کراچی سرکلر ریلوے اور لاہور اورنج لائن
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کراچی سرکلر ریلوے کے فعال نہ ہونے کے حوالے سے ریلوے، سندھ حکومت اور دیگر اعلیٰ حکام کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے۔
عدالت عظمیٰ کے سہہ رکنی بنچ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کی بروقت تکمیل پر نہ صرف اظہار ناراضی کیا ہے بلکہ تمام ذمے د اران کو توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری کیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر انھوں نے ضرورت محسوس کی تو وہ وزیر اعظم کو بھی عدالت میں بلا کر کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔
سپریم کورٹ کے اس سخت ایکشن کے بعد پاکستان ریلوے نے فوری طور پر 14کلومیٹر کے ٹریک پر 19نومبر سے سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بظاہر لگ رہا ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی سے بچنے کے لیے جلدی میں فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے کی کہانی بھی عبرت ناک ہے۔ ہم نے جیسے پاکستان اسٹیل ملزاور پی آئی اے کو تباہ کیا۔ ایسے ہی کراچی سرکلر ریلوے کو بھی تباہ کیا ہے۔ میں اسے بدقسمتی ہی کہوں گا کہ ایسا پاکستان میں ہر کامیاب ادارے کے ساتھ ہوا ہے۔ کیا سرکلر ریلوے کی تباہی سے کراچی کی قیادت خود کو بری الذمہ قر ار دے سکتی ہے؟ کیا کراچی سرکلر ریلوے اس وقت تباہ نہیں ہو ئی جب کراچی میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا؟
مجھے خوشی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے کراچی میں ماس ٹرانزٹ منصوبے کی اہمیت کا احساس کیااور حکومتی اداروں کو بھی احساس دلایا ہے۔ میں خوش ہوں کہ سپریم کورٹ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے ایکٹو جیوڈیشلز م کر رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہماری عدلیہ کو بھی ملک کے بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ منصوبوں کی اہمیت کا احساس ہوگیا ہے۔ لاہور کی اورنج لائن کی تعمیر کا کام کئی ماہ تک کیسے رکا رہا، اس کی وجہ کا ملک کے تمام فہمیدہ حلقوں کو علم ہے۔ لاہور کی اورنج لائن کئی ماہ تاخیر کا شکار ہو گئی۔ دوست کہتے ہیں کہ کوشش یہ تھی کہ عام انتخابات سے پہلے اورنج لائن ٹرین شروع نہ ہو سکے تاکہ مسلم لیگ (ن) سیاسی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ لیکن میں ایسی سازشی تھیوریوں کو نہیں مانتا۔ یقینا اس کی ٹھوس قانونی وجوہات ہوں گی۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب ہماری معزز عدلیہ کی سوچ میں ماس ٹرانزٹ منصوبوں کے حوالے سے واضح تبدیلی آئی ہے۔ اسی لیے جب پشاور بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ کرپشن کے حوالے سے عدالتوں میں درخواستیں دائر کی گئیں تو سپریم کورٹ نے پشاور بی آر ٹی پر کام روکنے سے انکار کر دیا بلکہ اس موقف کی تائید کی کہ کام نہیں رکنا چاہیے۔ اسی طرح اب کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے بھی سپریم کورٹ سخت ایکشن لے رہی ہے۔ ماس ٹرانزٹ منصوبوں کے بغیر بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
