مظلوم ہیرو
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
محسنِ پاکستان کو قومی اعزاز کے ساتھ دفن کردیا گیا، پوری قوم پاکستان کے لیے اُن کی خدمات پر تحسین و آفریں پکار اٹھی، مگر ان منصوبوں کا ماتم کون کرے گا، جس سے انہیں روک دیا گیاتھا، اگر وہ منصوبے اپنی تکمیل کو پہنچ جاتے تو آج پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پہلی ملاقات 1985ء میں سینیٹر منتخب ہونے کے بعد ہوئی، معروف مصنف، کالم نویس اور ماہر تعلیم "ادیب جاودانی "نے اپنے ماہانہ رسالے "مون ڈائجسٹ " کے لیے راقم الحروف کا انٹرویو شائع کیا، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ کرکے اپنا "اسٹیٹس کنفرم "کرے، بصورت دیگر یہ خطرہ موجود ہے کہ ضیاء الحق کے بعد آنے والی حکومتیں ابہام کا فائدہ اٹھاکر امریکہ اور یورپ کے دباؤ پر ہمارے دفاع کے لیے ناگزیر پروگرام کو رول بیک کرسکتی ہیں۔ جن دنوں راقم نے یہ مطالبہ کیا، کسی سیاستدان نے اس موضوع پر شائد ہی لب کشائی کی ہو۔ اس انٹرویو کے شائع ہونے کے چند دنوں بعد ڈاکٹر خان کی طرف سے دعوت موصول ہوئی اور شام کی چائے پر ان سے ملاقات رہی۔
ان کے کوچے سے اک شام گزرا تھا میں
پھر یہی روزکا ماجرا بن گیا
ان دونوں روس افغانستان میں بری طرح پھنس چکا تھا، ضیاء الحق نے اپنی حکمت عملی سے ایک طرف روس کو افغانستان میں جکڑ لیا اور دوسری طرف امریکہ کو براہ راست افغانستان مجاہدین سے ملنے اور افغانستان میں مداخلت کی اجازت نہیں دی۔ مالی امداد ہو یا اسلحہ کی ترسیل، تربیت کا مسئلہ ہو یا مہاجرین کے مسائل۔ یہ سب پاکستان کی مایہ ناز خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ہاتھ میں تھا، روس کی مایوسی بڑھتی جارہی تھی، افغانستان کی خفیہ ایجنسی انڈیا کے تعاون اور پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو متحرک کرکے بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کررکھا تھا، اس میں پیپلز پارٹی کا مسلح گروہ "الذوالفقار" بھی شامل وشریک رہا۔ انہی دنوں ڈاکٹر خان نے مجھ سے کہا، روس متوقع شکست کے خوف سے پاکستان کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے، ہم اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم بنا کر اس کا "کولڈ ٹیسٹ "کرچکے ہیں مگر پاکستان کے پاس قابل اعتماد "ڈلیوری سسٹم "نہیں ہے، میں چاہتا ہوں کہ صدر ضیاء الحق ہمیں اجازت دے کہ ہم کم از کم "ماسکو "تک مار کرنے والا میزائل سسٹم بناسکیں تاکہ پاکستان کسی متوقع حملے سے بچنے کے لیے روس کو بروقت انتباہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ ہمارے پاس چند ہزار میل تک مار کرنے والے میزائل ہونگے تو ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل کی موجودگی میں کوئی آنکھ اٹھا نہیں دیکھ سکے گا۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ میں ضیاء الحق سے اس موضوع پر بات کرچکا ہوں مگر اس کی ہمیں اجازت نہیں دی گئی۔
جنرل ضیاء الحق صاحب کا کہنا ہے کہ بوقت ضرورت چین سے چند میزائل حاصل کرلیں گے لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے، کوئی ملک دوسرے کو ایٹمی ہتھیار اور میزائل فراہم نہیں کرسکتا، خواہ وہ اس کا کتنا ہی گہرا دوست کیوں نہ ہو۔ خطرناک اسلحہ دینے والے کو بھی جارحیت میں شریک خیال کیا جائے گا، چین پاکستان کی خاطر اپنی قومی سلامتی کو داؤ پر نہیں لگاسکتا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ ضیاء الحق سے بات کریں کہ اس وقت میرے پاس یہ صلاحیت ہے، وسائل اور تعلقات بھی کہ ہم پانچ سے دس ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل چھ سے آٹھ مہینوں میں تیار کرسکتے ہیں اور اس کے اخراجات فوج کے ایک بریگیڈ پر خرچ ہونے والی رقم سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ جبکہ اس کا خوف اور حملے سے بچنے کی صلاحیت لاکھوں کی افواج سے بھی زیادہ ہے۔ اس پیغام کی افادیت اور فوری ضرورت کے پیش نظر راقم نے ضیاء الحق کے برادری نسبتی ڈاکٹر بشارت الٰہی صاحب کو اعتماد میں لینا ضروری خیال کیا، انہیں ڈاکٹر خان کے بات چیت، پروگرام اور اخراجات کی تفصیل لکھ کر دی مگر ضیاء الحق اس پروگرام سے متفق ہونے کے باوجود فوری طور پر اسے شروع کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
