی صفحے پر ہیں اور یہ ان کے اقتدار کو اب تک استحکام دے رہا ہے اور و ہ اس کا فائدہ عوام کو بھی پہنچا سکتے ہیں اگر وہ چیف جسٹس سے بات کریں، ان اسٹے آرڈرزکا کوئی شافی علاج تلا ش کریں۔ خود وکیل بتاتے ہیں کہ مختلف ایسوسی ایشنوں اوربارزکے الیکشن پرکروڑوں روپے ہنسی خوشی اس لئے خرچ کر دئیے جاتے ہیں کیونکہ وہ عہدے دار بننے کے بعد ایسے قبضہ گروپوں کے وکیل بن جاتے ہیں، اسٹے آرڈرز لیتے ہیں اور کروڑوں ایک ہی قبضے کو قانونی جواز فراہم کرنے میں کھرے کر لیتے ہیں جبکہ عہدے داری کی عزت اورشان الگ سے ملتی ہے۔

وزیراعظم کے بہنوئی کے پلاٹ کی یہ ساری کہانی ہے جس کا ذکرانہوں نے ایک انٹرویومیں کیا۔ یہ پلاٹ اب تک عہدے اورجانیں لے چکا ہے۔ میں درخواست کروں گاکہ وزیراعظم اسی کو ٹیسٹ کیس بنالیں۔ پولیس کو اس میں سے باہرنکالیں۔ قانون اورمنطق کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اصلاحات کریں اورصرف اپنے نیک سیرت بہنوئی نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں بیواوں، یتیموں اور غریبوں کی دعائیں لیں جن کے پلاٹوں پر قبضے ہیں۔ پی آئی اے سوسائٹی کو ہی دیکھ لیں جس کے کئی کنال پر ان کے اپنی پارٹی کے رہنماوں کے قبضے ہیں اور ان کے بہنوئی کے علاوہ کسی کو نہ مددملی نہ انصاف۔

Check Also

Civil War

By Mubashir Ali Zaidi