تجھے کس پھول کا کفن ہم دیں
ایک روائت ہے کہ کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں اور میری بجھتی ہوئی اسی برس کے منظروں، محبتوں اور دکھوں کو دیکھنے والی آنکھیں تو بہت ہی کچی ہیں۔ میں رونے سے، آنسو بہانے سے اجتناب کرتا ہوں کہ ہر آنسو کے ساتھ میری آنکھوں کے دھاگے ادھڑتے جاتے ہیں اور مجھے آنسوئوں کے پار کچھ نظر نہیں آتا اور اگر وہ بچوں کے جنازے ہوں تو گویا وہ میری آنکھوں سے نکل رہے ہوتے ہیں۔ مجھے مر جانے والے بچے اچھے نہیں لگتے۔ وہ بہت بُرے ہوتے ہیں، کچھ لحاظ نہیں کرتے کہ کہیں پاکستان کے شہر لاہور میں ایک بوڑھا اپنی رائٹنگ ٹیبل پر جھکا ایک ناول لکھ رہا ہے۔ رسول اللہ ؐ کے عشق میں قصیدہ لکھ رہا ہے تو ابھی فوری طور پر تو نہ مر جائیں۔ ذرا صبر کریں چند روز بعد مر جائیں۔ لیکن مرنے والے بچے کچھ لحاظ نہیں کرتے۔ انتظار ہی نہیں کرتے کہ جب کربلا آئے گی تو اصغر کے ساتھ مر جائیں گے۔ جیسے آرمی پبلک سکول کے بچوں نے بھی کچھ انتظار نہ کیا۔ کربلا میں تو دو چار تھے یہاں سینکڑوں تھے جو مار ڈالے گئے۔ وہاں تو یزیدیوں نے انہیں مارا اور یہاں انہیں اپنوں نے، "اللہ اکبر" کے نعرے بلند کرتے ہوئے ان کے سروں میں گولیاں ماریں۔ اتنے بچے مارے گئے کہ شہر پشاور میں تابوت کم پڑ گئے انہیں اتنی بے دردی سے مارا گیا کہ جب وہ دفن کیے گئے تو ان کی قبروں میں سے بھی خون کے فوارے پھوٹتے تھے۔ قبرستان نہ ہوا شالیمار باغ ہو گیا اور یہ میرے جیسے پتھر دل، اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے کالم نگار اور دانشور تھے جو ان "اللہ اکبر" کے نعرے لگانے والے باریش حضرات کے شیدائی تھے ان دنوں بچے بہت مرتے ہیں۔ انہوں نے شائد یہ طے کر لیا ہے کہ ہمیں اسی عہد میں مر جانا ہے۔ قندوز، غزا، شام میں مسلسل مرتے جاتے ہیں تو یہ سب ایک سازش کے تحت جان بوجھ کر ہلاک ہوتے چلے جا رہے ہیں اور میں نے بھی طے کر رکھا تھا کہ میں نے ان کے جنازوں کے لئے اپنی کچی آنکھوں کے رو رو کر بخیے نہیں ادھیڑنے، مرتے ہیں تو مرتے پھریں۔ اور پھر یہ بچی سبیکا نام کی۔ امریکہ کے شہر ٹیکساس میں مر گئی تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ نہیں۔ اب میں اپنے لفظوں کی جادوگری سے اس سترہ برس کی بیٹی کی لاش کو افسوس اور رنج کی چِتا میں نہیں جلائوں گا۔ فلسطین، شامی، روہنگیا بچے مر گئے تو یہ مر گئی تو کیا ہوا۔ عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی۔ اگر ان بچوں نے مرنے کی عادت ہی بنا لی ہے تو میں نے قطعی طور پر اپنے قلم کو سوگواری کے سپرد نہیں کرنا۔ اور پھر میر ے ایک دوست زبیر نے مجھے ایک ویڈیو روانہ کی یہ ویڈیو سبیکا شیخ کی ہلاکت کی یاد میں ایک ایسی سوگوار محفل کی تھی جس میں اس کی امریکی "بہنوں " اور "باپ" کے رنج اورالم تھے۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ میری بوڑھی اور کچی آنکھوں سے آنسو بہتے جاتے تھے۔ یہ جو کچھ دانشور لوگ ہیں جو دن رات امریکہ کی بے راہروی اور اخلاقی گراوٹ کے قصے بیان کرتے۔ اعداد و شمار کے ڈھیر لگاتے۔ اس ملک کو مطعون کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ نہ صرف ان کے بلکہ مذہبی جماعتوں کے بہت سے لیڈر حضرات کے بچے بھی امریکہ کے شہری ہو کر وہاں موجیں کرتے ہیں۔ بے شک آپ کسی سے پوچھ لیجیے۔ بلکہ مودودی صاحب کا علاج بھی تو امریکہ میں ہی ممکن ہوا تھا تو ان سب سے یہی گزارش ہے کہ بے شک بین الاقوامی حوالے سے امریکہ ایک ایسا شیطان ہے جس نے لیبیا، عراق اور افغانستان تباہ کر دیے ہیں لیکن اس امریکہ کے اندر جو امریکی ہیں ان میں سے بیشتر بہت ہمدرد اور پیارے لوگ ہیں۔ کیا کبھی سعودی عرب نے کسی ایک پاکستانی کو اپنے ملک کی شہریت دی۔ امریکہ کھلے دل سے قبول کرتا ہے۔ مذہب اور عقیدے کے حوالے سے جتنی آزادی امریکہ میں ہے سعودی عرب میں تو کہاں پاکستان میں بھی نہیں ہے۔ تو اس ہلاک کر دی گئی پاکستانی بچی کی سوگواری کی محفل ایسی تھی کہ اسے دیکھ کر میری کچی آنکھوں سے آنسوئوں کے جھرنے پھوٹ نکلے۔ ایک سنہری زلفوں والا گیسو دراز امریکی گورا ہے جس کے گھر میں سبیکا ایک مہمان کے طور پر ٹھہری تھی اور وہ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہہ رہا ہے۔ سبیکا ہمارے گھر میں مہمان ہوئی اور ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہمارے گھر میں ایک فرشتہ اتر آیا ہے اور اس نے ہماری دنیا بدل دی۔ آپ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ آدھی دنیا کی مسافت طے کر کے ایک فرشتہ، خدا نے ہمارے گھر میں بھیج دیا ہے۔ میری تین بیٹیاں ہیں لیکن سبیکا مجھے سب سے زیادہ عزیز تھی۔ اتنی محبت کرنے والی، اتنی پیاری کہ میں خواہش کرتا تھا کہ وہ میری سگی بیٹی ہوتی۔ ہم دونوں کو محبت نے جوڑ دیا کہ ہم اس سے اور وہ ہم سے محبت کرتی تھی۔ جو ہم کرتے تھے وہ کرتی تھی اور جو وہ کرتی تھی ہم کرتے تھے یہاں تک رمضان کا مہینہ آیا تو اس نے روزے رکھے اور ہم نے بھی روزے رکھے اور سبیکا اپنے ساتھ پاکستانی ثقافت لے کر آئی۔ اس نے ہمیں پاکستان کے قریب کیا۔ میری خواہش ہے کہ سبیکا ایسی لڑکیاں امریکہ آتی رہیں اور میرا گھر ان کے لیے کھلا ہے۔ خدا ہر شے پر قادر ہے اور میرا یقین ہے کہ وہ اب اس دنیا سے بہتر کسی جگہ پر منتقل ہو گئی ہے۔ ہم اسے یاد کرتے رہیں گے۔ اس گیسو دراز امریکی، سبیکا کے میزبان باپ، کے بعد اس کی اہلیہ روسٹرم پر آتی ہے اور اس گوری نے اپنے سر کو سرخ حجاب سے ڈھک رکھا ہے اور وہ غم سے اتنی نڈھال ہے کہ بول نہیں سکتی۔ وہ روتی ہوئی آنکھوں سے کہتی ہے کہ سبیکا ہمارے گھر میں مہمان آئی تو بہار آ گئی۔ اس نے اپنے کمرے کو پاکستان کے رنگوں سے سجایا۔ ایک دیوار پر پاکستانی پرچم آویزاں کیا اور اس نے کہا کہ میں امریکی ثقافت کے قریب آنا چاہتی ہوں۔ آپ میرے پاکستان کے قریب آ جائیے۔ سبیکا نے "مائوں کے دن" پر مجھے یہ پاکستانی چادر تحفے میں دی جو میں اوڑھے ہوئے ہوں۔ ازاں بعد اس کی امریکی میزبان "ماں " کی آواز روندھ گئی اور وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی اور آخر میں اس امریکی جوڑے کی ایک بچی سٹیج پر آئی اور اس نے بھی سبیکا کے سوگ میں ایک سیاہ چادر سے اپنے سر کو ڈھانک رکھا تھا اور اس نے کہا "جب میں سکول گئی تو میں کسی کو بھی نہیں جانتی تھی اور پھر مجھے سبیکا مل گئی اور میری تنہائی ختم ہو گئی اور وہ اپنے ملک، مذہب اور اخلاقی اقدار سے بہت جڑی ہوئی تھی اور جب مجھے پتہ چلا کہ وہ اگلے ماہ واپس پاکستان جا رہی ہے تو میں بہت روئی۔ کیونکہ آج تک مجھے کبھی بھی ایسی محبت کرنے والی دوست نصیب نہ ہوئی تھی"میں گریز کرتا رہا سبیکا کی موت پر کالم لکھنے سے اجتناب کرتا رہا کہ بچے تو مرتے رہتے ہیں تو کہاں تک ان کے جنازوں کو کاندھے دیتے رہیں۔ لیکن اس ویڈیو کلپ نے نہ صرف مجھے رلا دیا بلکہ یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا اور جان لیجیے کہ امریکہ صرف ایک پاگل ٹرمپ نہیں ہے۔ لیبیا، عراق، شام اور افغانستان کا تباہ کار ملک نہیں ہے۔ اس ملک میں ہم میں سے بہت سے لوگوں کی اولادیں آباد ہیں۔ کم از کم ٹیکساس کا وہ ایک خاندان ہے جو ہماری سبیکا کی ہلاکت پر روتا چلا جاتا ہے۔ قومیت کے تکبر اور مذہب کی عصبیت کے پار ایک ایسا جہان ہے جہاں محبت فاتح عالم ہے۔ جہاں بچوں کو "اللہ اکبر" کے نعروں سے ہلاک نہیں کیا جاتا کسی سبیکا کے معصوم بدن میں گولیوں کی برکھا نہیں برستی۔ آئیے ہم ہجرت کرتے ہیں اس جہان سے اور اس جہان میں جا آباد ہوتے ہیں جہاں بچوں کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔"تجھے کس پھول کا کفن ہم دیں ""تو جُدا ایسے موسموں میں ہوا""جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے"(اختر حسین جعفری)