لاہور کو ماس ٹرانزٹ کے دو منصوبے مل چکے ہیں۔ پہلے مرحلے میں میٹرو بنائی گئی، جس میں روزانہ لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں۔ اب اہل لاہور کو اورنج لائن مل گئی ہے۔ اورنج لائن پاکستان میں ایک شاہکار ہے۔ اس میں بیٹھ کر شہری خود کو باعزت محسوس کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ قدرت نے شہباز شریف کو جیل میں ہونے کی وجہ سے اپنے اس شاہکار کو چلتے دیکھنے کا موقع نہیں دیا لیکن جو بھی اورنج لائن میں سفر کرتا ہے وہ شہباز شریف کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بہر حال ہم بات کراچی سرکلر ریلوے کی کر رہے ہیں، اس کے 14کلومیٹر کے ٹریک کو بحال کیا جا رہا ہے۔ اہل کراچی سرکلر ریلوے کا لاہور اورنج لائن سے موازنہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موازنہ کیا جا رہا ہے کہ اورنج لائن میں مسافروں کے لیے کیا سہولیات ہیں جب کہ کراچی سرکلر ریلوے کی ٹرین کیسی ہوگی۔
سوال یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کو ہی کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے اتنے سخت ایکشن کیوں لینے پڑ رہے ہیں، حکومتیں کیوں اپنا کام خود نہیں کرپاتیں۔ کراچی کے لیے گرین لائن منصوبے کا بھی آغاز کیا گیا تھا لیکن اب تک بسیں بھی نہیں آسکی ہیں۔ جب کہ لاہور میٹرو کی نہ صرف بروقت تکمیل ہوئی اور کامیابی سے چل بھی رہی ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں بھی شہباز شریف حکومت کی بنائی ہوئی میٹروز کامیابی سے چل رہی ہیں۔
تحریک انصاف کی کے پی حکومت نے بھی بالآخر پشاور بی آر ٹی مکمل کر ہی لی ہے لیکن وہاں آئے دن مسائل آرہے ہیں بہرحال جیسے بھی سہی رو دھوکر منصوبہ مکمل تو ہو گیا ہے، حالیہ مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ تا ہم پنجاب میں میٹروز نے سخت احتساب کے شکنجے سے بھی خود کو سرخرو کیا ہے اور عوام کا اعتما د بھی جیتا ہے۔ دوسری طرف کراچی کی میٹرو گرین لائن شروع ہی نہیں ہو سکی ہے۔ یہ منصوبہ سب سے پرانا ہے۔ اس پر کام بھی سب سے پہلے شروع ہوا تھا۔ لیکن مکمل نہیں ہو سکا۔ حالانکہ اس کوان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے جن کا پنجاب کی میٹرو ز کو کرنا پڑا ہے۔
کراچی کو ماس ٹرازٹ سے محروم رکھنا کراچی ہی نہیں بلکہ پاکستان سے ظلم ہے۔ یہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ ظلم ہے۔ دنیا کو ایک سو سال قبل یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ بڑے شہروں کی ترقی کے لیے ماس ٹرانزٹ ناگزیر ہیں۔ وہاں سو سال پہلے ماس ٹرانزٹ بننے شروع ہو گئے تھے۔ لیکن ہم آج بھی اس بحث میں پڑے ہیں کہ کیا ہمیں ماس ٹرانزٹ کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ہم آج بھی یہ بحث کر رہے ہیں کہ اورنج لائن کا فائدہ زیادہ ہے یا نقصان۔ آج بھی ہماری حکومتیں کراچی سرکلر ریلوے کو چلانا چاہیے کہ نہیں کی بحث میں الجھی ہوئی ہیں۔ آج بھی حکومتوں کی ہچکچاہٹ ہمارے لیے کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔
کراچی کے ساتھ بہت ظلم کیا گیا ہے اور یہ آج بھی جاری ہے۔ وفاقی حکومت اور نہ ہی سندھ حکومت کراچی کے ساتھ انصاف نہیں کررہی ہیں۔ کراچی کے مسائل کا حل وفاقی حکومت اور نہ ہی سندھ حکومت کی ترجیحات میں نظرا ٓرہے ہیں۔ کراچی سرکلر ریلوے صدر ایوب کے دور میں بنی تھی جس کی ہم نہ تو حفاظت کر سکے اور نہ ہی آج بحال کر پا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے اربوں روپے کا پیکیج بھی ایک خواب بن گیا ہو۔ کراچی کی مردم شماری میں ابہام بھی ظلم ہے اور کوئی بھی کراچی والوں کو بنیادی سہولیات دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