Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Najam Wali Khan
  3. Farishton Ke Darmiyan Aik Din

Farishton Ke Darmiyan Aik Din

فرشتوں کے درمیان ایک دِن

اپنی کمپنی کا انتخاب آپ خود کرتے ہیں، جی ہاں، وہی کمپنی جس کے بارے پڑھایا جاتا ہے کہ اے مین از نائون بائے دا کمپنی ہی کِیپس، ویسے یہ بات صرف مردوں ہی نہیں عورتوں بارے بھی کہی جا سکتی ہے مگر نہیں کہی گئی، نجانے کیوں، یعنی اگر آپ اچھے لوگوں کو دوست رکھیں گے تو آپ بھی اچھے بن جائیں گے جیسے خوشبو بیچنے والے کے پاس بیٹھیں گے تو اپنے ساتھ خوشبو لے کر اُٹھیں گے اور کوئلہ بیچنے والے کے پاس بیٹھیں گے تو لامحالہ ہاتھ، چہرہ اور کپڑے کالے کر لیں گے۔

آپ کالم کے عنوان سے سمجھ رہے ہوں گے کہ میں نے ان فرشتوں کے ساتھ دن گزارا جن کے ساتھ صحافیوں کو راتیں بھی گزارنی پڑ جاتی ہیں، نہیں نہیں، میں ایسا صحافی ہوں اور نہ ہی میری حرکتیں ایسی ہیں کہ ان کی پکڑ میں آئوں۔ میں اچھے اور نیک لوگوں کی بات کر رہا ہوں اور ایسے نیک لوگوں کی جن کے بارے کہا گیا، فرشتے سے بہتر ہے انساں ہونا، مگراس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔

میں نے کہا، ہم لوگوں میں برائیاں ڈھونڈنے، چور چور کا شور مچانے کے عادی ہوچکے حالانکہ ہمارا معاشرہ اچھے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ میں نے یہ بات قابل فخر پاکستانی جناب سید لخت حسنین کی غیر سرکاری تنظیم مسلم ہینڈز، کے کے زیر اہتمام ان کے ٹیکنالوجی کالج سوہدرہ (وزیر آباد) میں ا س آڈیٹوریم کی افتتاحی تقریب میں کہی جسے بہت ہی شاندار ادبی شخصیت عطاء الحق قاسمی کے نام کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ جس طرح چراغ سے چراغ جلتا ہے اسی طرح اگر آپ کا اگر ایک اچھا دوست ہو تو آپ کے بہت سارے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔

عطاء الحق قاسمی، بیاسی برس کے وہ نوجوان ہیں جو ہم سب کے لئے ہمت اور حوصلہ ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس وقت قومی اخبارات میں شائع ہونے والی تحریروں میں اگر کسی تحریر کو واقعی کالم کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف قاسمی صاحب کی ہے ورنہ ہم میں سے کچھ مضامین کو کالم بناتے ہیں اور کچھ تجزیوں کو۔

میں ان کا اس لئے بھی فین ہوں کہ وہ اسلام، پاکستان اور جمہوریت کے حقیقی محافظ ہیں، وہ نفرت کی بجائے محبت، تخریب کی بجائے تعمیر اور دشمنی کی بجائے امن کے سفیر ہیں۔ وہ کہنے اور لکھنے کا ہنر جانتے ہیں جیسے آج بھی خواجہ اینڈ سن، سمیت ان کے تحریر کردہ دیگر ڈراموں کو پاکستان کی تاریخ کے ٹاپ ٹین میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں ریاست کی طرف سے ہر طرح کے ایوارڈ مل چکے مگر مجھے حیرانی ہوئی کہ ان کے شہروزیر آباد کی کوئی بڑی سڑک، کوئی بڑا پارک ان کے نام سے منسوب نہیں۔ وزیر آباد بار کے صدر بتا رہے تھے کہ رضیہ بٹ جیسی معروف ناول نگار کے نام پر بھی کچھ نہیں، کیوں؟

چراغ سے چراغ جلا، سید لخت حسنین نے حیران کر دیا، ان کی این جی او صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان اور صومالیہ سمیت دنیا کے چودہ سے زائد ممالک میں تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہے، صرف پاکستان میں ہی اس کا خرچ کیا جانے والا بجٹ کئی ارب روپوں میں ہے۔

وہ ہمیں اپنے آبائی علاقے سوہدرہ میں قائم کئے گئے تعلیمی ادارے دکھا رہے تھے جیسے بچیوں کا سکول اور کالج، میں نے دیکھا کہ وہاں نرسری اور پریپ میں بھی ملٹی میڈیا سمیت وہ تمام سہولتیں تھیں جو اس وقت چالیس پچاس ہزار روپے ماہانہ فیس لینے والے سکول فراہم کر رہے ہیں مگر مسلم ہینڈز کے اداروں میں غریبوں اور یتیموں کے لئے بالکل مفت۔ وہ بتا رہے تھے کہ تراسی فیصد سٹوڈنٹس کو مفت تعلیم اور رہائش دی جاتی ہے، ایک سو بچیوں کی رہائش کا انتظام بھی ہے جسے تین سو تک بڑھایا جا رہا ہے، ہماری بیٹیاں بتا رہی تھیں کہ وہ وہاں لاہور، اوکاڑہ، منڈی بہاؤالدین، بھیرہ سے آزاد کشمیر تک سے آ کر پڑھ رہی ہیں۔

