چیف جسٹس پاکستان کا پنجاب بار سے خطاب
عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بار اور بنچ عدلیہ کے دو ستون ہیں جن پر نظام انصاف کی عمارت کھڑی ہوتی ہے لیکن میرے لیے اس فلسفے کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔ میرے خیال میں اس فلسفے اور بیانیے نے نظام انصاف میں کئی خرابیوں یا مسائل کو بھی جنم دیاہے بلکہ نظام انصاف کو کمزور کیا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان میں نظام انصاف کو ٹھیک کرنا ہے تو اس سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔
میری رائے میں موجود منظر نامے کو دیکھا جائے تو کئی بارایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بار اور بنچ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ شاید ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے کا ماحول بن رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ عدلیہ کے ذمے داران کی ابھی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح بار کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی راہ نکالی جائے۔ لیکن عملاً حالات جہاں تک پہنچ چکے ہیں، اب یہ ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان محترم گلزار احمد نے گزشتہ روز پنجاب بار کونسل کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی اہم باتیں کی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وکلا حضرات کو ججز کے ساتھ جارحانہ رویے سے پیش نہیں آنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنا یہ واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ جب وہ نوجوان وکیل تھے تو انھوں نے بھی ایک جج کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا جس پر ان کے والد محترم نے ان کی سخت سرزنش کی تھی اور انھوں نے اگلے دن جا کر ان معززجج صاحب سے معذرت کر لی تھی۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ پنجاب بار کونسل کی تقریب میں چیف جسٹس پاکستان نے وکلا کی جانب سے ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان کے ساتھ غیر مناسب رویہ کی بات کی ہے اور وکلا نمایندوں کی توجہ اس اہم پہلو کی جانب مبذول کرائی ہے۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ یہ بات کرنے کے لیے پنجاب بار کونسل ایک بہترین پلیٹ فارم ہے اور چیف جسٹس پاکستان نے درست پلیٹ فارم پر بالکل درست بات کی ہے لیکن ان کی اس نصیحت انگیز بات کے جواب میں پنجاب بار کونسل کی طرف سے کوئی ایسا واضح اعلان سامنے نہیں آیا کہ آیندہ وکلا حضرات ماتحت عدلیہ میں جج صاحبان کے سامنے قانون کے تقاضوں کے مطابق پیش ہوں گے۔ پنجاب بار کونسل نے ایسے کسی قواعد کا اعلان بھی نہیں کیا کہ اگر بار کو کہیں سے بھی کسی بھی وکیل کی جانب سے کسی بھی جج کے ساتھ غیرمناسب رویہ کی شکایت ملی تو وہ سخت سے سخت ایکشن لیں گے۔ کم از کم میں نے ایسا کوئی اعلان نہ پڑھا اور سنا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ معاملات جیسے چل رہے ہیں ویسے ہی چلتے رہیں گے۔
اس لیے میرے نزدیک کچھ عرصے سے بار اور بنچ اب نظام عدل کے دو ستون والے فلسفے پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ ویسے بھی یہ بات ناقابل فہم ہے کہ بار اور بنچ اکٹھے کیسے ہیں۔ وکلا کا قانونی اور بنیادی کردار انصاف کے عمل میں اپنے موکل کی پیروی کرنا ہے۔ وہ سچائی یا انصاف کے ساتھ نہیں ہوتے بلکہ اپنے موکل کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا کردار تفتیشی افسر کا بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی مقدمات کے ٹرائل کے دوران عدالت کی معاونت کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اپنی تفتیش کا دفاع کر رہا ہوتا ہے جیسے وکیل اپنے موکل کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اب بار اور بنچ کو ایک نظر سے دیکھنے کی رسم کا ازسرنو جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے۔
