حکومت اور اپوزیشن
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب قانون میں بالخصوص اور دیگر قوانین کے لیے جاری مذاکرات ٹوٹ گئے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے الگ الگ مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ نیب قوانین میں ترامیم کے لیے حکومت نے جو پہلے آرڈیننس جاری کیے تھا اسی کو اب پارلیمنٹ سے منظور کرا لے۔ ادھر اپوزیشن کی کوشش تھی اگر نیب سے جان ہی چھوٹ جائے تو بہتر ہے۔ یوں دونوں طرف الگ الگ ترجیحات تو تھیں لیکن بلا شبہ حکومت کا رویہ بھی ٹھیک نہیں تھا۔
ویسے عمران خان کی حکومت خود بھی نیب کے حوالے سے کنفیوژ ہے۔ حکومت نیب کو کمزور بھی کرنا چا ہتی ہے لیکن اپوزیشن کو دبانے کے لیے اسے قائم بھی رکھنا چاہتی ہے۔ حکومت کی جانب سے نیب قوانین میں جو ترامیم پیش کی گئی ہیں ان میں افسر شاہی اور کاروباری افراد کو نیب کے دائرہ کار سے باہر کرنا شامل ہے۔
اب حکومت کو تو پہلے ہی مکمل استثنا حاصل ہے۔ ایسے تو نیب کا دائرہ کار صرف اپوزیشن تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔ یہ بات اپوزیشن کو کیسے قبول ہو سکتی ہے؟ اپوزیشن کتنی بھی لولی لنگڑی ہو جائے، اس طرح کی ترامیم پر حکومت کو تائید نہیں دے سکتی۔
عمران خان کی حکومت کا خود بھی نیب کے حوالے سے رویہ کوئی مثبت نہیں ہے۔ آپ دیکھیں دو سال میں عمران خان نے اپنی حکومت کا ایک بھی ریفرنس نیب کو نہیں بھیجا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس حکومت میں کوئی سکینڈل نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں آٹا سکینڈل ہے۔ چینی سکینڈل ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا سکینڈل ہے۔ لیکن ان کی تحقیقات حکومت نے نیب کو نہیں دی ہیں بلکہ جب نیب نے پشاور میں بی آر ٹی منصوبہ کی تحقیقات کرنے کی کوشش کی تو حکومت نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ حکومت کے یہ تمام اقدامات خود ثابت کرتے ہیں کہ حکومت کو نیب پر اعتماد نہیں ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ اس کے دور کی کرپشن پر نیب تحقیقات کرے۔ بلکہ حکومت کی کوشش ہے کہ نیب اس سے دور ہی رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت کے مزاج کو سمجھتے ہوئے نیب نے بھی شعوری کوشش کی ہے کہ وہ حکومت کے معاملات سے دور ہی رہے۔
حالانکہ یہی عمران خان اپوزیشن میں ہمیں سمجھاتے تھے کہ حکومتی سکینڈلز کی تحقیق ایسی کسی ایجنسی کو نہیں دی جا سکتی جو خود حکومت کے ماتحت ہی کام کر رہی ہو۔ لیکن اب حکومت اپنے تما م سکینڈلز کی تحقیقات ایف آئی اے کو دے رہی ہے جو براہ راست حکومت کے ماتحت ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ایف آئی اے کے سابق ڈی جی کو حکومت نے صرف اس لیے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا کہ وہ حکومت کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ حالانکہ وہ چند دن بعد ریٹائر ہو رہے تھے۔ لیکن انھیں عزت سے ریٹائر ہونے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ اب حکومت اپنے تمام سکینڈلز کی تحقیقات ایک ایسی ایجنسی سے کراتی ہے جو براہ راست اس کے ماتحت ہے۔
