آرمی چیف کی پارلیمانی رہنمائوں سے ملاقات
آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کی خبر سامنے آگئی ہے۔
خبر کی مختلف سیاسی رہنماؤں نے تصدیق بھی کر دی ہے۔ اس تصدیق کے ساتھ ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے بعض مندرجار ت بھی سامنے آئے ہیں۔ میری رائے میں یہ ایک مثبت ملاقات تھی جس کے پاکستان کی سیاست اور اس کی سالمیت پر مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔
وزیر اعظم اس ملاقات میں شریک نہیں ہوئے، جیسے ملک کے فہمیدہ طبقے نے محسوس کیا، بہرحال اہم وفاقی وزراء اس ملاقات میں حکومت کی نمائندگی کے لیے موجود تھے۔ جب حکومت کی نمائندگی موجود تھی تو وزیر اعظم کو بھی موجود ہونا چاہیے تھا۔ سراج الحق کی اس ضمن میں نشاندہی درست ہے۔ میں سمجھتا ہوں وزیر اعظم کو اپوزیشن کے بائیکاٹ اور ان سے نہ ملنے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
میں اس بات سے بھی متفق ہوں کہ سیاستدانوں کو اپنی سیاسی لڑائی میں ریاستی اداروں کو ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ ریاستی ادارے ملک کے استحکام اور دفاع کے ضامن ہیں، انہیں متنازعہ بنانا اور ان کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنا ملکی مفاد میں نہیں ہے تا ہم احتیاط دونوں طرف سے ہونی چاہیے۔ اسی لیے میں سمجھتاہوں کہ اس قسم کی ملاقات ہلکی پھلکی شکایات کو بڑی بننے سے پہلے پہ ختم کر دیتی ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دور حکومت میں، دسمبر2017میں سینیٹ سے نہ صرف خطاب کیا بلکہ ارکان سینیٹ کے سوالات کے جوابات بھی دیے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ بھی ایک اچھی شروعات تھی۔ اس روایت کو برقرار رہنا چاہیے۔ میرا خیال ہے یہ تبادلہ خیالات کا ایک قانونی اور انتہائی مثبت راستہ تھا۔ میں تو اس حق میں بھی ہوں کہ اہم قومی اور دفاعی معاملات پر انہیں قومی اسمبلی سے بھی کم از کم سال میں ایک دفعہ خطاب کرنا چاہیے اور ارکان قومی اسمبلی کے سوالات کے بھی جوابات دینے چاہیے۔ اس سے بھی پاکستان میں قومی ہم آہنگی پیدا ہو گی۔
موجودہ حکومت نے ملک میں جو سیاسی ماحول پیدا کیا ہے۔ اس تناظر میں ایسی ملاقاتوں کی ضرورت کا اور بھی شدت سے احساس ہونے لگا ہے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو بھی افواج پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ میں آرمی چیف کی اس بات سے بھی پوری طرح متفق ہوں کہ حکومت جو بھی ہو، اسے افواج پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔
اگر کل اپوزیشن کی کوئی جماعت حکومت میں آجاتی ہے تو اسے بھی افواج پاکستان اور دیگر ریاستی اداروں کا اسی طرح تعاون حاصل ہوگا۔ یہی باجوہ ڈاکٹرائن ہے جو انتہائی قابل تحسین ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے کی غلط پالیسیوں اور سیاسی رویوں کی وجہ سے ماحول بہت آلودہ ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اب بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ملک کے دفاع کے ضامن ادارے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تو وزیر اعظم پاکستان کو بھی اس میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ ضرور رکھنے چاہیے۔
دوسری طرف دیکھاجائے تو اپوزیشن نے حکومت کے غیر سیاسی اور جارحانہ رویہ کے باوجود اہم قومی امور پر حکومت سے بھر پور تعاون کیا ہے۔ وزیر اعظم اپوزیشن سے ملنے اور بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اپوزیشن نے آرمی ایکٹ، فیٹف اور دیگر اہم قومی معاملات پر حکومت کا ساتھ دیا ہے۔
بے شک یہ کہا جائے کہ انھوں نے پاکستان کے مفاد میں ووٹ اور ساتھ دیا ہے لیکن اگر اپوزیشن ملکی مفاد میں حکومت کے ساتھ کھڑاہونے کے لیے تیار ہے توحکومت کو بھی اپوزیشن سے وورکنگ ریلیشن ضرور قائم کرنے چاہیں۔ گلگت بلتستان کو جہاں تک صوبہ بنانے کی بات ہے تو یہ بھی پاکستان کے بہترین مفاد کی بات ہے۔
