معرکہ ملتان کون جیتا۔ کون ہارا
پی ڈی ایم کا ملتان کا جلسہ ہو ہی گیا لیکن یہ مقررہ مقام قاسم باغ میں نہیں ہو سکا ہے۔ دوسری طرف حکومت تمام تر کوششوں کے باوجود جلسے کو روک نہ سکی۔ گویادونوں فریق جیت گئے ہیں اور دونوں ہی ہار بھی گئے ہیں۔ اگر حکومت کی بات کی جائے توحکومت ایک طرف تو کورونا کے بعد جلسوں پر پابندی نافذ کرنے میں ناکام ہو ئی ہے۔
اگر حکومت کا یہی موقف تھا کہ کورونا کی دوسری لہر کے بعد ملک میں ہر قسم کے جلسے جلوسوں پر پابندی ہے، اس لیے پی ڈیم ایم کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تو حکومت اس پابندی کو نافذ کرنے میں نا کام ہوئی ہے۔ اگر حکومت کا یہ ہدف تھا کہ پی ڈی ایم کو بڑا جلسہ نہ کرنے دیا جائے تو اس میں حکومت کامیاب ہو ئی ہے۔ بہر حال جہاں پی ڈی ایم جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہے کہ جلسے میں کوئی بہت بڑی تعداد میں لوگ آئے ہیں۔ گھنٹہ گھر میں محدود لوگوں کے آنے کی جگہ تھی اور وہ بھر گیا تھا۔ لیکن اگر یہی تعداد قاسم باغ میں ہوتی تو بہت کم دکھائی دیتی۔
اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس تناظر میں حکومت کا میاب ہوئی ہے۔ حکومت پی ڈی ایم کی دوسرے درجے کی قیادت کو اگر ڈرانا چاہ رہی تھی تو اس میں بھی کچھ کامیابی او ر کچھ ناکامی ہوئی ہے۔ دوسرے تیسرے درجے کے رہنماؤں کی گرفتاری کا تو حکومت کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سب کی ضمانت ہو رہی ہیں۔ لیکن کارکنوں کی گرفتاریوں کا فائد ہ بھی ہو رہا ہے۔
وہ بد ظن ہو کر گھر بیٹھ سکتے ہیں دوسری طرف پی ڈی ایم کو ملتان میں فائدہ بھی ہوا ہے اور نقصان بھی ہوا ہے۔ ایک طرف جلسہ کرنے کی کامیابی ہے، دوسری طرف حکومت سے محدود تصادم میں پی ڈی ایم کا کافی سیاسی زور لگ گیا ہے۔ ان کا کارکن اس معرکے کے نتیجے میں تھک گیا ہو گا۔ ان سیاسی کارکن کے لیے یہ گرفتاریاں اور تھانے کچہری نئے ہیں۔ بالخصوص پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکن کو تو اب اس کی مکمل عادت نہیں رہی ہے۔ لیکن یوسف رضا گیلانی نے دوبارہ پیپلزپارٹی کے کارکن کے اندر مزاحمت زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس میں انھیں کامیابی ہوئی ہے۔ لیکن اس کو مکمل کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔ ملتان کا معرکہ اگر پی ڈی ایم نے جیتا ہے تو اس کی کافی قیمت بھی ادا کی گئی ہے۔
پی ڈی ایم قاسم باغ میں کوئی بڑا تاریخی شو نہیں کر سکی ہے۔ پی ڈی ایم کو ایک بڑے سیاسی شو کی ضرورت ہے۔ بالخصوص جب پشاور کے جلسہ کے بعد حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ لوگ کم تھے ملتان میں لوگوں کو ایک بڑی تعداد میں جمع کرنا پی ڈی ایم کی ضرورت تھی۔ جس کو ایک طرح کا عوامی ریفرنڈم کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ضرورت پوری نہیں ہوئی ہے۔ اور اب اس کے لیے 13 دسمبر کا لاہور کا جلسہ پی ڈی ایم کے پاس آخری آپشن رہ گیا ہے۔
