سراج الحق کی لانگ مارچ پر سوچ کیا ہے؟
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اس وقت ایک بڑی لڑائی کی پیشن گوئی کر رہا ہے۔ ابھی تو لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم استعفے نہیں دے گی لیکن اگر لانگ مارچ کامیاب ہو گیا تو منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ یہ کامیابی کھیل کو استعفوں کی طرف لے جائے گی۔
اس تناظر میں جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے؟ کیا وہ بھی آخری موقع پر عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے ساتھ شامل ہو جائے گی؟ یا عمران خان کی حکومت بچانے کے لیے میدان میں آجائے گی؟ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے اس ممکنہ منظر نامہ پر ان کی کیا سوچ ہے، یہ جاننے کے لیے میں کافی دنوں سے ان سے ملاقات کا طلب گار تھا جو بہر حال ہو گئی۔
میں نے پوچھا کہ اگر پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا اور واقعی اس میں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوئی اور یہ لانگ مارچ حکومت کو گھر بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہوا، توآپ کہاں کھڑے ہوں گے۔ سراج الحق نے میری طرف دیکھا اور خاموش ہو گئے۔ کافی دیر بعد بولے، ہم نے ماضی سے بہت سبق سیکھا ہے۔
جماعت اسلامی کسی بھی غیر آئینی طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنے کی حمایت نہیں کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک غلط روایت ہوگی۔ یہ پاکستان اور آئین پاکستان کی سربلندی کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔ میں نے کہا، پھر تو آپ حکومت کی آئینی مدت پورے کرنے کے حامی ہیں۔ وہ کہنے لگے، میں حکومت کو غیر آئینی طریقے سے گھر بھیجنے کے خلاف ہوں۔ اگر کسی آئینی طریقے سے گھر جائے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ ہم وزیر اعظم کواٹھا کر گھر بھیجنے کے خلاف ہیں۔
میں نے کہا، پھر آپ تو لانگ مارچ کے خلاف ہوئے۔ حالانکہ جماعت اسلامی خود بھی ماضی میں لانگ مارچ کرتی رہی ہے۔ اب بھی آپ نے 5فروری کو ملین مارچ کا اعلان کیا ہوا۔ سوال یہ بھی ہے کہ آپ جلسے، جلوس اور ریلیاں کیوں کر رہے ہیں؟ آرام سے گھر بیٹھیں، جب انتخاب کا وقت آئے گا تو حصہ لیجیے گا۔ سراج الحق مسکرائے اور کہنے لگے کہ لانگ مارچ کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ یہ ایک جمہوری عمل ہے۔ ہم لانگ ما رچ کے حق میں ہیں لیکن اسلام آباد مارچ کر کے حکومت کو گھر بھیجنے کے خلاف ہیں۔ تا ہم لانگ مارچ، شارٹ مارچ سب جمہوریت کا حصہ ہیں۔
ویسے بھی عمران خان کاد عویٰ ہے کہ جب یہ پی ڈی ایم والے اسلام آباد مارچ یا دھرنے کے لیے آئیں گے تو وہ انھیں کنٹینر دیں گے، چائے پلائیں گے، کھانا دیں گے، کر سیاں دیں گے۔ ہم اس موقع پر عمران خان کو ان کا وعدہ دلائیں گے اور مطالبہ کریں گے کہ ان کو کنٹینر بھی دیا جائے۔ کر سیاں بھی دی جائیں۔
کھانا دیا جائے۔ چائے دی جائے۔ کوئی رکاوٹ نہ کھڑی جائے۔ یہ بات ہم نے تب بھی کی تھی جب عمران خان اسلام آباد کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ ہم نے نواز شریف سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ رکاوٹیں ختم کریں۔ لیکن ہم عمران خان کی جانب سے اس لانگ مارچ کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت ختم کرنے کے خلاف تھے۔ ہم آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔ حکومت نواز شریف کی ہو یا عمران خان کی۔ ہمارے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
سراج الحق نے مزیدکہا کہ لیکن عمران خان نے تو کہا تھا کہ اگر ایک ہزار لوگ بھی اکٹھے ہو کران اسے استعفیٰ کا مطالبہ کریں گے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ آپ ہمارا گوجرانولہ، سوات باجوڑ اور دیگر جلسوں کی فوٹیج دیکھ لیں۔ ایک ہزار نہیں کئی ہزار لاکھوں لوگ عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن عمران خان کو اپنا وعدہ یاد نہیں۔ اگر وہ رضاکارانہ استعفیٰ دیں تو یہ ایک آئینی قدم ہے۔ اسی لیے ہم ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ آئینی بات ہے۔
