کورونا کی دوسری لہر اور ہماری ترجیحات
ملک میں تمام کاروبار زندگی بالآخر معمول پر لوٹ رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں۔ ہوٹل، ریسٹورنٹس کھل گئے ہیں۔ شادی ہال کھل رہے ہیں۔ صنعتیں کھل گئی ہیں۔ مارکیٹیں کھل گئی ہیں۔ دفاتر کھل گئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں یہ ماحول بن گیا ہے کہ ہم نے کورونا کو شکست دے دی ہے۔ لوگ خوف سے نکل گئے ہیں۔ ماسک کا استعمال بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگوں نے معمول کے مطابق ایک دوسرے سے ملنا شروع کر دیا ہے۔
حکومت بھی کنفیوژ ہے۔ ایک طرف کورونا کے خاتمے کا اعلان بھی کر رہی ہے دوسری طرف کورونا کی دوسری لہر کے خطرے کا اعلان بھی کر رہی ہے۔ ملک کو معمول پر لانے کا کریڈٹ بھی لے رہی ہے، لیکن کورونا کی دوسری لہر کا خو ف بھی دلا رہی ہے۔ فتح کا اعلان بھی کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ دوبارہ حملہ کے خدشات کا بھی اظہار کر رہی ہے۔ یہ دو عملی عوام کو سمجھ نہیں آرہی۔ عوام یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے کورونا کو شکست دے دی ہے۔ اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔
حکومت کی یہ بات غلط نہیں ہے کہ سیاسی اجتماعات سے کورونا کے دوبارہ پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ابھی ہم نے کورونا کو اس حد تک شکست نہیں دی کہ عوامی اجتماعات اور عوامی جلسے شروع کر دیے جائیں۔ لیکن اس معاملے میں بھی حکومت کا ہی قصور ہے۔ حکومت نے بھی محدود پیمانے پر عوامی اجتماعات کا انعقاد شروع کر دیا۔ اب حکومت کس منہ سے اپوزیشن کو روکے۔ حکومتی جماعت نے راولپنڈی لیاقت باغ میں تقریب منعقد کی ہے اور خود وزیر اعظم نے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سپریم کورٹ اس اجتماع پر نوٹس لے چکی ہے۔
اس سے پہلے کہ کورونا کے دوسرے وار پر بات کی جائے، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم نے کورونا کے پہلے وار کو کیسے شکست دی۔ اس ضمن میں جب وزیر اعظم سے سوال کیا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں مودی نے بہت سخت لاک ڈاؤن کیا، وہاں لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی اور اتنے سخت لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا پھیل گیا۔ اس کے مقابلے میں ہم نے سخت لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ وہ کہتے کہ انھیں بہت مجبور کرنے کی کوشش کی گئی کہ سخت لاک ڈاؤن کیا جائے۔
لیکن انھوں نے ملک کو مکمل طور پر بند کرنے کی تمام تجاویز مسترد کر دیں۔ انھیں دیہاڑی دار مزدور کا بہت خیال تھا۔ اس لیے وہ ملک بند کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس طرح اگر وزیر اعظم عمران خان کے بیانئے کا خلاصہ کرنے کی کوشش کی جائے تو بات اتنی ہی سمجھ آتی ہے کہ جن ممالک نے مکمل لاک ڈاؤن کیا، وہاں کورونا تیزی سے پھیل گیا۔ ہم نے مکمل لاک ڈاؤن نہیں کیا، اس لیے کورونا تیزی سے نہیں پھیلا۔ لیکن کیا یہ بات اتنی ہی سادہ ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں پہنچنے والا کورونا وائرس انتہائی کمزور نوعیت کا تھا۔ اس لیے اس نے پاکستان میں تباہی بھی کم مچائی ہے۔ ہمارے ملک میں اموات بھی کم ہوئی ہیں۔ اور لوگ کورونا کی وجہ سے بیمار بھی کم ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی ہے۔ بھارت میں پہنچنے والا کورونا وائرس مضبوط تھا۔ ایران پہنچنے والا کورونا وائرس مضبوط اور طاقتور تھا۔ بنگلہ دیش پہنچنے والا کورونا وائرس طاقتور تھا۔ لیکن پاکستان پہنچنے والا وائرس انتہائی کمزور لاغر تھا اور ہماری قوم نے اس کو با آسانی شکست دے دی ہے۔
