شہباز شریف کی سیاست کا مستقبل
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف پابند سلاسل ہیں۔ ان پر نیب کے کئی ریفرنس دائر ہو چکے ہیں۔ وہ ان ریفرنسز میں پیش بھی ہو رہے ہیں۔ بہرحال شہباز شریف عجیب مزاج کے مالک ہیں۔ لندن پہنچ گئے تھے، آرام سے بیٹھے تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ وطن واپس آگئے حالانکہ قریبی رفقا نے منع بھی کیا کہ واپس جائیں گے تو گرفتار ہو جائیں گے لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی اور کورونا کے شروع میں وطن واپس آگئے اور پھر حسب توقع گرفتار کرلیے گئے۔ آجکل جیل میں ہیں۔ حکومت ان کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں کر رہی ہے۔ بلکہ انھوں نے اب مسلم لیگ (ن) کو منع کر دیا ہے کہ ان کے پروڈکشن آرڈر کی بات نہ کی جائے۔
ان کے سیاسی مستقبل پر روزانہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔ اب ان کا ملکی سیاست کوئی چانس نہیں ہے۔ اسی ماحول میں ایک پیش رفت ہوئی۔ چین کے قونصل جنرل نے اپنی مدت ختم ہونے پر جاتے ہوئے شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے حالانکہ اس خط لکھنے کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں۔ اگرہم چین کی سفارتکاری کو دیکھیں تو اس میں اس طرح کا کام کم ہی دیکھا گیا ہے۔ چین خاموش سفارتکاری پر یقین رکھتا ہے، وہ کھل کر بات نہیں کرتا۔
چین کے قونصل جنرل نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ شہباز شریف چین اور چینی عوام کے پرانے دوست ہیں۔ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب آپ نے پنجاب میں سی پیک کے منصوبے جس طرح مکمل کیے وہ قابل دید ہیں۔ آپ کی پنجاب اسپیڈ سے سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل نے چین اور پاکستان کے باہمی تعلقات نہ صرف مزید مضبوط کیے بلکہ ان کو نئی منزل بھی دی۔
شہباز شریف نے اس خط کو نیب عدالت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن محترم جج صاحب نے یہ کہہ کر اس خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکا رکر دیا کہ اس کا مقدمہ سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس خط کا مقدمے سے واقعی کوئی تعلق نہیں لیکن پاکستان سے تعلق ضرور ہے۔ سیاست کا طالب علم اس پیش رفت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چین شہباز شریف کی کارکردگی اور سی پیک میں ان کے کردار کو کس طرح دیکھتا ہے۔
اس سے پہلے بھی جب شہباز شریف کورونا کا شکار ہوئے تھے تو تب بھی انھیں چین سے علاج کرانے کی دعوت دی گئی تھی۔ لیکن شہباز شریف نے شکریے کے ساتھ دعوت قبول نہیں کی تھی حالانکہ اس وقت ان کی ضمانت بھی قبول نہیں ہوئی تھی اور سفارتی سطح پر دعوت کے بعد جاناآسان تھا۔ پہلی گرفتاری سے رہائی کے بعد چینی سفارتخانے نے شہباز شریف کو سفارتخانے میں دعوت پر بھی بلایا۔
ایک سوال اہم ہے کہ ایک طرف شہباز شریف پر ریفرنس پر ریفرنس بنائے جا رہے ہیں۔ حکومتی ذمے داران روزانہ ان کی کرپشن اور بدعنوانی پر پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ دوسری طرف چین ان کو تعریفی خط لکھتا ہے۔ یہ اہم بات ہے۔ چین تو کرپشن کو بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے، وہاں تو اگر کوئی وزیر یا سرکاری اہلکار کرپشن کرتا پکڑا جائے تو اسے سزائے موت تک دے دی جاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اکثر چین میں ایسی سخت سزاؤں کا حوالہ دیتے ہیں اور خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسی سزائیں ہونی چاہیے۔ ایسے ماحول میں چینی قونصل جنرل کا خط کیا کہہ رہا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس خط کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جاتا بلکہ حکومت سے خط پر موقف جانا جاتا۔ اگر حکومت سمجھتی کہ شہباز شریف نے سی پیک کے لیے کوئی کام نہیں کیا تو اسے یہ بات چین کی حکومت کو بھی سمجھانی چاہیے۔ اگر حکومت کا یہ بیانیہ ہے کہ شہباز شریف نے سی پیک کے منصوبوں میں کوئی کرپشن کی ہے تو اسے اس ضمن میں بھی چین کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ چین کو کرپشن کے تمام ثبوت دینے چاہیے تا کہ حکومت کی شہباز شریف سے جلد جان چھوٹ سکے۔
لیکن اگر شہباز شریف کو قانونی طور پر کرپٹ ثابت کرنا مشکل ہو گا تو پھر یہ پاکستان کے نظام احتساب کی خامی یا ناکامی ہے۔ اس سے احتساب کی تحریک کو زبردست جھٹکا لگ رہا ہے۔ ایک طرف نیب پورے پاکستان کے کاروباری افراد کو یقین دلا رہا ہے کہ نیب ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ دوسری طرف شہباز شریف کے کاروباری خاندان کے خلاف کیسز بنائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف پورے ملک کے کاروباری افراد کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ ان کی ٹی ٹی کو بھی نہیں پکڑ اجائے گا۔ سارے پاکستان کے کاروباری افراد کی ٹی ٹی معاف ہیں لیکن شہباز شریف کے خاندان کی ٹی ٹی جرم ہیں۔ اس سے پہلے پاناما میں صرف ایک کو نشانہ بنایا گیا ہے اور عوام کی عدالت میں اس احتساب پر آج بھی سوال موجود ہیں۔
حکومت کہتی ہے کہ معاشرے میں کرپشن اتنی رچ بس گئی ہے کہ کہ لوگ اب کرپشن کو کرپشن نہیں سمجھتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ یک طرفہ اورٹارگٹڈ احتساب کو احتساب نہیں سمجھتے۔ لوگ احتساب اور انتقام میں فرق سمجھتے ہیں۔
آج پاکستان کو عالمی محاذ پر جن چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان میں چین کی بہت کلیدی اہمیت ہے۔ چین پاکستان کے ساتھ ہر مشکل وقت میں کھڑا رہا ہے۔ چین پاکستان کا دوست ہے اور چین کو پاکستان کا مفاد عزیز ہے۔ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک روایتی خط ہے۔ اس کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے۔
لیکن میں اس کو ایسے نہیں دیکھتا۔ شائد پاکستان میں اس وقت ایسا ماحول نہیں کہ اس خط پر بات کی جا سکے۔ شائد حکومت اس خط سے منہ موڑنے کی کوشش کرے گی۔ کوشش ہو گی کہ اس کا ذکر ہی نہ ہو۔ لیکن شائد یہ درست حکمت عملی نہ ہو۔ یہ خط ایک پیغام ہے جو جتنی جلدی سمجھ آجائے اتنا ہی اچھا ہے۔ فی الحال شہباز شریف کو سیاسی طور پر ختم کرنے کاماحول ہے اور حکومت کی نظر میں شاید ان کی سیاست کو بچانے کی کوشش بھی ملک دشمنی ہی سمجھی جائے۔