عمران خان کو رہا کر دیا جائے؟

پاکستان کے جمہوری اور پارلیمانی نظام کا جائزہ لیا جائے تواس میں اپوزیشن کے رہنما عمران خان ہی ہیں کیونکہ ان کے علاوہ باقی تمام اہم جماعتیں (جماعت اسلامی کے استثنیٰ کے ساتھ) حکومت کا حصہ ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں، قومی یکجہتی پیدا کرنے کی دلیل کے ساتھ یہ ایک اہم اور سنجیدہ مطالبہ ہے۔
اگر آپ میری ذاتی رائے پوچھیں تو میں سیاستدانوں کی اس قید کے سخت خلاف ہوں جنہیں سیاسی اختلاف پر جیل میں رکھا جائے۔ پی ٹی آئی اس حوالے سے بہت سارے حلقوں میں کامیاب نظر آتی ہے جہاں وہ عمران خان کے جیل میں ہونے کو سیاسی قید کے طور پر پیش کرتی ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی سخت ناقد ہونے کے باوجود عمران خان کی قید کو انہی جیسی قرار دیتی ہے۔ یہ ایک باریک واردات ہے جوعوام کو گمراہ کرنے کے لئے فکری بنیادوں پر ڈالی جاتی ہے۔
میں اس آغاز میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ کیا عمران خان پرذاتی، مالی، سیاسی اور فوجداری نوعیت کے الزامات وہی ہیں جو اس سے پہلے قید ہونے والے سیاسی رہنماؤں پر تھے چاہے اسے لسٹ کو آپ کھینچ کے سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی تک لے جائیں۔ ان الزامات کو وقتی طور پر چھوڑیں، سوال یہ ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کو رہا کر دیا جائے تو وہ قومی یکجہتی میں اضافے میں باعث بن سکتے ہیں تو میں ایسا بھی ہرگز نہیں سمجھتابلکہ ان کی ذاتی فطرت اور سیاسی حرکیات دیکھتے ہوئے میرے خدشات اور خطرات شدید نوعیت کے ہیں جس کے لئے میرے پاس تاریخی حوالے بھی موجود ہیں۔
ہمیں اس سے پہلے عمران خان کی قومی اور سیاسی حکمت عملی دیکھنی ہوں گی۔ وہ ملکی تاریخ کے پہلے رہنما ہیں جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے پاکستان کی فوج کے ہیڈکوارٹرز ہی نہیں بلکہ کور کمانڈر ہاؤسز اور شہداء کی یادگاروں سمیت سو کے قریب فوجی تنصیبات پر حملے کروائے۔ یہ سب کچھ اس وقت بھی نہیں ہوا جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی یا بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔
عمران خان نے یہ سب صرف اپنی گرفتاری پر کر دکھایا۔ یہ وہ سیاسی رہنما ہے جس نے پاکستان کو ڈیفالٹ کروانے کے لئے اپنی تنظیموں کے ذریعے بیرون ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے دفاتر کے سامنے مظاہرے کروائے اور ترسیلات زر روکنے کے لئے تارکین وطن کو مجرمانہ طور پر اکسایا۔ میں اس شخص کے ذاتی کردار کو اخبار کے مقدس صفحات پر ڈسکس نہیں کرنا چاہتا مگر میرے پاس ماضی میں اس سے سیاسی مماثلت رکھتا ہوا ایک ہی کردار ہے جسے ہم سب شیخ مجیب الرحمان کے نام سے جانتے ہیں۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو رہا کر دیا جائے انہیں ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی بجائے اس کا موازنہ شیخ مجیب الرحمان سے کرنا ہوگا جس کے حق میں وہ اب بھی اپنے سوشل میڈیا پر پوسٹس شیئر کرتا ہے اور گمان ہے کہ وہ ایک اور شیخ مجیب بننا چاہتا ہے مگر اس وقت پاکستان کی فوج اور سیاسی جماعتیں بہت چوکنا ہیں۔ میں آپ کو 1968ء اور1969ء کے کچھ واقعات کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ یہ وہ برس تھا جب شیخ مجیب پر اگرتلہ سازش کیس بنایا گیا۔
