پاکستان میں سولر انقلاب اور حکومت پنجاب کی پالیسی
ملک میں بجلی کی قیمت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم اس سے پہلے اعلان کر چکے تھے کہ بجلی کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ اب ان میں مزید اضافہ نہیں کیا جائے گا لیکن سچائی یہی ہے کہ حکومت بھی آئی ایم ایف کے سامنے مجبور ہے۔
گردشی قرضے کا معاملہ بھی دن بدن حکومت کے کنٹرول سے باہرہو رہا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور آہستہ آہستہ بجلی مڈل کلاس اور غریب کی پہنچ سے باہر ہو جائے گی۔ مڈل کلاسیوں کو بجلی کے بغیر زندگی گزارنے کے طریقوں پر ابھی سے غور کرنا شروع کر دینا چاہیے۔
اس ضمن میں حکومت کا موقف ہے کہ جب بجلی مہنگی بن رہی ہے، تو صارفین کو سستی کیسے دی جا سکتی ہے۔ اب پاکستان کی معیشت میں بھی اتنی جان نہیں ہے کہ سبسڈی دے سکے۔ سبسڈی والے زمانے گئے۔ حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ گزشتہ حکومت بجلی کے مہنگے معاہدے کر گئی ہے۔ ان معاہدوں کی پاسداری کی وجہ سے حکومت عوام کو مہنگی بجلی دینے پر مجبور ہے۔
حالانکہ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت بجلی کے معاملے کو درست انداز میں حل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں رہی ہے۔ بجلی چوری اور لائن لاسز کے معاملے پر حکومت کی کارکردگی دعوؤں کے برعکس ہی رہی ہے حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت سے اس ضمن میں بہت بہترین کارکردگی کی توقع تھی۔
بہر حال اس صورتحال میں عوام کواب کیا کر نا چاہیے۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے صوبے کے پسماندہ ضلع لیہ میں 100میگاواٹ سولر سے بجلی بنانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ سو میگا واٹ سولر پاور کا یہ منصوبہ رواں سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سستا ترین منصوبہ ہے۔ 100میگا واٹ سولر کا یہ منصوبہ ساڑھے پانچ روپے فی یونٹ پر لگایا جا ئے گا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ حکومت کے دور میں سولر کا ایسا ہی منصوبہ پنجاب میں 25روپے فی یونٹ لگایا گیا۔ حکومت پنجاب کا موقف ہے کہ یہ منصوبہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لیے ترقی کی نوید لائے گا۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو سستی بجلی مل سکے گی۔ اس منصوبہ سے تقریبا پچاس ہزار لوگوں کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں گے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا منصوبہ ہے۔ اﷲ نے پاکستان کو سورج کی لازوال نعمت سے مالامال کیا ہے۔ سارے پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں سارا سال سورج چکمتا رہتا ہے۔ سندھ میں بھی سارا سال سورج کی روشنی موجود رہتی ہے۔ اس لیے پنجاب اور سندھ میں سولر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے باآسانی لگ سکتے ہیں۔ سولر سے بجلی بنانے کے منصوبوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں ایک دفعہ لاگت تو آتی ہے لیکن بعد میں فیول کی کوئی لاگت نہیں ہوتی ہے۔ آج بجلی کی قیمت میں اضافہ فیول کی لاگت کی وجہ سے ہی ہے۔
اس لیے ہم جس قدر سولر بجلی بنانے لگیں گے کم از کم فیول سے تو جان چھوٹے گی۔ جس طرح حکو مت پنجاب نے لیہ میں 100میگاواٹ کا سولر بجلی کا منصوبہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کے منصوبے پنجاب کے تمام اضلاع اور تحصیلوں میں لگ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سائیں بزدار کو پنجاب کے تمام اضلاع میں اس حکمت عملی پر کام شروع کرنا چاہیے۔ اس طرح پنجاب بجلی میں خود کفیل ہو جائے گا بلکہ سستی بجلی بھی بنانے لگے گا۔ روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ مہنگی بجلی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ اس سے ملک میں مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے کیونکہ صنعتوں اور زرعی شعبے میں پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ بجلی سستی ہو توکاروباری سرگرمیاں بڑھیں جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
سردار عثمان بزدار کو چاہیے کہ فوری طور پر پنجاب بھر میں سولر بجلی کے منصوبے شروع کریں۔ پنجاب حکومت کو ایک ایسی اسکیم شروع کرنی چاہیے جہاں تمام صاحب استطاعت افراد کو اپنے اپنے گھروں اور کاروباری منصوبوں پر سولر لگانے کی ترغیب دی جائے۔ حکومت پاکستان نے نیٹ میٹرنگ کی ایک اسکیم شروع کی ہوئی ہے۔ جس کے تحت گھریلو صارفین کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ اگر وہ اپنے گھروں پر سولر لگائیں اور اس سے زیادہ بجلی بنے تو وہ وہ بجلی حکومت کو بیچ سکتے ہیں۔
اس طرح زائد بجلی حکومت خرید لیتی ہے۔ عوام کو شعور دینے کی ضرورت ہے کہ زیادہ سے زیادہ سولر اپنے گھروں اور کاروباری منصوبوں پر لگائیں۔ بالخصوس دیہی علاقوں میں سولر بہت کامیاب ہو سکتا ہے۔ زرعی ٹیوب ویل سولر سے چلانے کا منصوبہ پہلے ہی موجود ہے۔ لیکن اس پر کام بہت سست ہے۔
ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پنجاب کا ہرزرعی ٹیوب ویل سولر پر لگ جائے۔ حکومت پنجاب کو کسانوں کو زرعی ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل کرنے کے لیے آسان قرضے بھی دینے چاہیے۔ لیہ کے بعد دیگر اضلاع میں سو سو میگاوٹ کے سولر بجلی کے منصوبے لگائے جائیں گے تودیگر صوبے بھی اس جانب قدم بڑھائیں گے۔ یوں ملک بھرمیں سولر کا ایک ماحول بن جائے گا۔
آخری بات یہ کہ پاکستان میں سولر کی ناقص پلیٹس کی درآمد بھی ایک مسئلہ رہا ہے۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر ایسے قواعد بنائے کہ صرف عالمی معیار کی ہی سولرپلیٹس درآمد ہو سکیں۔ اس ضمن میں سخت کوالٹی کنٹرول ہونا چاہیے۔ سولر کی تنصیب میں تمام فراڈ ختم کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے باقاعدہ لائسنس جاری ہونے چاہئیں تا کہ غلط سولر لگانے پر سزائیں بھی دی جا سکیں۔