ویسے تو ہونا یہ بھی چاہیے تھا کہ چیف جسٹس پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور پنجاب بار کونسل کے نمایندے ساتھ بیٹھ کر ایک عملی روڈ میپ بناتے کہ بعض اوقات محترم جج صاحبان کے ساتھ جو چند وکلا حضرات نامناسب سلوک کرتے ہیں، ایسے واقعات کی روک تھام کا کیا طریقہ ہے۔ پنجاب بار کونسل کے ساتھ بیٹھ کر ایسے قواعد پر اتفاق کیا جانا چاہیے تھا جن سے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔ معاملہ اب صرف توجہ دلانے سے آگے نکل چکا ہے۔
ویسے بھی حال ہی میں پنجاب بار کونسل کے انتخابات میں فائرنگ کی جو ویڈیو فوٹیج سامنے آئی ہے، اس کے بعد کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ بہرحال اس موقعے پر چیف جسٹس پاکستان نے یہ بھی یقین دلایا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی جو آسامیاں خالی ہیں، ان کو بھی جلد پر کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اب وقت آگیا ہے کہ بار کی سیاست کرنے والے وکلا کو اعلیٰ عدلیہ میں بطور جج تعینات نہ کیا جائے۔ جس نے بھی بار کا انتخاب لڑا ہے یا وہ بار کی سیاست میں عملی طورپر شریک رہا ہے، اس کا نام جج کے عہدہ کے لیے زیر غور نہیں آنا چاہیے۔
میرے مشاہدے کے مطابق بار کی سیاست کرنے والے وکلا غیر جانبدار نہیں ہوتے۔ وہ کسی نہ کسی سیاسی دھڑے یا پارٹی کے وکلا ونگ کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کی سیاسی وابستگی صاف نظر آرہی ہوتی ہے۔ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ بار کے عہدیداروں اور منتخب نمایندوں کو اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے لیے بالکل زیر غور نہ لایا جائے۔ میری تجویز ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں جج تعیناتی کے لیے اعلیٰ عدلیہ کو بھی سی ایس ایس کی طرز پر ایک امتحان لینا چاہیے۔ جو وکلا اور سیشن جج صاحبان اعلیٰ عدلیہ کا جج بننا چاہتے ہیں، انھیں اس امتحان میں شریک ہونا چاہیے۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ان کا انٹرویو ہونا چاہیے۔ تب جا کر انھیں اعلیٰ عدلیہ کا جج لگایا جائے۔
پاکستان میں نظام انصاف کو بہت سے مسائل درپیش ہیں۔ وسائل کی کمی اور ججز کی کمی بڑے مسائل ہیں۔ لیکن وکلاء کا رویہ بھی اب ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ بار کی انتخابی سیاست کی وجہ سے پنجاب بار اور پاکستان بار بھی مصلحتاً خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ ووٹ کی سیاست نے وکلاء رہنماؤں اور عہدیداروں کو مصلحت پسندی کے دائرے میں دھکیل دیا ہے۔ وہ وکلاء کے لبادے میں موجود چند غیر مناسب رویہ رکھنے والوں کے خلاف ایکشن لینے سے قاصر ہیں۔ کیا آج تک جج سے بدتمیزی اور غیر مناسب رویہ پر کسی بھی وکیل کے خلاف کوئی سخت ایکشن ہوا ہے۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے اور اب بھی میری تجویز یہی ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججز صاحبان کے ساتھ بعض وکلا نمایندوں کے غیر مناسب سلوک کے خلاف سخت ایکشن لینے کا اعلان کیا جائے، ایسے ہر واقعے کے خلاف سو موٹو ایکشن لیا جائے اور بدتمیزی، گالم گلوچ اور ہنگامہ آرائی کے مرتکب وکیل کا لائسنس ہمیشہ کے لیے خارج کردیا جائے۔ ایک کیس میں ایک فریق کی طرف سے صرف ایک ہی وکیل پیش ہو۔ وکلا کے جتھوں کا ماتحت عدالتوں میں پیش ہو کر ججز یا مخالف فریق کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔ بار نمایندوں کے وکالت ناموں کو بھی عام وکیل کے وکالت ناموں کے برابر ہی سمجھا جائے۔ اس سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