اگر آرمی چیف نے اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے تو انھوں نے ایسا پاکستان کے مفاد اور سلامتی کے تحفظ کے لیے کیا ہے، پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے بات کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن نے بھی حب الوطنی کی ثبوت دیا ہے۔ اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ حکومت انہیں جتنا مرضی دیوار سے لگا لے لیکن پاکستان کی سلامتی کے امور پر اپنے ادارے کے ساتھ ہیں۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ اس ملاقات کو سیکرٹ رکھنا طے تھا۔ اور اب حکومتی وزیر کی جانب سے اس ملاقات کی خبر کو میڈیا کو لیک کیا گیا ہے۔ بعد میں حکومتی وزیر نے ہی اس کی تصدیق کی ہے۔ اور اس کے مندرجات بیان کیے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی خبر منظر عام پر آنے کے بعد اس ملاقات کے مندرجات بیان کیے ہیں۔ اب یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس خبر کو لیک کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اور لیک ہونے سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ بے شک اپوزیشن نے معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے خبر کو لیک نہیں کیا لیکن اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو اپوزیشن کو ہی اس ملاقات کا فائدہ ہوگا۔ بے شک نواز شریف کی تقریر کے تناظر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن کو نقصان ہوگا۔ لیکن میں نہیں مانتا کہ ن لیگ کے وفد نے نواز شریف کی مرضی کے بغیر یہ ملاقات کی ہے۔
ن لیگ نے پہلے بھی آرمی ایکٹ اور فیٹف سمیت تمام اہم نوعیت کی قانون سازیوں میں حزب اقتدار کا ساتھ دیا ہے۔ اس لیے نواز شریف کی تقریر اپنی جگہ۔ لیکن ن لیگ کی مفاہمت کی پالیسی اپنی جگہ موجود ہے۔ اسی لیے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ تقاریر نواز شریف کی چلیں گی اور مفاہمت کی پالیسی شہباز شریف کی ہی چلے گی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مخصوص سیاسی اور بین الاقوامی حالات میں پاکستان کے ریاستی اداروں کو پاکستان کے اہم اسٹریٹیجک معاملات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ میں آئین کی بات نہیں کر رہا کہ آئین میں اس کی کتنی گنجائش ہے اور کتنی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب بین الاقوامی قوتیں بھی ریاستی اداروں کے اس اہم کردار کو مانتی ہیں۔ اچھا یہی ہے کہ پاکستان کے اندر بھی اس کردار کے لیے آئینی گنجائش نکالنی چاہیے تا کہ یہ بحث اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات بھی ختم ہو سکے کیونکہ حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔
اپوزیشن جماعتوں نے واضح سگنل دیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے تیار ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں مکمل ہم آہنگی کی خواہش مند ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک نہیں دس قدم آگے چلنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ صرف سیاسی کھیل میں لیول پلینگ گراؤنڈ کے متنمی ہیں۔
بات چیت کے دروازے کھلے ہوں۔ کسی بھی ایشو پر کسی بھی وقت اورکہیں بھی بات ہو سکے۔ پاکستان کے لیے بات ہو سکے، ملک کے مفاد میں بات ہو سکے۔ جیسے ہم نے گزشتہ دو سال میں دیکھا بھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں عمران خان کو آرمی چیف سے سیکھنا چاہیے اور اپوزیشن سے بات چیت کے دروازے کھولنے چاہیے۔ یہی ملکی مفاد ہے۔
اس ملاقات کے بعد گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں شفاف انتخابات کے حوالے سے اپوزیشن کے شکو ک شبہات بھی ختم ہو گئے ہیں اور ایک رائے بن گئی ہے کہ اب وہاں اپوزیشن کے لیے برابری کے مواقعے موجود ہیں۔ اس لیے خو ب زور لگانا چاہیے۔