حضرت بلال رضی اللہ عنہ
کتاب حضرت بلال ؓ کے مصنف "ایچ اے ایل کریگ" یورپی مصنف ہیں، جو 1921ء آئرلینڈ میں پیدا ہوئے، 1978ء پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوکر اٹلی میں وفات پائی۔ اسی مصنف نے میسج (Message)اور لائن آف ڈیزرٹ (Lion of the Deseret)جیسی غیر معمولی فلموں کی کہانی بھی تصنیف کی، مصنف اسلام کے پیغام سے متاثر ہیں، گو وہ مسلمان نہ تھے لیکن انہوں نے مذہبی تعصب سے بلند ہوکر مسلم ہیروز کی زندگی کو یورپ میں متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا، حضرت بلال ؓ پر ان کی لکھی مختصر کتاب ان کی بہترین تصنیف خیال کی جاتی ہے، سجاد باقر رضوی نے اس کتاب کو اردو کے قالب میں ڈھالا، ایسا شاندار رواں ترجمہ جس میں مصنف کے جذبے اور اسلوب کو اسی طرح اردو میں منتقل کیا گیا جیسا کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔ اردو قارئین یقینا مصنف اور مترجم دونوں کے ممنون ہیں، اس کتاب میں مصنف نے اسلام کے زمانہ اول کی تاریخ حضرت بلال ؓ کی زبانی بیان کی ہے۔ مذکورہ کتاب کا مطالعہ فلم میسج اور لائن آف ڈیزرٹ اس کی ناقابل تردید شہادت بن کر ہمارے سامنے اب اس غیرمعمولی تصنیف کے آخری باب سے مستفید ہوں:حضرت محمد ؐکی رحلت پر حضرت بلال ؓ کا بیان:
خدا نے اپنے آخری نبی ؐ کی روح کو نہایت مہربانی سے واپس بلالیا، 8جون 632ء کے سہ پہر کو محبتوں کے درمیان انہوں نے رحلت فرمائی، عورتیں گریہ کناں، مرد سناٹے میں تھے، کہا جاتا ہے کہ جب موت کا فرشتہ آیا تو اس نے عاجزانہ یہ دریافت کیا کہ کیا آپ ؐ تیار ہیں؟
گو انسان ایک ساتھ جنگوں میں، وباؤں میں، جہازوں کے ڈوبنے میں وفات پاجائے لیکن ہر شخص کی موت اس کے لیے انفرادی ہوتی ہے، کوئی شخص دوسرے شخص کی موت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ محض اس کے واقعات بیان کرسکتا ہے، جیسا کہ میں ابھی آپ کے سامنے محمد ؐ کی رحلت کے واقعات بیان کروں گا۔
یہ رحلت نہ اچانک تھی نہ اس کے برعکس، نہ شدید تھی نہ آسان، نہ عام تھی نہ خاص، لیکن یہ رحلت ایک ایسے انسان کی تھی جو پیغمبر ؐ تھا، جنت میں روشن ایک چراغ جو خدائی ہاتھوں نے بجھادیا، لہٰذا یہ غیر متوقع تھی۔