ادھر اپوزیشن کا بکری چوری کا کیس بھی نیب کو بھیجا جاتا ہے۔ حکومت خود بھی تمام سرکاری وسائل اپوزیشن رہنماؤں کی کمزوریاں تلاش کر نے میں استعمال کر رہی ہے۔ جب کہ حکومت کے تمام ارکان کو نیب سے مکمل استثنا حاصل نظر آرہا ہے۔ یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ساری اپوزیشن چور اور ساری حکومت ایماندار ہے۔ یقینا اپوزیشن میں ایماندار لوگ ہیں اور حکومت میں بھی ایماندار لوگ ہیں لیکن دونوں طرف چوروں کی تعداد بھی برابر ہے۔ اب اگر ایک طرف کے چوروں کو استثنا حاصل ہو گا تو دوسری طرف کے چور یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ ان کے ساتھ احتساب نہیں انتقامی کاروائیاں ہو رہی ہیں۔
میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ نیب ایسا جان بوجھ کر رہی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیب کی اب تک کی کاروائیوں کا بالواسطہ فائدہ حکومت کو ہوا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر اپوزیشن پر سے نیب کا خوف ختم ہو جائے اور اپوزیشن سیاست کے لیے آزاد ہو جائے۔ تو اس حکومت کا پارلیمانی طور پر قائم رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے حکومت کی کوشش ہے کسی طرح اپوزیشن پر مقدمات کا خوف برقرار رہے۔ اس وقت بھی اپوزیشن کے رہنما کیسز میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انھیں سیاست کی ہوش ہی نہیں ہے۔
اب صورت حال یہ ہے ایک طرف حکومت نیب کو قائم بھی رکھنا چاہتی ہے لیکن دوسری طرف حکومت چل بھی نہیں رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ چند افسران کی گرفتاری کے بعد افسر شاہی نے قلم چھوڑ ہڑتال کی ہوئی ہے۔ کسی فائل پر دستخط نہیں ہو رہے۔ جس کی وجہ سے عمران خان کو حکومت چلانے اور کارکردگی دکھانے میں شدید مشکلات بھی پیش آرہی ہیں۔ اس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح افسر شاہی کو نیب کے دائرہ کار سے باہر کر دیا جائے تا کہ افسر شاہی بے خوف ہو کرکام کر سکے۔
اسی طرح حکومت کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ ملک میں کاروباری و معاشی سرگرمیاں بھی مقدمات کے خوف کی وجہ سے منجمند ہو گئی ہیں۔ سرمایہ کار اور کاروباری لوگ ملک میں کاروبار اور سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں۔ ملک میں معاشی سرگرمیاں جمود کا شکار ہو گئی ہیں۔ حکومت کے لیے معیشت چلانا مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے حکومت کی کوشش ہے کہ نیب قوانین میں ایسی ترامیم کر لی جائیں کہ کاروباری اور سرمایہ کاروں کو مکمل استثنا مل جائے۔
اب جب حکومت اپنے آپ کو، افسر شاہی کو اور کاروباری افراد کو نیب سے استثنا دلوانے کے لیے کوشاں ہے۔ ویسے اپوزیشن کو بھی اس بات کا بھر پور احساس ہے کہ نیب حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ اس لیے اپوزیشن نے تو تمام سختیاں سہہ لی ہیں۔ کیسز کا سامنا کر لیا ہے۔
لیکن فائدہ یہ ہوا ہے کہ حکومت کی اپنی کارکردگی جمود کا شکارہو گئی ہے۔ اپوزیشن کے اندر یہ مضبوط سوچ موجود ہے کہ بے شک مزید سختیاں برداشت کر لی جائیں لیکن اس نیب کو حکومت کے گلے کی ہڈی کے طورپر قائم رکھا جائے۔ حکومت نے آرڈیننس جا ری کر کے دیکھ لیے ہیں لیکن اس کے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس لیے قانون سازی حکومت کی ضرورت ہے اور اپوزیشن حکومت کی یہ ضرورت آسانی سے پوری نہیں ہو نے دے گی۔ بس یہی منظر نامہ ہے۔