جمہوریت تاریک راہوں میں (پہلا حصہ)
گلوبل ولیج میں آج کل جمہوریت اور سیاست پر وبال آیا ہوا ہے، معدودے چند خوش نصیب ممالک کے بیشترغیرجمہوریریاستیں، مطلق العنان حکمرانی، شہنشاہیت اور منتخب حکومتیں سیاسی تبدیلیوں یا بڑے بحران کا شکار ہیں۔ نسل در نسل بادشاہتوں میں پارلیمنٹ کا ظہور ہوا، نئے انتخابات کرائے، تبدیلیوں کی لہر در آئی، سیاسی نظام میں اصلاحات لائی گئیں، خواتین کو ووٹ کا حق ملا، سماجی اور معاشی استقامت اور وقار ونسوانیت کے تحفظ کے قوانین بنے اور جمہوری اداروں کے آئینی دائرہ کار اور عوام کی فلاح وبہبودکے لیے لائحہ عمل کو جمہوریت کی بنیاد قرار دیا گیا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جمہوریت کے مستقبل، اس کے میکنزم، کارکردگی، افادیت، طرز حکمرانی کو بڑے بحران کا سامنا ہے۔
نظریاتی سطح پر جمہوری ڈیبیٹ جاری ہے، سیاسی بحران اور جمہوری اداروں کے موضوع پر بعض معتبر اخبارات نے سیمینار کرائے، چند ماہ قبل ممتاز سیاسی و اقتصادی جریدہ "اکنامسٹ "نے جمہوریت کے انحطاط پر ایک جامع رپورٹ دی تھی۔ پھر ایک بحث شروع ہوئی کہ 2018 میں جمہوریت کا زوال رکنے لگا ہے۔ اس سے پہلے قارئین کویاد ہوگا کہ جاپان نژاد امریکی مفکر فرانسس فوکویاما نے ایک کتاب لکھی۔ جس کا عنوان تھا "تاریخ کا خاتمہ" The End of History۔ اس پر ان ہی سطور میں بات ہوگی۔
مگر گزشتہ دنوں امریکی میڈیا نے جمہوریت کو درپیش سیاسی، نظریاتی، انتظامی اورطرز حکمرانی کے انحطاط کے حوالے سے ایک سلسلہ ہائے مضامین شروع کردیا، اس کی ابتدا "واشنگٹن پوسٹ" اخبار نے کی، اس نے ایک رپورٹ Democracy dies in Darkness چھاپی اور ایک نعرے کے طور پر اس تاثرکو تقویت دی کہ جمہوریت تاریک راہوں میں ماری جارہی ہے، صحافت اور ذرایع ابلاغ سے متعلق ماہرین کے پینلز نے رائے دی کہ انتظامی سطح پر اختیارات کی مرکزیت، عدلیہ کی آزادی پر حملے، سرکاری وسائل کے ذاتی استعمال سمیت متعدد امور جمہوریت کے زوال میں بنیادی اسباب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق بڑا سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا ملبہ کہاں گرا ہے؟ جیسا کہ لاطینی امریکا کے ایک دوست نے کہا کہ " ہم نے مووی دیکھی ہے مگر انگریزی زبان میں نہیں دیکھی"۔ کہا گیا کہ امریکا اب بہت استثنائی ملک بن گیا ہے کسی نے سوچا بھی نہ تھا، اب یہ سوال بھی سامنے ہے کہ یہاں کب ایسا ہوگا؟ جمہوری زوال کو دیکھنا ہے اور تاریخی اور عالمی تناظر میں اسے دیکھنا اور جانچنا بھی ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عالمی جمہوریت کو بدترین سیٹ بیک ہوا ہے۔
اس کی تاریخ 1930کی کساد بازاری سے جڑی ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ امیر ملک عدم مساوات کا خاتمہ اور اطلاعات کے انقلاب کو قابو نہیں کرتے۔ ماہرین کے نزدیک جمہوریت کو اب maintain کرنے کی ضرورت ہے، یہ میڈیا کے رجائیت پسندوں کا انداز فکر ہے، جوعناصر صورتحال سے مایوس ہیں ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت آٰخری ہچکی لے رہی ہے، گیم از اوور۔ جمہوریت کا سنہرا دور غروب آفتاب کے منظر میں ڈھلنے والا ہے، یہیں ایک بار پھر ماہرین نے فوکویاما کو یاد کیا ہے۔
