عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کو کوئی خطرہ نہیں
سردار عثمان بزدار کو نیب نے بلایا ہے۔ ان کے وہ دوست جو انھیں گزشتہ دو سال سے وزارت اعلیٰ سے ہٹوانے کی کوشش کر رہے ہیں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ ان میں تحریک انصاف کے دوستوں کی تعداد اپوزیشن سے زیادہ ہے۔ عثما ن بزدار کے نیب سے بلاوے کو ایسے سمجھ رہے ہیں جیسے ان کی لاٹری نکل آئی ہے۔
یہ دوست ویسے تو ہر وقت عثمان بزدار کو ہٹانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی ہمت اور حوصلے کو بھی داد دینی پڑتی ہے۔ ایک سازش ناکام ہوتی ہے تو دوسری شروع کر دیتے ہیں۔ ایک ناکامی ملتی ہے تو دوسری طرف سے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان دوستوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔
سردار عثمان بزدار کولاہور کے ایک ہوٹل کو شراب کا لائسنس جاری کرنے کے معاملہ میں نیب کا دعوت نامہ کوئی ایسی خطرناک بات نہیں ہے۔ ذمے دار ذرایع کے مطابق اس معاملے میں سردار عثما ن بزدار کا دامن اور ہاتھ صاف ہیں۔ انھوں نے کوئی کام بھی غلط نہیں کیا۔ بلکہ سونے پر سہاگا، اس معاملہ میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا جس معاملے میں لاہور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آچکا ہو وہاں اب عثمان بزدر کے لیے خطرے والی کوئی بات ہے۔ لیکن پھر بھی نیب نے بلایا ہے، اس لیے عثما ن بزدار جائیں گے۔ تمام ریکارڈ نیب کو دیں گے۔ حالانکہ یہ کام کوئی افسر بھی کر سکتا ہے۔ تا ہم چونکہ نیب نے بلا لیا ہے اور تحریک انصاف نیب کے ساتھ وہ سلوک نہیں کرنا چاہتی جو اپوزیشن نیب کے ساتھ کر رہی ہے۔ اس لیے عثمان بزدار نے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوستوں نے عثما ن بزدار کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اس معاملے میں تفصیلی پریس کانفرنس کر دیں۔ تمام ریکارڈ میڈیا کو جاری کر دیں کیونکہ ان کو بلانے کی خبر ہیڈ لائنز میں چل رہی تھی۔ تا ہم عثمان بزدار نے ایسا نہیں کیا ہے۔ وہ نیب سے محاذ آرائی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے نوٹس پر خاموشی رکھی ہے۔ بس اتنا ہی کہا ہے کہ وہ پیش ہوں گے۔ وہ اس سے پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے ہیں، اب نیب کے بلانے پر بھی جائیں گے۔
عثمان بزدار کے وہ دوست جو انھیں دو سال سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ شاید یہ بات بھول رہے ہیں کہ نیب سے نوٹس ملنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان لاہور آئے ہیں۔ انھوں نے اس معاملے پر تفصیلی بریفنگ لی ہے۔ جب انھیں تمام ریکارڈ دکھایا گیا اور بتایا گیا ہے کہ اس معاملے میں پنجاب حکومت اور عثمان بزدار کا دامن صاف ہے تو وزیر اعظم بھی مطمئن ہو گئے ہیں۔
اس لیے انھوں نے عثما ن بزدار کو بے خوف ہو کر نیب میں پیش ہونے کے لیے کہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ نیب نے عثمان بزدار کو بلایا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اس بلانے پر بہت سی سازشی تھیوریاں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ ایک رائے یہ بھی بن رہی ہے کہ کچھ طاقتور حلقے بھی عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ ادھر مارکیٹ میں وزارت اعلیٰ کے کچھ امیدوار بھی پھر رہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جب آپ طاقتور حلقوں کے امیدوار ہیں تو رکاوٹ کیا ہے۔
تو وہ کہتے ہیں خان صاحب نہیں مان رہے، وہ عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے معاملہ رکا ہوا ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لیے فرض کرتے ہوئے اس سازشی تھیوری کو مان لیا جائے کہ ان نادان دوستوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر عمران خان دباؤ کے باوجود عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر نیب کے نوٹس پر انھیں ہٹانے کے لیے کیسے تیار ہو جائیں گے۔ پتہ نہیں کیوں یہ نادان دوست ایک تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نیب کی جانب سے عثمان بزدار کو نوٹس دراصل عمران خان کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے کہ وہ عثمان بزدار کو ہٹانے پر تیار ہو جائیں۔ حالانکہ میں ایسی سازشی تھیوریوں پر یقین نہیں رکھتا۔ لیکن سیاست میں تاثر حقیقت سے بھی مضبوط ہوتا ہے۔ اور جو لوگ یہ تاثر پھیلا رہے ہیں وہ کسی کے دوست نہیں ہیں۔
پاکستان میں نیب کے خلاف اس وقت ایک ماحول بنایا جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے قطع نظر افسر شاہی اور کاروباری حلقوں کے خلاف اتحاد نے نظام حکومت کو مفلوج کر دیا ہے۔ افسر شاہی کو کوئی بھی کام کرنے کے لیے کہا جائے تو وہ بر ملا کہتے ہیں کہ ہم نے نیب میں نہیں جانا۔ کاروباری اور سرمایہ دار بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس ضمن میں افسر شاہی اور کاروباری افراد کا اعتماد بحال کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے تا ہم ابھی تک اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو بھی کہیں نہ کہیں ایسے اقدامات اٹھانا ہوں گے جن سے اس خوف کی نفی ہو سکے۔
اس وقت اعلیٰ عدلیہ سے بھی ایسے فیصلے آرہے ہیں جو نیب کی عمومی ساکھ کے لیے اچھے ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ ان فیصلوں سے اس بیانیہ کی توثیق ہو رہی ہے کہ نیب ٹھیک کام نہیں کر رہا ہے۔ اس لیے اس وقت نیب کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ویسے تو نیب کو ہر وقت اور ہر مقدمہ کی تفتیش کے دوران ہر ممکن احتیاط کرنی چاہیے۔ تا ہم عثمان بزدار تحریک انصاف کے پہلے حکومتی عہدیدار نہیں ہیں جنھیں نیب نے بلایا ہے۔ اس سے پہلے بھی حکومتی عہدیداروں کو بلایا گیا ہے اور گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ وہ بعد از رہائی پر دوبارہ وزیر بھی بنے ہیں۔ اس لیے عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ویسے تو ابھی تک جو خبریں آئی ہیں اس میں ان کی گرفتاری کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ معاملہ ابھی ابتدائی شکایت کی سطح پر ہے ابھی تواس معاملہ میں انکوائری کی منظوری بھی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن شنید یہی ہے کہ جب عثمان بزدار سارا ریکارڈ نیب کے سامنے رکھیں گے تو معاملہ ختم ہو جائے گا۔ اس میں آگے چلنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ تا ہم اس دعوت نامہ سے پنجاب کی افسر شاہی کے اعتماد کو ایک مرتبہ پھر ٹھیس پہنچی ہے۔
جس سے حکومت کی ڈیلیو ری اور گورننس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ حکمرانوں کا احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونا اچھی بات ہے لیکن احتساب کے اداروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسا نہیں کرنا کہ ملک میں حکمرانی ناممکن ہو جائے۔ میڈیا ٹرائل کا پہلو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ تحقیقات کو تب تک راز ہونا چاہیے جب تک وہ مکمل نہ ہو جائیں۔ بات عثمان بزدار کی نہیں بلکہ پاکستان کے نظام حکومت کی ہے۔