میں نے کہا، آپ سولو فلائٹ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے اتحاد میں شامل ہو جائیں یا حکومت کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ یہ کیاہے کہ آپ نہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں نہ حکومت کے ساتھ ہیں۔ سراج الحق مسکرائے اور کہنے لگے، جماعت اسلامی نے اتحادوں کی سیاست بہت کی ہے۔ لیکن اتحادوں کی سیاست نے ہمارے نظریہ، سوچ اور ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا کوئی خا ص فائدہ نہیں رہا ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی اب اپنے جھنڈے اپنے نشان اور اپنے پلیٹ فارم سے سیاست کرے گی۔ اس لیے ہم لوگوں کے پاس اپنا پیغام لے کر جا رہے ہیں۔ لوگ ہماری بات سن رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو مزید کنفیوژ نہیں کرنا چاہتے۔ جب ہم دیگر جماعتوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو ہمارا ووٹر کنفیوژ ہوتا ہے۔
میں نے کہا، جماعت اسلامی کا ووٹ بینک کم ہوتا جا رہا ہے۔ سیٹیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔ پارلیمانی طاقت کم ہوتی جا رہی ہے۔ کیا جماعت اسلامی کو اس کا حساس ہے۔ سراج الحق کہنے لگے نہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔ گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کا راستہ روکا گیا۔ جو سیٹیں جیتی جا رہی تھیں وہ بھی ہروا دی گئیں۔ آپ سب تو جانتے ہیں کہ کیسے انتخاب ہو ئے ہیں۔
ہم بھی اسی کا شکار ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ پھر پی ڈی ایم کا ساتھ کیوں نہیں دے رہے جو اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ کہنے لگے، وہ دھاندلی کے لیے نہیں اپنی باری کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ہم نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ چہرے بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم شفاف انتخاب کی بات کرتے ہیں۔ وہ اپنے جیتنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ فرق سمجھیں۔ کھیل سمجھ آجائے گا۔ ماضی میں وہ بھی اسی دھاندلی سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ اب خلاف ہیں کیونکہ خود اس کا شکار ہو گئے۔
میں نے کہا، پھر سمجھ نہیں آیا کہ اگر حکومت گھر نہیں بھیجنی تو پی ڈی ایم کے مقابلے میں بڑے بڑے جلسہ اور ریلیاں کیوں کی جا رہی ہیں؟ کہنے لگے، لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ عوامی رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ عوام کی آواز حکمرانوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں۔ ان کی آواز بھی تو اٹھانی ہے۔ یہی سیاست ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔
میں نے کہا 5 فروری کے لانگ مارچ کی کیا کہانی ہے۔ کہاں سے کہاں تک ہے یہ لانگ مارچ۔ کہنے لگے، یہ تو ابھی سرپرائز ہے۔ اسلام آباد سے پنڈی ہوگا یا پنڈی سے اسلام آباد ہو گا۔ میں نے کہا، آج کل پنڈی کا بہت ذکر ہے۔ پی ڈی ایم نے بھی مارچ کا عندیہ دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہمارے اور ان میں فرق ہے۔ لیکن کشمیر پر اس حکومت نے بہت کوتاہی دکھائی ہے۔
موجودہ حکومت کے دور میں کشمیریوں پر بھارت کے مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہمیں اس پر بہت تشویش ہے۔ عوام بھی حکومت کی کشمیر پالیسی پر مطمئن نہیں ہیں۔ ہمیں لوگوں کے عوامی جذبات کی ترجمانی کرنی ہے۔
سراج الحق کی سوچ ملک میں جاری منظر نامہ پر بہت مختلف ہے۔ وہ پی ڈی ایم سے بھی کوئی پر امید نہیں ہیں۔ اور نہ ہی انھیں حکومت سے کوئی امید ہے۔ اسی لیے وہ نہ حکومت کا حصہ بننے کو تیار ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کا۔ لیکن لوگوں کو جماعت اسلامی کے ساتھ جوڑنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی لیے ماضی میں اتحادوں کی سیاست کی جاتی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی میں سوچ بدلی ہے۔ لیکن شائد سراج الحق سب کچھ بدلنے جا رہے ہیں۔ وقت لگے گا۔ راستہ مشکل ہے۔ لیکن شائد جماعت اسلامی کے لیے یہی بہتر ہے۔