روس کے بعد امریکہ
گزشتہ بیالیس(42) برس سے افغانستان کا مسئلہ ہمارے لئے "ہتھیلی کے چھالے" کی طرح ہے۔
افغانستان اور پاکستان کا رشتہ چچا زاد بھائیوں کی طرح ہے، حسن اتفاق سے جو ایک دوسرے کے ہمسائے بھی ہیں، ایسے ہمسایہ جن کی چھتیں ملی ہوئی اور صحن کی دیوار سانجھی ہے۔ ایک کے گھر مصیبت آئے تو ایک دوسرے کو نہ صرف چھت مہیا کرتی بلکہ روٹی بھی بانٹ کر کھانی ہوتی ہے، ایک بھائی کے گھر آگ لگے تو وہ آگ پرائی نہیں اس لئے بھی کہ دونوں چھتیں اکٹھی ہیں، درمیان میں ایک باریک پردہ ہے، دونوں گھر ایک ساتھ جلیں گے، دونوں چھتیں اکٹھی گریں گی۔
روس افغانستان میں گھس آیا تو بدخو خیر خواہوں " نے کہا چپ سادھے بیٹھ رہو، روس بڑا خونخوار عفریت ہے، بھائی کے گھر گھس آیا وہ تو گیا، اب خود کو بچائو، مگر ہم جانتے تھے کہ گزشتہ تین صدیوں سے وہ مشرق اور مغرب میں مسلسل پیش قدمی کر کے ریاستوں کو ایک ایک کر کے نگل گیا ہے، ہمارے بھائیوں میں آذربائیجان، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان، مشرقی یورپ میں اس کی تباہ کاریاں اس سے بھی زیادہ تھیں، مغرب نے امریکہ کی قیادت میں اتحاد بنا کر مشترکہ فوج کے ساتھ خود کو کسی حد تک محفوظ بنا لیا تھا، اب آخری شکار افغانستان تھا، اس کے بعد کوئی دیوار حائل نہ رہتی اور پاکستان براہ راست ان کی زد میں تھا، جہاں درجنوں نور محمد ترکئی، ببرک کرمل، حفیظ اللہ امین، ڈاکٹ نجیب اللہ طرز کے وطن فروش کمیونسٹ دہریے روسی ٹینکوں کے منتظر تھے، جن پر سوار ہو کر اسلام آباد میں حکمران بن جائیں، پاکستان نے افغانستان کی آگ کو اپنی آگ جانا اور حریت پسند مجاہدین کی مدد کی، اللہ کی نصرت آئی اور مچھلی کے پیٹ سے ہمارے ہڑپ کئے گئے بھائی بالآخر زندہ سلامت نکل آئے۔ راقم الحررف کے ایک دوست جو کبھی ترقی پسند تھے۔ بولے، پہلے دو غنڈے تھے یا دو مافیا چیف، ایک کو ختم کر کے بہت برا کیا، اب ایک بچ جانے والا بہت طاقتور ہو گیا ہے، پہلے ایک توازن تھا، غنڈوں کا سہی اب وہ نہیں رہا تو کیا کروں گے، ایک کی غلامی؟ عرض کیا جو غنڈہ ہمارے گھر جھانکنے کو آیا تھا، اس کو مار گرایا گیا، ایک باقی بچا ہے، دو غنڈوں کے مقابلے ایک سے نمٹنا کہیں آسان ہے۔ اسے آنے دو دیکھیں گے، جب وہ قریب پھٹکے گا، ہماری طرف سے یہ محض جوابی دلیل تھی۔ مگر وہی ہوا۔ جو انجانے میں کہا تھا، صرف چالیس برس ہوتے ہیں، دوسرا بھی انجام کو پہنچنے کے قریب ہے!
امریکہ 1990ء میں دنیا کی واحد "اکلوتی سپر پاور" بن چکا تھا، انسانی تاریخ میں اس سے طاقتور، دولت مند ترقی یافتہ، خوش حال ریاست کبھی وجود میں نہیں آئی تھی، ساری دنیا کے خزانے، جنگی سازو سامان، ٹیکنالوجی مل کر بھی اس کا عشیر نہ تھی، اس کے باوجود وہ 30تیس نیٹو ممالک کی افواج جس میں امریکہ کے علاوہ تین ایٹمی ملک بھی تھے، پوری دنیا کے سفارتی طائفے، اقوام متحدہ کا گیدڑ پروانہ چین، جاپان اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے نام پر دبائے ہوئے گیارہ کھرب ڈالروں میں سے تین کھرب ڈالروں کے صندوق لے کر خوفزدہ ہمسایوں کی گردنوں پر سوار ہو کر وہ صرف اسامہ بن لادن کا سر لینے افغانستان آیا تھا؟
1989ء میں سپر پاور روس کے بکھر جانے کے بعد، امریکہ کو کوئی چیلنج درپیش نہیں تھا، روس سمٹ کر خول میں بند ہو گیا، چین ابھی اتنا ترقی یافتہ تھا نہ غربت سے نکل پایا تھا، امریکہ نے ایک صدی کے بجائے اگلے ہزار سال تک عالمی اور واحد عالمی قوت ہونے اور رہنے کا اعلان کر دیا تھا۔ نیو ورلڈ آرڈر جاری کر دیا گیا تھا، سی آئی اے کے دانشور تہذیبوں کا تصادم لکھ کر مسلمانوں سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑوانے کی ترغیب دے رہے تھے، تاریخ کے خاتمے کا اعلان اوردنیا پر سرمایہ داری اور مغربی جمہوریت ہمیشہ کے لئے نافذ ہونے جا رہی تھی، ان حالات میں کیا ایک "اسامہ بن لادن" فرد واحد جس کے پاس کوئی وطن نہیں تھا، اپنے حقیقی ملک کی شہریت سے محروم ہوکر وہ افغانستان کی غاروں میں پناہ گزین تھا، چند ہزار یا زیادہ سے لاکھ دو لاکھ ڈالر کے عوض کرائے کے قاتلوں کا نشانہ بنایا جا سکتا تھا، سیٹلائٹ کیمروں کو فوکس کر کے ڈرون سے چلائے جانے والے میزائلوں سے مارا جا سکتا تھا۔ افغان حکومت چند ثبوتوں کے عوض اسے اقوام متحدہ یا کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنے کو تیار تھی مگر امریکہ نے مان کے کیوں نہ دیا؟ صاف ظاہر ہے دنیا پر دھاک بٹھانے کے لئے افغانستان پر قبضہ کرنا مقصود تھا، تاکہ وہ ایران سے اپنی ہزیمت اور بے عزتی کا بدلہ لے سکے۔ ایران کی اسلامی حکومت ختم کر کے رضا شاہ پہلوی کے بیٹے کو ایران کا بادشاہ مقررکرے، جو حامد کرزئی کی طرح امریکہ کی چاکری کیا کرے، پاکستان کو غیر مسلح کیا جائے، اس کے ایٹمی پروگرام پر قبضہ اور فوج میں تخفیف کی جائے، روس کے قبضے سے آزاد ہونے والی مسلم ریاستوں کے ہنر، وسائل، تیل، گیس اور معدنیات پر قبضہ کر کے مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں کی طرح انہیں دست نگر رکھا جائے، چین کے لئے اپنی حدوں سے باہر نکلنے کی راہیں مسدود کر دی جائیں، روس کو خول میں بند اور اقتصادی ناکہ بندی کر کے اسے بھی غیرمسلح ہونے پر مجبور کیا جائے۔ امریکہ کو افغانستان سے نکل جانے کا غم نہیں ہے، المیہ یہ ہے کہ اس نے ہزار سال تک عظیم ترین بنے رہنے، دنیا پر حکومت کرنے اور من مانی کے خواب بُنے تھے، وہ چکنا چور ہوئے اور کس کے ہاتھوں؟ خواب بکھر جانے کا غم، اس پہ مستزاد یہ کہ بے خانماں، خالی ہاتھ، ننگے پائوں، پھٹے کپڑوں میں ملبوس چند درویشوں نے دھول چٹا دی، ایسی رسوائی، شرمسار، شکست کائنات، ساری کائنات نے کبھی دیکھی نہ سنی۔
آج کل کرائے کے دانشور، نام نہاد تجزیہ کار، افواہ ساز اخبار نویس، چند باتیں تسلسل کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں، امریکہ نے افغانستان پر نظر رکھنے کے لئے پاکستان سے ہوائی اڈے، زمین اور فضائی گزرگاہیں مانگی ہیں۔ ہم انکار کریں گے تو امریکہ ناراض ہو گا، اس کی ناراضگی پاکستان کے لئے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے نکلتے ہی خوفناک خانہ جنگی چھڑ جائے گی، لامتناہی مدت کے لئے اس کے نتیجے میں مہاجرین کے ریلے پاکستان میں آ جائیں گے، جن کا سنبھلنا مشکل ہو گا۔ تیسرا نقطہ یہ بیان ہوتا ہے کہ پاکستان کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، غیر جانبداری کے ساتھ افغانستان سے دور رہے۔
مشرف نے آنے جانے کا رستہ ہی نہیں، قیام و طعام کی سہولت بھی دی اور چوری چھپے دو ہوائی اڈے بھی، ان ساری سہولتوں کے باوجود امریکہ نے طالبان کے ہاتھوں ذلت اٹھائی، شرم کے مارے منہ چھپائے، جان کی امان کا طلب گار بھاگ نکلنے کے لئے خوشامد، منت زاری کرتا ہے، موجودہ حکومت نے قیام و طعام اور آنے کی سہولتیں موقوف کر دی ہیں، بس جانے کی آسانی میسر ہے، بوریا بستر سمیت، صرف جانے پھر کبھی نہ آنے کی شرط پر اس سے زیادہ کا وہ طلب گار بھی نہیں۔ دوسرا نقطہ یہ ہے کہ امریکہ کے نکل جانے سے خانہ جنگی چھڑ جائے گی، کیا گزشتہ 41برس سے افغانستان میں خانہ جنگی نہیں ہو رہی، دونوں بڑی خانہ جنگوں افغانستان کے اندر ایک فریق کے ساتھ حملہ آور روس بھی تھا، دوسرا فریق حملہ آوروں کو نکال باہر کرنے کے لئے مصروف جہاد چنانچہ غداروں اور حملہ آوروں کو شکست ہوئی۔
امریکہ حملہ آور ہوا، تو غداروں کی وہی پرانی کھیپ اس کے ہم رکاوب ہو گی، شکست کھانے کے بعد امریکہ بھی روس کی طرح نکل بھاگا ہے، تو اس کی باقیات کا انجام ڈاکٹر نجیب اللہ سے کچھ جدا ہو گا؟ غدار اور وطن فروش آقا کے نکل جانے پر چند ہفتے بھی ٹھہر نہیں پائیں گے۔ رہ گیا تیسرا نقطہ یعنی غیر جانبداری تو کیا پاکستان کو حملہ آور اور حریت پسند کے درمیان غیر جانبدار رہنا چاہیے؟ غداروں اور وطن کے محافظوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے، پاکستان کو بدنام کرنے، ہمارے ملک میں تخریب کاری کرنے والے دہشت گردوں کے سرپرست اور پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت کی پراکسی اور اپنے دوستوں کے درمیان غیر جانبدار ہونا چاہیے؟