شیخ مجیب کو عوامی لیگ کے سربراہ کے طور پر اس سازش کا کلیدی کردار قرار دیا گیا جو بھارتی حکام سے خفیہ رابطوں میں تھا اور مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک منظم کر رہا تھا۔ شیخ مجیب کو اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار کر لیا گیا تھا مگر اسے 22 فروری1969ء کو رہا کر دیا گیا۔ یہ رہائی جنرل ایوب خان کی طرف سے بلائی گئی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے ایسے ہی سیاسی دباؤ کے نتیجے میں ہوئی تھی جیسا آج کل عمران خان کے لئے ڈالا جا رہا ہے۔ اس کی رہائی کے لئے حزب اختلاف کے سیاسی رہنمائوں خاص طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے زور وشور سے مطالبہ کیا تھا اور اسی دوران مقدمہ بھی واپس لے لیا گیا تھا۔
شیخ مجیب کی بائیس فروری 1969ء کو رہائی نے اسے بہت زیادہ سیاسی فائدہ اور پاکستان کو اتنا ہی سیاسی نقصان دیا تھا۔ شیخ مجیب اپنے چھ نکات کے ساتھ زیادہ طاقتور ہوگیا تھا اوراس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ پاکستان 17 دسمبر1971ء کو دو لخت ہوگیا۔ اس دوران ہماری عدالتوں نے بھی بنیادی حقو ق کے نام پر شیخ مجیب کی سیاسی خدمت، کی تھی۔ میں نے تاریخ اور سیاست کے طالب علم کے طور پر عمران خان کے کردار کا جتنا بھی مطالعہ کیا ہے مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر اسے رہا کر دیا گیا تو یہ شیخ مجیب الرحمان سے زیادہ خطرناک اور گھنائونا کردارادا کر سکتا ہے۔ اس کی رہائی کا مطالبہ قومی یکجہتی کے نام پر کیا جارہا ہے مگر عملی طور پراس کا متحرک ہونا قومی یکجہتی کے لئے زہر قاتل ہوگا۔
یہ وہ سیاستدان ہے جو اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کے لئے کسی بھی انتہا تک جا سکتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی سے اس قربانی اور ذمے داری کی رتی برابر امید نہیں رکھی جا سکتی جیسے اس سے پہلے آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا یا نواز شریف نے اوپر ہونے والے مظالم کو ایک طرف رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ مولانا مودودی کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے جس قومی کردار کا مظاہرہ کیا اس کی توقع بھی عمران خان سے نہیں رکھی جا سکتی۔ ہمیں اپنے ماضی کو دہرانا نہیں ہے، اس سے سبق سیکھنا ہے، کی گئی غلطیوں سے بچنا ہے۔
بانی پی ٹی آئی، رہائی کے بعد، ایک سے زیادہ طریقوں سے ملک اور قوم کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جس میں سب سے پہلے اس کی ذات اور ماضی کی وہ رشتے داریاں ہیں جو وہ اب بھی سنبھالے ہوئے ہے۔ انتہائی مہنگے داموں دستیاب اسرائیل نواز امریکی ارکان پارلیمنٹ حیرت انگیز طور پر کرائے پر حاصل کئے جاتے ہیں، یہ فنڈنگ اپنے ذرائع اور مقاصد میں بہت ہی مشکوک ہے۔ عمران خان کا سوشل میڈیا بھی جس کی طاقت عادل راجے، حیدر مہدی اور شاہین صہبائی جیسے اکائونٹس ہیں وہ کھلم کھلا ریاست مخالف اور بھارت کی پراکسیز ہیں۔ رہائی کے مطالبے پر سوال تو یہ ہے کہ وہ کون سا کام ہے جو اس کے بغیر نہیں ہورہا۔
پاکستان سلامتی کونسل سے لے کر امریکہ اور چین تک ہر جگہ اپنا مقدمہ کامیابی سے لڑ رہا ہے۔ حکومت کی بیانئے اور سفارتکاری کی جنگ میں کامیابیاں شاندار ہیں۔ اس کا موازنہ پانچ اگست 2019ء سے کیجئے جب بین الاقوامی قوانین اور سکیورٹی کونسل کی قراردوں کو بھارت نے روندا اور اس وقت خود عمران خان کی حکومت ہر جمعے کو آدھا گھنٹہ دھوپ میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکائونٹس دیکھتا ہوں تو مجھے ان میں سے بہت ساروں کی ملک و قوم سے وفاداری مشکوک نظر آتی ہے۔ سو ایسے میں ان کے سرخیل کو رہا کرنا شیخ مجیب کی رہائی والی غلطی دہرانے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