بہر حال اس بحث کی بنیاد عمومی ہے اور امریکی جمہوریت سے خصوصی طور پر منسلک بھی کی گئی ہے، یونیورسٹی آف اسکرینٹن کی پروفیسر ماتی نیا نے مارچ 2019 میں جمہوریت کے زوال پر طویل لیکچر دیا، اس پر سوال جواب کے سیشنز ہوئے، ماتی نیا نے جمہوریت کا اس کے عملی، اظہاری اور عمودی زاویوں اور نظریاتی جھمیلوں اور دباؤ کے سیاق وسباق میں بسیط جائزہ لیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر مارٹن بیرون نے ایک فورم پر کہا کہ جمہوریت کے تاریک راہوں میں مارے جانے کی ترکیب سب سے پہلے واٹر گیٹ اسکینڈل کے مشہور تحقیقاتی رپورٹر باب وڈ وارڈ کے ذہن کی اختراع تھی، لیکن اس نے اس بات کو نعرے کی شکل نہیں دی، البتہ واشنگٹن پوسٹ نے اسے اپنا دلفریب سلوگن بنا لیا، لیکن مارٹن کا کہنا تھا کہ ہم نے حالیہ دنوں میں یہ ترکیب امیزون ڈاٹ کام کے بانی اور واشنگٹن کی نئی انتظامیہ کے روح رواں جیف بیزوز سے سنی۔
مرگ جمہوریت کی نوحہ گری میں شامل ماہرین میں والٹر رسل میڈ، رونالڈ اینکل ہارٹ نے اس ایشو کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور اس موضوع سے نمٹنے کی امید دلائی ہے، جب کہ پاسچا مونک اور رابرٹو فوا جمہوریت کا یاست زدہ منظر نامہ پیش کرتے ہیں، وہ مختلف ملکوں کاجو زائچہ کھینچتے ہیں وہ دردناک ہے، وہ کہتے ہیں کہ سخت گیر ریاستی نظاموں کی معاشی طاقت اجتماعی طور پر جمہوریتوں کو پیچھے دھکیل رہی ہے، اور لگتا ہے صورتحال " تاریخ کا خاتمہ" جیسی ہوگی اور عالم گیر نظریاتی بالادستی جدوجہد پر منتج نہیں ہوگی۔ جب کہ یوین انگ اور ایوان کریسٹو نے تحقیق کی ہے کہ سخت گیر سسٹم کی نمایندہ ریاستوں میں کس طرح اتھاریٹیرین لہر نے سر اٹھایا ہے اور اپنی راہ ہموار کررہی ہے۔
چین اور مشرقی یورپ کو بالترتیب رام کرلیا ہے، ان ماہرین کے مطابق آج جمہوریت کی دشمن سخت گیر طاقتیں کم پر تشدد اور جارحیت پرآمادہ نہیں، اپنے پیشرو فسطائی حکمرانوں کے برعکس، چین نے اپنی آٹوکریسی کی اصلاح کرلی ہے، اس کی معیشت تیزی سے آگے جارہی ہے، عالمی جمہوریتوں کو جو خطرات درپیش ہیں، دسرے لفظوں میں خارجی نہیں داخلی ہیں، یہاں انھیں وقت، وسائل اور مواقع سب میسر ہیں، بس جس چیز کا فقدان ہو وہ سیاسی ارادہ اور قیادت کا خلا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح سابق صدربنجامن فرینکلن 1787کے آئینی کنونشن سے جب باہر نکل آئے تھے تو ایک خاتون نے ان سے پوچھا تھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو کیا ملا؟ ایک جمہوریہ یا بادشاہت؟ تو فرنکلن نے ان کو جواب دیا جمہوریت، اگر اسے محفوظ بھی رکھ سکو۔ لیکن افسوس دو ڈھائی صدی بعد بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔
ادھر امریکا میں کیا ہورہا ہے۔ مواخذہ کا چرخا چل رہا ہے، صدرٹرمپ عہد حاضر کا ہدف ہیں۔ قرون وسطیٰ کے سیاسی جرائم پر بحث چل پڑی ہے، امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مواخذہ کے عمل کو امریکی سیاست میں لوگ سماجی اور مقامی مسئلہ سمجھتے ہیں، مواخذہ میں سیاسی دروغ گوئی، جنسی معاملات اور بد عملی کے قصے سامنے لائے جارہے ہیں، یہی مسئلہ سابق صدربل کلنٹن کو بھی پیش آیاتھا جب وائٹ ہاؤس کی اسٹاف مونیکا لیونسکی نامی خاتون کے ساتھ نازیبا تعلق سے مواخذہ میں سیاسی دروغ گوئی، جنسی معاملات اور بد عملی کے قصے سامنے لائے گئے۔ جہاں دیدہ سابق صدر نکسن نے واٹرگیٹ اسکینڈل میں حکومت سے استعفیٰ دے دیا۔ اسی طرح 1868میں ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز نے صدر اینڈریو جانسن کے خلاف مواخذہ کی گیارہ شقیں پیش کیں، اینڈریو پر الزام تھا کہ انھوں نے ریپبلکن کی قیادت کرنے والی کانگریس اور تعمیر نو کے آئینی مسئلہ کے خلاف اقدام کیا، ٹرمپ کا مواخذہ دوسرا معاملہ ہے۔
تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آیندہ ماہ دسمبر میں ٹرمپ شاید پہلے صدرہونگے جن کے خلاف مواخذہ کی کارروائی ہورہی ہے، ٹرمپ بھی غالباً امریکی سیاسی تاریخ کے پہلے انوکھے اور نرالے صدر واقع ہوئے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ ان پر اس الزام میں کاروررائی ہورہی ہے کہ انھوں نے فارن پالیسی اتھارٹی کو غلط استعمال کیا، ذاتی سیاسی مفادات حاصل کیے، ہاؤس آف انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے شواہد لائے گئے، گواہ پیش ہورہے ہیں، ثابت کیاجارہا ہے کہ ٹرمپ نے کانگریس کی ریلز کی گئی اتھارٹی کو یوکرین کو دی جانے والی امداد سے مشروط کیا، یوکرین کی حکومت کے اس اعلان سے کہ وہ ٹرمپ کے سیاسی حریف نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف انکوائری کنڈکٹ کریگا اوراس بے بنیادالزام پر بھی کہ یوکرین (روس نہیں ) نے 2016 کے امریکی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔
عام تاثر یہی ہے کہ امریکی جمہوریت ہو یا دنیا بھر کی دیگر جمہوریتیں، سب کا حال برا ہے، ایک زمانہ تھاجب ہالی وڈ کی ایک مشہور فلم "سارے صدرکے آدمیAll the President’s men " ریلیز ہوئی تو پاکستان کے سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، یہ فلم واٹرگیٹ اسکینڈل کے پس منظر میں بنائی گئی، جس میں اداکار ڈسٹن ہوفمین کارل برنسٹائن اور رابرٹ ریڈ فورڈ باب وڈ وارڈ کے مرکزی صحافتی کردار بنے تھے، زبردست فلم تھی، ناظرین کو شاید برطانوی ٹیلیویژن کی دلچسپ اور مقبول سیریل "یس منسٹر"Yes Minister بھی یاد آجائے۔ پاکستان میں فلم "انسان اور گدھا" بن چکی ہے۔
یہ ہماری سیاست کی خوبصورت پیروڈی کہی جاسکتی تھی، یہ فلمیں جمہوری طرز حکومت کی جعل سازیوں، سازشوں اور عوام سے مذاق کی بہت زبردست چمچہ گیری کی ترجمان شمار کی جاتی ہیں۔ آج جمہوری رواداری، مروت، وضع داری، حس مزاح، ظرافت اور شائستگی کا قحط ہے۔ مسکان نام کی چیز غائب چہروں پر کرختگی ہے، یا پھر دمادم مست قلندر ہے۔ حکمرانی عیاری کا درجہ پاگئی ہے، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ چلیے آیندہ تاریخ کاخاتمہ نامی کتاب کے گزشتہ برپا کیے گئے طوفان کی پیالی میں جھانکتے ہیں کہ فوکویاما نے کیا کہا تھا اور دنیا کے جمہوریت پسندوں اور مورخین نے کیا سنا تھا۔
(جاری ہے)