بات سمجھ نہیں آتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم نے کورونا کو ناقابل فہم انداز میں شکست دے دی ہے۔ شاید ہمیں خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیسے بچ گئے ہیں۔ ایک دوست کے مطابق دنیا نے کورونا کو قابو کرنے کی کوشش کی اور ناکام ہو گئی جب کہ ہم نے کورونا کو آزاد گھومنے کی اجازت دی تو وہ شرما کر خود ہی چلا گیا۔ بے شک کورونا سے نبٹنے کے لیے حکومت نے این سی او سی جیسا ایک ادارہ بنایا۔ اس نے کئی اجلاس بھی کیے۔ اب بھی اس کے اجلاس روزانہ ہو رہے ہیں۔ ہنگامی حالات کی تیاری بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن شاید ہنگامی حالت آئی ہی نہیں کہ پتہ چلتاکہ کیا تیاری ہوئی۔ بس بھرم ہی رہ گیا۔
اس لیے کیا یہ سوچنا غلط نہیں ہوگا کہ ہم جب پہلے مرحلہ تمام تر حماقتوں کے باوجود بچ گئے ہیں۔ اسی لیے ہم دوسرے مرحلے سے بھی تمام تر حماقتوں کے ساتھ بچ جائیں گے۔ لیکن جس طرح انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ ہر روز اتوار نہیں ہوتا۔ یعنی روزانہ چھٹی نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ اگر اللہ کی رحمت سے ہم پہلے مرحلہ سے بچ کر نکل گئے ہیں تو دوسرے مرحلہ سے بھی بچ کر نکل جائیں گے۔ کیا دوسرے مرحلہ میں پھنسنے کے امکانات روشن نہیں ہیں۔ لیکن عام آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تا ہم خدشات اور شکوک شبہات اپنی جگہ موجود ہیں۔
آجکل ایک افواہ بہت زور سے گردش کر رہی ہے کہ تعلیمی ادارے دوبارہ بند کیے جا رہے ہیں۔ زبان زد عام ہے کہ حکومت نے کورونا کو بڑھتا دیکھ کر تعلیمی ادارے دوبارہ بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ والدین نے ان افواہوں کی وجہ سے فیس روک لی ہیں۔ ایک دوسرے سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا تعلیمی ادارے دوبارہ بند ہو گئے ہیں۔
ایک افواہوں کا بازار گرم ہے کہ فلاں اسکول میں اتنے ٹیچرز کو کورونا نکل آیا ہے۔ وہاں ایک بچے کو کورونا کو ہو گیا ہے کوئی بتا نہیں رہا۔ حقائق چھپائے جا رہے ہیں۔ حکومت بھی دوبارہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی باتیں کرنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن ایک رائے یہ بھی بن گئی ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں کو ناکام بنانے کے لیے حکومت نے کورونا کا شور مچانا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے کوئی حکومت کی بات کو سنجیدہ نہیں لے رہا۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ کورونا کے دوسرے حملہ کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری معیشت کورونا پھیلنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسے میں یہ سوال کہ کیا تعلیمی ادارے دوبارہ بند کردینے چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی مضائقہ نہیں۔ آزادی کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ حکومت کو سخت فیصلے کرنے چاہیے۔
نرمی زیادہ نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم تو یہ سب پہلے مرحلے کے وقت بھی کہہ رہے تھے لیکن حکومت نہیں مانی تھی۔ بعد میں حکومت درست ثابت ہوئی، اب بھی ہم کہہ رہے ہیں اور دعا ہے کہ اس بار بھی حکومت ہی درست ثابت ہو۔ جب حکومت خود عوامی اجتماعات کر رہی ہو اور اپوزیشن سے کہے کہ وہ نہ کرے تو کون مانے گا؟ سب یہی کہیں گے کہ یہ ایک سیاسی اسٹنٹ ہے، اس لیے ہماری ترجیحات درست نہیں ہیں۔