حکومت اس حد تک تو کامیاب رہی ہے کہ اس نے تصادم بھی نہیں کیا ہے۔ تین دن پی ڈی ایم کو خوب کھلایا اور آخری دن پیچھے ہٹ گئی۔ اس کو ایک سیاسی حکمت عملی بھی کہا جا سکتا ہے۔ آخری دن بڑے تصادم کا خطرہ تھا۔ اس لیے حکومت پیچھے ہٹ گئی۔ پہلے تین دن پی ڈی ایم تصادم سے بچنے کی کوشش کرتی رہی کہ اگر تصادم کرنا بھی ہے تو آخری دن کریں گے۔ حکومت اور پی ڈی ایم اور بالخصوص گیلانی خاندان آپس میں آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ پہلے پی ڈی ایم نے قاسم باغ پر قبضہ کر لیا۔ پھر رات کے اندھیرے میں حکومت نے قاسم باغ کا قبضہ چھڑا لیا۔
کوئی بڑا تصادم نہ ہوا۔ آسانی سے قبضہ کرنے دیا گیا۔ بعد میں جب حکومت نے قبضہ چھڑایا تو بھی کوئی بڑا تصادم نہیں ہوا۔ قاسم گیلانی گرفتار ہوئے۔ چند کارکن گرفتار ہوئے۔ لیکن ایسا نہیں کہ قبضہ کے بعد قاسم باغ میں کوئی ہزاروں کارکن موجود تھے اور حکومت کو قبضہ چھڑانے کے لیے ایسا کوئی تصادم کرنا پڑا۔ چند کارکن کی گرفتاری۔ ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں میچ فکس تھے۔ پہلے قبضہ کرنے کا میچ اور بعد میں قبضہ چھڑانے کا میچ فکس تھا۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو باری لینے کا بھر پور موقع دے رہے تھے۔ تصادم سے دونوں طرف بچنے کی کوشش نظر آئی۔
پی ڈی ایم آخری دن کے انتظار میں تھی۔ حکومت بھی آخری دن کے انتظار میں تھی۔ حکومت نے ملتان میں یہ شو کر کے دراصل لاہور کے گیم تیار کی ہے۔ حکومت نے ن لیگ کو باور کرایا ہے کہ انھیں 13 دسمبر کو لاہور میں بڑا شو کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ن لیگ ایسا نہ سمجھے کہ وہ لاہور میں آسانی سے بڑا شو کر لے گی۔ ن لیگ کو واضع پیغام دیا گیا ہے کہ جلسے سے پہلے لاہور میں گرفتاریاں زیادہ بڑے پیمانے پر ہوں گی۔ ملتا ن میں تو حکومت نے صرف ٹریلر چلایا ہے۔ اصل فلم تو لاہور میں چلے گی۔ ملتان میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تو نسبتاً رعایت برتی گئی ہے۔
لیکن لاہور میں ن لیگ کے ساتھ بالکل رعایت نہیں برتی جائے گی۔ لاہور ن لیگ کے لیے کبھی آسان نہیں رہا۔ ن لیگ لاہور سے ووٹ تو لے لیتی ہے لیکن لاہور کا مزاج مزاحمتی سیاست کا نہیں ہے۔ لاہور میں بڑا شو کرنا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ حکومت اگر صرف لاہور سے باہر سے لوگوں کو نہ آنے دے اور لاہور میں فری ہینڈ بھی دے دے تب بھی کام ہو جائے گا۔ لیکن شائد ایسا نہیں ہو گا۔ لاہور کے اندر بھی حکومت ن لیگ کے ساتھ بھر پور میچ ڈالے گی۔
اس لیے ن لیگ کو دوسرے تیسرے درجہ کے کارکنوں کی گرفتاری کا بوجھ بھی اٹھانا ہے اور جلسہ بھی کرنا ہے۔ ٹرانسپورٹ بھی نہیں ملے گی۔ راستے بھی بند ہوں گے۔ ایسے میں لوگوں کا لانا ایک مسئلہ ہو گا۔ لاہور میں تصادم کی فضا میں ملتان جیسا شو کرنا بھی شاید مشکل ہو گا۔ ویسے تو پی ڈی ایم کے لیے اصل مشکلات لاہور کے بعد شروع ہونگی۔ لاہور میں ن لیگ کی قیادت میں کیا گیلانی خاندان جتنا دم ہے۔ ملتان کی حکمت عملی سے حکومت نے واضع پیغام دے دیا ہے۔ کہ لاہور میں اس سے زیادہ سختی کی جائے گی۔
حکومت کو پتہ ہے کہ وہ لاہور میں اپوزیشن کے بڑے شو کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لیکن دوسری طرف ن لیگ کی بھی خواہش ہو گی کہ اللہ کرے مینار پاکستان میں جلسہ نہ ہی کرنا پڑے۔ کیونکہ خادم رضوی کے جنازے کے بعد اتنا بندہ اکٹھا کرنا عملی طو ر ناممکن ہے۔ شاید ن لیگ بھی یہی چاہتی ہو کہ سڑک پر کرنا پڑ جائے اور بھرم رہ جائے۔