1.  Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Main Hukumat Ke Saath Hoon

Main Hukumat Ke Saath Hoon

میں حکومت کے ساتھ ہوں

حکومت اگر سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ کو ظاہر کرنے کے قانون کے ساتھ لوٹاکریسی اور ضمیر فروشی روکنا چاہتی ہے تو میں حکومت کے ساتھ ہوں۔ یقین کیجئے مجھے بہت سارے دنوں میں، بہت ساری مباحث میں، ایک بھی دلیل ایسی نہیں مل سکی جس کی بنیاد پر وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے موقف اورمقصد کی نفی کی جا سکے۔ میرا خیال تھا کہ اپوزیشن باالخصوص مسلم لیگ نون سینیٹ کے انتخابات میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایسے کسی بھی اقدام کا ساتھ دے گی جس میں انتخابات کو فول پروف بنایا جاسکے مگر شائدپارٹی کے اندر بدترین حالات میں بھی ایشوز پر بحث کا کوئی ماحول نہیں بنا یا جا سکا۔ میں سیاسی قائدین کی فہم و فراست سے انکار نہیں کرتا مگر بہت سارے فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کا آپ کی سیاست اور موقف کے ساتھ کوئی تال میل نہیں ہوتا اور وقت گزرنے کے بعد محسوس ہوتاہے کہ غلطی کی گئی ہے جیسے فوجی سربراہان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بل کی حمایت پر نواز شریف آج تک اپنے ہی قائدین کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتے۔

واحد سمجھ آنے والی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ ہم اپوزیشن ہیں، حکومتی بل اور مفادات کی تکمیل کیو ں کریں۔ اپوزیشن اس خام خیال کا شکار ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان کوئی بغاوت کرنے والے ہیں اور ان کی بڑی تعداد سینیٹ کے انتخابات میں حکومتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دے گی۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مقتدر قوتوں نے عمران خان کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور اپنے سیاسی فیصلے خود کرنے کا پیغام پہنچا دیا ہے۔ ہمارے بعض دوست، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنسوں میں دئیے گئے بیانات کا بھی حوالہ دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جواب میں مولانا فضل الرحمان، جو اس وقت نواز شریف اورمریم نواز شریف کا مکمل اعتماد انجوائے کر رہے ہیں، کی طرف سے یہ بیان اہم ہے کہ ان کی لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ حکمران جماعت سے ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مولانا نے یہ بیان نوازلیگ کی قیادت کے مشورے اور مرضی کے بغیر نہیں دیا گیا ہو گا۔ اس سے لگتا ہے کہ نواز شریف ایک مرتبہ پھر شہباز شریف کی پالیسی کے قائل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ہی وہ آج جیل ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر ہیں اور دوسری طرف مریم نواز بھی ضمانت پر ہونے کے باوجود اپنی سیاست کھل کے کر رہی ہیں حالانکہ یہی سیاست کرنے پر وہ دوبارہ جیل پہنچ گئی تھیں۔

میں اپوزیشن کی اس خوش فہمی کو مکمل طورپر مسترد نہیں کرتا کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں ہیں مگر اس بات پر بھی یقین نہیں کرسکتا کہ وہ لوگ جو پی ٹی آئی کو کامیاب کرواتے رہے ہیں وہ اب اپوزیشن کو کامیاب کروانا چاہتے ہیں۔ میرے سامنے کوئی ایک ایسی مثال موجود نہیں جس میں جناب عمران خان نے اپنے " مینڈیٹ" سے انحراف کیا ہو۔ یہ ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہے جس میں پی ٹی آئی کو ایوان بالا بھی میں سب سے بڑی جماعت بنانا ہے اور اس کے لئے نمبر گیم پوری ہے۔ اب اندیشہ یہ ہے کہ حکمران جماعت کے کچھ ارکان اپنے ووٹ فروخت کرسکتے ہیں اور یقینی طور پر وہ اپنے ووٹ ایسے امیدواروں کو فروخت کریں گے جن کے پاس بہت زیادہ مال ہو گا۔ یہ کام خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں زیادہ دھڑلے کے ساتھ ہو تا رہا ہے مگر دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ قیمت یا دباو پر اپوزیشن ارکان بھی اپنے ووٹ پارٹی مفاد کے خلاف ڈال سکتے ہیں لہٰذا ایک ایسی آئینی ترمیم یا قانون سازی حکومت اور اپوزیشن دونوں کے حق میں ہے جو شفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔ اپوزیشن اس قانون کی مخالفت برائے مخالفت میں انتہا پر جا کے اپنے ہی پاوں پرکلہاڑا مار رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ جہاں اسے اخلاقی گھاٹے کا سامنا ہے وہاں ایک مرتبہ پھر سیٹوں کے گھاٹے کا بھی سامنا کرنا پڑجائے۔ مجھے یہ سوچ کر بھی ہنسی آجاتی ہے کہ موجودہ کئی برس سے جاری سیاسی صورتحال میں اپوزیشن، خفیہ بیلیٹنگ کو برقرارر کھوا کے حکومتی ارکان خرید لے گی اور ان کے ووٹ اپنے امیدواروں کو دلوا لے گی۔