پرویز مشرف کے دباؤ پر ناکردہ گناہوں کا اعتراف پاکستان کیلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک اور احسان ہے جس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا، یہ احسان ایٹم بم کی تخلیق سے کم نہیں۔ وہ بوجھ جو حکومت پاکستان اور پوری قوم کے اٹھانے کا تھا وہ ڈاکٹر خان نے تنہا اپنے سر لے لیا، اس کی تفصیل تو شائد ممکن نہ ہو مگر اجمالاً ذکر آئندہ پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر خان نے پاکستان آنے کے بعد اپنی ساری عمر ایک طرح سے قید میں بسر کی، یہ الگ بات کہ شروع زمانے میں ان کی قید رضاکارانہ تھی اور بعد میں انہیں قیدی رہنے پر مجبور کردیا گیا، یہ زمانہ بڑا تلخ اور مشکلات سے بھرا ہوا ہے، وہ جس جذبے کے ساتھ پاکستان میں آئے، پاکستان کی1988ء کے بعد کی قیادت نے ان کی کوئی قدر نہ کی اور ان کے احسانات کو الزامات میں بدل دیا۔ اس کی تفصیلات آئندہ کالم میں لکھی جائیں گی۔
ضیاء الحق کی شہادت کے چند دن بعد ستارہ شناس پروفیسر غنی سے"چکوال"میں ملاقات ہوئی، انہیں نام بتائے بغیر راقم نے دو تاریخ پیدائش لکھوائی، ان میں سے ایک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تھی اور دوسری اعجاز الحق کی۔ مگر پروفیسر کو ان کے نام نہیں بتائے گئے تھے۔ اس نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے تاریخ پیدائش پر غور کرنے کے بعد کہا، اس شخص نے کوئی ایسی ایجاد کی ہے کہ پوری دنیا میں اس کی شہرت پھیل گئی ہے مگر اس شہرت اور نیک نامی کے باوجود یہ قید میں ہیں۔ اس کی یہ قید جبری نہیں، رضاکارانہ ہے، اور یہ ایسی ہی ایک اور ایجاد کرے گا، جس سے اس کی شہرت بلندیوں پر ہوگی مگر اس کے حاسد اور دشمن بھی بے شمار ہیں، اسے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ناکردہ گناہوں کی بدنامی اٹھانا ہوگی۔ اس کی ایجادات پر نظر ڈالوں تو یوں لگتا ہے کہ یہ کوئی سائنس دان ہے اور اس نے فی الواقع کوئی ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ اس کے دوست بے شمار اور دشمن بھی کچھ کم نہیں۔
پاکستان کی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کی داد دیئے بنا نہیں رہ سکتے کہ مسلم دنیا میں مصر، عراق، ایران سمیت جس ملک نے جدید ٹیکنالوجی خصوصاً ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کی اس کے سائنس دانوں کو چن چن کر قتل کردیا گیا اور ان کی تنصیبات کو براہ راست بمباری سے تباہ کیا گیا لیکن پاکستان سائنس دانوں، انجینئروں اور دفاعی تنصیبات کی حفاظت میں پاکستان کا کردار شاندار اور بے داغ ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھیوں کی زندگیاں برسہا برس تک خطرے میں تھیں، ان کے اغواء اور قتل کے لیے کیا کیا سازشیں اور منصوبے نہیں بنائے گئے لیکن ہمارے اداروں نے دشمنوں کے ارادے خاک میں ملادئیے، کہوٹہ پر حملے کی متعدد بار منصوبہ بندی کی گئی اور اس میں اسرائیل اور بھارت آلہ کار تھے اور امریکہ منصوبہ ساز۔ امریکہ کی انہیں ساری اطلاعات اور معلومات فراہم کرتا رہا، ہر بار پاکستان کی دفاعی اور جوابی تیاروں کو دیکھ کر خود ہی انہیں حملہ آور ہونے سے منع کیا کرتا تھا، وہ جانتا تھا کہ پاکستان کا جوابی وار اس قدر جلد، بروقت اور تباہ کن ہوگا کہ انڈیا اور اسرائیل دونوں اپنے اثاثہ جات کے ساتھ، شائد سلامتی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