بچیوں سے پوچھا، کھانے میں گوشت بھی ملتا ہے تو جواب ملا تقریباََ ًروزانہ ہی۔ جو بات سب سے شاندار تھی وہ یہ کہ مسلم ہینڈز کے تعلیمی ادارے جس بچی اور بچے کو پریپ میں لیتے ہیں اسے کالج اور یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم تک لے جاتے ہیں۔ سید لخت حسنین نے بتایا کہ مسلم ہینڈز کے تمام منیجرز کے لئے یہ لازمی ہے کہ ان کے اپنے بچے ان کے سکولوں، کالجوں میں پڑھ رہے ہوں۔ اس وقت مسلم ہینڈز کے سکولوں میں ساٹھ ہزار سے زائد بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے جیسے پہلے بتایا کہ تراسی فیصد مکمل مفت اور جن سے فیس لی جا رہی ہے وہ بھی محض دو، اڑھائی ہزار روپے۔

سید لخت حسنین، بیرون ملک مقیم پاکستا نیوں کی وطن سے محبت کی مثال ہیں۔ میں نے یہاں ایک بہت کمال چیز دیکھی جو قرآن میوزیم کے نام سے تھی۔ اس میں بچے قرآن کریم کی خطاطی اور کیلی گرافی کر رہے تھے۔ بتایا گیا کہ یہاں بچوں کو خطاطی سکھائی جاتی ہے اور وہ مل کر ہاتھ سے پورے کا پورا قرآن پاک کمپوز کرتے ہیں۔ ا س سے نہ صرف بچوں کی لکھائی بہت اچھی ہوتی ہے بلکہ ان کا قرآن پاک سے تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ آج سے چونتیس، پینتیس برس پہلے وہ وزیٹر کے طور پر انگلینڈ گئے تھے مگر پھر اللہ رب العزت نے ایسا وسیلہ بنا دیا کہ مجموعی طور پران کی تنظیم بے شمار ملکوں میں کام کر رہی ہے، صرف پاکستان میں ہی مجموعی طور پر ایک سو کے لگ بھگ یا ماڈل اداروں کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔

میں نے کہا، کچھ لوگ مکھیوں کی طرح ہوتے ہیں، گندگی ڈھونڈتے ہیں، گندگی پر ہی بیٹھتے ہیں مگر دوسری طرف پاکستان میں بہت سارے اچھے لوگ بھی موجود ہیں جیسے عبدالستار ایدھی تھے، امجد ثاقب ہیں، الخدمت اور غزالی ٹرسٹ والے ہیں بلکہ یہی کیوں، آپ لاہور کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں چلے جائیں آپ کو علم ہوگا کہ پورے کے پورے ہسپتالوں میں مریضوں کو مفت کھانا فراہم کیا جا رہا ہے اور یہ ہمارے مخیر حضرات ہی کر رہے ہیں۔

بہت سارے ہسپتالوں میں بہت ساری مشینیں ہی نہیں بلکہ بہت سارے وارڈز تک وہ چلا رہے ہیں جیسے لاہور کے جناح ہسپتال میں گوہر اعجاز۔ کچھ عاقبت نااندیش سیاستدانوں اور کچھ کم ہمت پاکستانیوں نے نوجوانوں میں محرومی اور مایوسی پیدا کی ہے مگر میرا کہنا ہے کہ ایمان، کردار، ہمت اور جرأت والے بہت کچھ اچھا کر رہے ہیں جیسے تعلیم کے شعبے میں سید لخت حسنین۔

میرا ماننا ہے کہ کوئی حکومت زندگیوں میں وہ انقلاب نہیں لا سکتی جو اچھی اور بہترین تعلیم لا سکتی ہے۔ اس کے ذریعے نسلوں کی نسلیں بدل جاتی ہیں۔ یہ ایک شاندار دن تھا جو میں نے وہاں گزارا اور مجھے لگا کہ مسلم ہینڈز نے اپنے کالج کے آڈیٹوریم کو جناب عطاء الحق قاسمی سے منسوب کرکے ان کے شہر وزیر آبادد کا قرض ادا کر دیا جہاں وہ چار برس کی عمر میں اپنے عظیم والد کے ساتھ امرتسر سے ہجرت کرکے آئے تھے۔

Check Also

Burai Ko Khud Mein Aur Achai Ko Dusron Mein Talash Karo

By Syed Mehdi Bukhari