ایک سینئر تجزیہ کار نے رائے دی کہ اگر حکومتی موقف کی حمایت کی جائے تو اس سے پارٹی لیڈر کی آمریت قائم ہوجائے گی مگروہ یہ موقف دیتے ہوئے نظرانداز کر گئے کہ اگر حکومتی موقف کی حمایت نہ کی جائے تو اس کے نتیجے میں پارٹی ڈسپلن اور مفاد نام کی کوئی شے باقی نہیں رہے گی۔ اگر آپ ضمیر کے نام پر ہر کسی کو اپنے من پسند امیدوار کو ووٹ دینے کی اجازت دے دیں گے تو پھر یہاں بولیاں لگیں گی اور سینیٹ کا انتخاب مکمل طور پر نیلام گھر میں تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔ میرے ایک اور عامل صحافی دوست زاہد عابد کاموقف ہے کہ ووٹنگ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ارکان کی رائے ورنہ سینیٹ میں صوبائی اسمبلیوں میں نمائندگی کی شرح سے نشستیں الاٹ کر دینی چاہئیں۔ میں ان کی وزنی دلیل سے اتفاق کرلیتا مگر اپوزیشن نے ایک مرتبہ بھی اپنے اختلاف کی یہ وجہ بیان نہیں کی اور نہ ہی اس متناسب نمائندگی کی طرف آئے ہیں جس کی بنیاد پر ارکان کے چناو کایہ فارمولا لگایا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کی دوسری سب سے بڑی اور آن دی ریکارڈ دلیل یہ ہے کہ حکومت درست طریقہ کار اختیار نہیں کر رہی مگر یہ دلیل عوام یا اپنے ووٹروں کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ انہوں نے خود پارلیمنٹ میں حکومت سے تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت عدالت میں اس ابہام کو واضح کرنے گئی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات آئین کی دفعہ کے تحت ہوتے ہیں یا الیکشن ایکٹ کے تحت۔ اگر آئین کی دفعہ کے تحت ہوتے ہیں تو آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی جس کے لئے حکومت کے پاس اکثریت موجود نہیں۔ اسی طرح آر ڈی ننس کے جاری کرنے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے تو اس کا بھی جواز موجود ہے کہ آپ کو انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی قانون میں ترمیم کا اختیار ہے لہٰذا عدالتی فیصلے سے مشروط ایک آرڈی ننس جاری کر دیا گیا ہے۔ ایک اضافی دلیل یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ فیصل واوڈا جیسے لوگوں کو سینیٹ کا رکن بنوا دے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فیصلہ پارٹیوں نے ہی کرنا ہے اور اس کے لئے پارلیمانی بورڈ قائم کئے جاتے ہیں جو امیدواروں کا فیصلہ کرتے ہیں، اگر پارٹیاں یہ فیصلے نہیں کریں گی تو پھر کون کرے گا؟

ہم اتفاق کریں یا اختلاف، سینیٹ انتخابات میں ووٹ فروخت کرنے کے خلاف سب سے بڑی کارروائی بھی ہمیں تین برس پہلے پی ٹی آئی کی ہی نظرآتی ہے جب عمران خان نے بطور پارٹی سربراہ اپنے ہی بیس ارکان کے خلاف کارروائی کر تے ہوئے ان کے نام پبلک کر دئیے تھے جن کی وجہ سے مبینہ طورپر پیپلزپارٹی کے دو سینیٹر منتخب ہو گئے تھے جبکہ ناکام تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن اپنے ارکان کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکی تھی چہ جائیکہ ان کے منہ کالے کر کے انہیں گدھے پر بٹھایا جاتا۔ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ پارٹیاں ارب اور کھرب پتیوں کو ٹکٹیں جاری کریں اور وہ دوسری پارٹیوں کے ووٹر ارکان ایسے خرید لیں جیسے گدھے گھوڑے خریدے جاتے ہیں۔ میری نظرمیں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی روایات کے پیش نظر سینیٹ کے انتخابات میں ان اصلاحات کی ضرورت ہے یا نہیں جن کی بات خود نواز لیگ اور پیپلزپارٹی والے کرتے رہے ہیں۔ میں اپنے ارکان اسمبلی کے اخلاق اور کردار پر اعتماد کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے ماضی کی شرمناک روایات ایسا کرنے سے روکتی ہیں۔ دنیا بھر میں غیر اخلاقی اور منفی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے قانون سازی ہوتی ہے اوراس کی حمایت کی جانی چاہئے۔ مجھے یہ وضاحت دینے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں اب بھی موجودہ حکومت کے قیام اور اس کی کارکردگی کے حوالے سے تحفظات اور سوالات رکھتا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ میری وابستگی کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ملک، آئین، جمہوریت اور اخلاقیات کے ساتھ ہے اور حکومتی موقف سینیٹ کے صاف شفاف انتخابات کے حوالے سے زیادہ واضح ہے۔

Check Also

Hum Ye Kitab Kyun Parhen?

By Rauf Klasra