پارلیمنٹ کی بے توقیری
صدر مملکت نے پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہونے کے دوران بیک وقت 8 آرڈیننس جاری کر دیے ہیں جن میں بے نامی جائیداد اور نیب ترمیمی قانون سمیت دیگر چھ آرڈیننس شامل ہیں۔ حکومت کی لاپروائی کی حد تو یہ ہے کہ حکومت نے آزادی مارچ اور اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اپوزیشن کے جلسے کے موقع پر بھی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنا ضروری نہ سمجھا جب کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اس موقع پر پارلیمنٹ کی اہمیت تسلیم کرکے اجلاس جاری رکھا تھا۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے واضح طور پرکہا تھا کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے کیے جانے چاہئیں۔ انھوں نے فواد چوہدری کی نااہلی سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ عدلیہ کا بطور ادارہ سیاسی معاملات میں پڑنا درست نہیں ہے۔ عدالت کو مطمئن کیا جائے کہ عدالت سیاسی معاملات میں کیوں مداخلت کرے۔ سیاسی معاملات سیاسی فورمز پر ہی حل ہونے چاہئیں کیونکہ وہی اس کا بہترین فورم ہوتا ہے۔
پارلیمنٹ پاکستان کے دو ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور موجودہ پارلیمنٹ میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں، البتہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد دونوں ایوانوں میں زیادہ ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، بی این پی مینگل، جی ڈی اے اور بعض ارکان کی حمایت کے باعث ہے، مگر اس کے باوجود حکومت آرڈیننس جاری کرا کر اپنا کام چلا رہی ہے کیونکہ اکثریت کا دعویٰ کرنے والی اس حکومت کو شاید یہ خوف ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے اپنی مرضی کے فیصلے نہیں لے سکتی۔
قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی واحد پارٹی ہے جس کی 6 قومی نشستیں ہیں اور بی این پی واحد حکومتی حلیف ہے جس سے دیگر حکومتی حلیفوں کی طرح وفاقی حکومت میں کوئی وزارت نہیں لی تھی وہ حکومت کی حمایت توکر رہی ہے مگر قومی اسمبلی میں معمولی برتری کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کو خدشہ رہتا ہے کہ کوئی اہم بل پیش کرنے پر بی این پی ساتھ نہ دے اور حکومت کو شکست نہ ہوجائے۔
ایوان بالا سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں۔ جے یو آئی، اے این پی ودیگر اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں جو تحریک اعتماد کے موقع پر 63 ممبران سینیٹ کی اپنی اکثریت شو کرچکے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے جس نے اپنے صوبائی اقتدار کے لیے عمران خان کو وزیر اعظم بنوایا تھا جب کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا جب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے کسی غیر سیاسی دباؤ پر انتخاب کرایا تھا اس وقت بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ کے خلاف وہی منصوبہ دہرایا گیا تھا جب صدر غلام اسحق کی سرپرستی میں پنجاب میں مسلم لیگی حکومت کی موجودگی میں راتوں رات منصوبہ بندی کے تحت اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ذریعے ارکان (ن) لیگ کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئی تھیں اور منظور وٹو نئے وزیر اعلیٰ بنوائے گئے تھے۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پی ٹی آئی سے زیادہ پیپلز پارٹی کا کردار تھا مگر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت بننے کے بعد انھوں نے پیپلز پارٹی کو بھلا دیا تھا اور حکومت کے ہوگئے تھے۔ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں وفاقی حکومت نے اپنی خفیہ طاقت استعمال کرکے انھیں بچا تو لیا تھا مگر سینیٹ کی یہ کارروائی دنیا نے دیکھی تھی کہ اپوزیشن کے 63 ارکان نے کھڑے ہوکر تحریک عدم اعتماد کی کھلے عام حمایت کی تھی مگر خفیہ سرکاری ہاتھ کے کرشمے کی وجہ سے خفیہ ووٹنگ میں کھلے عام دیکھے جانے والے 63 ووٹ 50 میں ظاہر ہوئے تھے جب کہ حکومتی حلیفوں کے صرف 37 ووٹ نکلے تھے۔ پارلیمنٹ کی اس سے زیادہ "نیک نامی" کیا ہوگی کہ چیئرمین سینیٹ اقلیت کے باوجود برقرار ہیں اور ان کے خلاف اپوزیشن واضح اکثریت رکھتی ہے۔ قومی اسمبلی کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں جہاں ارکان قومی اسمبلی آنا ہی پسند نہیں کرتے۔
حکومت نے اپوزیشن کے اہم رہنماؤں جو قومی اسمبلی کے ممبر ہیں کو جیل میں قید کرا رکھا ہے اور پروڈکشن آرڈر کی ایک اچھی رعایت وزیر توانائی عمر ایوب کے مسلم لیگی والد اور (ن) لیگ کے اسپیکر گوہر ایوب نے ڈالی تھی وہ وزیر اعظم نے ختم کرادی تھی اور پی ٹی آئی کے اسپیکر قومی اسمبلی قید ارکان کو ایوان میں بلوانے کے لیے اپنا اختیار استعمال نہیں کر رہے۔ اپوزیشن کے ارکان نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوکر حکومتی قید میں ہیں۔ وہ نیب نے ملزم ضرور بنائے تھے مگر کسی عدالت نے انھیں ابھی تک مجرم قرار نہیں دیا کہ انھیں ایوان میں نہ لایا جائے اور انھیں اپنے حلقے کی نمایندگی سے روکا جائے۔
حکومت انجانے خوف سے قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلا رہی اور صدر مملکت کے اختیار کو آرڈیننس فیکٹری میں تبدیل کرادیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے صدر مملکت 14 ماہ میں 18 آرڈیننس جاری کرچکے ہیں جو حکومت کے مفاد میں جاری ہوئے۔ حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ جو من مانے فیصلے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کرائے گئے ہیں وہ پارلیمنٹ کے ذریعے حاصل نہیں کیے جا سکتے تھے، اس لیے صدارتی اختیار استعمال کرایا گیا ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہے جہاں صدر مملکت کے اختیار محدود مگر وزیر اعظم بااختیار ہیں اور پارلیمانی حکومتوں میں قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ سے فیصلے کرائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 89 کی شق اے کے مطابق اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس نہ چل رہے ہوں اور صدر مملکت مطمئن ہوں تو حکومت کے کہنے پر آرڈیننس جاری کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ حالات اس کے متقاضی ہوں تو حالات کے مطابق آرڈیننس جاری کیا جاسکتا ہے جو 120 دن کے لیے موثر ہوسکتا ہے اور مقررہ مدت میں اس کی پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہے جو اگر نہ ہو تو 120 دن کے بعد آرڈیننس غیر موثر ہو جاتا ہے اور دوبارہ جاری نہیں کیا جاسکتا جب کہ پہلے ایسی پابندی نہیں تھی۔
پی ٹی آئی حکومت اس صدارتی اختیار کو اپنے مفاد اور ضرورت کے لیے استعمال کر رہی ہے اور اپوزیشن پر مزید پابندیاں لگا کر اپنی سیاسی ضرورت پوری تو کر رہی ہے مگر آرڈیننسوں کے اس طرح بے دردی کے اجرا سے پارلیمنٹ کی جو بے توقیری ہو رہی ہے اور جمہوریت کا جو مذاق اڑ رہا ہے اس کی حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے۔ صدارتی آرڈیننسوں کا بے دریغ اجرا جنرل پرویز مشرف کے دور میں ضرور ہوا تھا جو آمرانہ دور تھا مگر اب جمہوریت کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو آرڈیننس فیکٹری سے دھڑا دھڑ آرڈیننس کیوں جاری ہو رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کیوں نہیں کرائی جا رہی؟