میں نے حسب معمول آپ ؐ کو جگایا، آپ ؐ حسب معمول باہر آئے لیکن ذرا آہستگی کے ساتھ، آپ ؐنے سردرد کی شکایت کی اور مجھ سے پیشانی پر ہاتھ رکھنے کو کہا، میں نے ہاتھ رکھا اور بخار محسوس کیا، میں نے آپ ؐ کو دوبارہ لیٹ جانے کا مشورہ دیا، مگر آپ ؐ نے مسجد جانے پر اصرار کیا، جاتے ہوئے آپ ؐ نے اپنے بازو میرے بازو میں دے دیئے کیونکہ آپؐ آسانی سے چل نہ سکتے تھے، میں نے آپؐ کو قریب ہوکر تھام لیا، یکایک آپ ؐ رک گئے، تمہیں یاد ہے بلالؓ!جب ہم پہلی بار ملے تھے، ہم اسی طرح چل رہے تھے مگر تب میں نے تمہیں تھاما ہوا تھا، آپ ؐ ہنسنے لگے، میں بھی ہنسنے لگا۔ یہ 22سال پہلے کی بات ہے، میں نے کہا، کل کی، کل کی۔ آپ ؐ نے جواب دیا، یہ آخری خوشی کا دن تھا جو ہم نے ساتھ گزارا، اس دن اور اس کے بعد کے دنوں میں میں نے دیکھا کہ آپ ؐ کا بخار بڑھتا جارہا ہے، لیکن اب بھی آپ ؐ اٹھ جاتے گو آپؐ کی آواز کمزور ہوگئی تھی اور آپ ؐ کے ہاتھ کانپنے لگے تھے، پھرآپؐ نماز پڑھاتے تھے۔
پانچویں دن عائشہ ؓ نے دروازہ کھولا، ان کا چہرہ پریشان تھا، ان کے پیچھے محمد ؐ کے کراہنے اور لمبی لمبی سانس لینے کی آواز آرہی تھی، انہوں نے مجھے ڈول تھمائی اور ٹھنڈا پانی لانے کو کہا، میں دوڑنے لگا، دوڑتا چلا گیا، بہت سے کنوؤں سے گزر کر نخلستان کے گہرے اور ٹھنڈے کنویں پر گیا مجھے ڈول کی پانی کی چھت سے گرنے کی آواز اب بھی سنائی دیتی ہے، وہ پانی جو بخار کی آگ سے لڑنے کو تھا لیکن میرے پاس محض اتنا ہی وقت تھا کہ پانی کے ڈول کو دروازے تک پہنچادوں۔ دن چڑھا آرہا تھا اور مجھے اپنی ذمہ داری پوری کرنا تھی، میں جانتا تھا کہ اگر آپؐ نے صبح کی آذان نہ سنی تو میں آپ ؐ کی روح پر ایسا بوجھ ڈال دوں گا، جو آپ ؐ کی جسمانی اذیت سے زیادہ ہوگا۔ جب میں اذان دے چکا تو پھر دروازے پر گیا، حضرت عائشہ ؓنے دروازہ کھولا، اب ان کے بالوں میں کنگھی ہوچکی تھی، وہ سلیقے سے بنے تھے، یہ اس بات کی نشانی تھی کہ حالات درست ہے، آپ ؐ نے مجھ سے تمہیں یہ بتانے کو کہا ہے، عائشہؓ نے کہاکہ تم نے ایسی اچھی اذان کبھی نہیں دی، لہٰذا اگر آپ ؐ بستر علالت پر میری اس اذان کو بہترین اذان کہا تو وہ یقینا تھی۔
آٹھویں صبح یک بہ یک تبدیلی واقع ہوئی، آپ ؐ نے خود دروازہ کھولا اور باہر تشریف لائے، آپ ؐ کے سر پر ایک سفید پٹی بندھی ہوئی تھی، ایک ہاتھ حضرت علیؓ کے شانوں پر اور دوسرا اپنے چچا زاد بھائی حضرت فضل بن عباسؓ کے شانوں پر رکھ کر آپ ؐ مسجد تک گئے اور احد کی شہیدوں کے لیے دعا کی لیکن آپؐ کے قدم آہستگی سے اور تکلیف سے پڑ رہے تھے، مجھ سے دیکھا نہ گیا میں بھی ایک سابق غلام ہوں، آپ ؐ کے چہرے پر موت کی کیفیات دیکھ سکتا تھا، پس شاید یہ بات جو بہت سے لوگ کہتے ہیں سچ ہے کہ ملک الموت تین دن تک آپ ؐ کے پاس آتے اور لوٹ کر چلے جاتے۔ جب آپؐ گھر واپس آئے تو عائشہ ؓ سے پوچھا گھر میں کتنی رقم ہے؟ اور گننے میں مطلق دیر نہ ہوئی، کل سات دینا ر تھے، آج رات انہیں حاجت مندوں کو دیدو، آپ ؐ نے کہا اپنے پاس رقم رکھ کر میں خدا سے کیسے ملاقات کروں گا۔ ایک بار پھر آپؐ مسجد میں تشریف لائے اور یہ آخری موقع تھا جب میں نے آپ ؐ کو دیکھا، آپ ؐ کی زندگی کے اب محض چند گھنٹے ہی باقی تھے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موت کی علامات آپؐ کے چہرے سے غائب تھیں، اورمیں نے آپ ؐ کو اتنا خوبصورت پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ آپ ؐ کا چہرہ عبادت کی شادمانی سے جگمگارہاتھا، اور آپ بڑی نرمی سے بول رہے تھے، ہر اُس شخص سے معافی کے خواستگار تھے جسے آپ ؐکی ذات سے تکلیف پہنچی ہوں۔ آپ ؐ نے ہر شخص کو نصیحت کی کہ قرآن سے محبت کروکہ وہ خدا کا کلام ہے اور رہنمائی کی روشن کتاب، اور فرمایا میں تم لوگوں سے پہلے جارہا ہوں لیکن یہ یاد رکھنا کہ تمہیں بھی میرے بعد آناہے۔
جب آپؐ کی طاقت بالکل جواب دے گئی تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ ؐ کو یہ کہتے سنا، اے خدا! حشر میں مجھے غریبوں کے ساتھ اٹھانا، اس کے بعد کچھ اور الفاظ بھی تھے لیکن انہیں سنا نہیں گیا یا کوئی سن نہ سکا یا پھر وہ انسانی سماعت کے لیے نہیں تھے، اس لیے کہ آپؐ خدا سے مخاطب تھے۔
یک بہ یک رسول اللہ ؐ نے اپنا سر اٹھایا، چھت کو غور سے دیکھا، آپ ؐ نے وہ کچھ دیکھا جو صرف آپ ؐ ہی دیکھ سکتے تھے، پھر الفاظ ادا کیے "عظیم ساتھی" (اللھم الرفیق الاعلی) جب ہم نے عائشہ ؓ کو گریہ کرتے سنا تو ہم سمجھ گئے کہ محمد ؐ وفات فرماگئے۔ زندگی اور اس کی یادیں آدمی کا یہی درجہ کمال ہے اگر کوئی شخص مجھے یاد کرتا ہے تو اسے میرے دوستوں کے حوالے سے یاد کرنا چاہیے، اگر کوئی میرے بارے میں پوچھے تو اسے کہہ دیجیے کہ بلالؓان لوگوں کا ساتھی، میں اس گروہ میں سے ایک تھا جس نے زما نہ کمال دیکھا، وہ زمانہ جب پیغمبر خداؐ تھے، ہمارے چمک دار دن اب کسی کو میسر نہیں ہوں گے، تاہم ہر شخص ان کی شہادتوں سے مستفید ہوسکتا ہے۔
شاید باغِ جناں میں میں ایک بار پھر ابوذر ؓ کے ساتھ سیر کروں گا اور پھر انہیں یہ کہتے سنوں گا کہ دنیا کی ساری خرابیوں کی جڑ ملکیت ہے، کسی کو اپنی ضرورت سے زیادہ نہیں رکھنا چاہیے، اور یہ کہ محمد ؐ کے پاس محض دو کُرتے تھے، ایک پہننے کے لیے اور ایک دھونے کے لیے۔ خدا نے محمد ؐ کو انسانیت کے لیے رحمت بناکر بھیجا تھا اور وہ ایسے پیغمبر تھے جو دوسروں کی زبان سے سننا بہت پسند کرتے تھے۔