الگ الگ اور بے مقصد بلدیاتی نظام
اس وقت سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے، جہاں عوام کے منتخب بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہیں، جن کی مدت بھی جلد مکمل ہونے والی ہے۔ سندھ میں بلدیاتی ادارے برقرار رہنے کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمینوں اورکونسلروں کی واضح اکثریت ہے۔
جن کا تعلق دیہی سندھ سے ہے اور شہری علاقوں میں اکثریت ایم کیو ایم کی ہے جب کہ فنکشنل لیگ اور پی ٹی آئی کے پاس برائے نام بلدیاتی نشستیں ہیں اور سندھ بھر میں ضلع کونسل کی ایک بھی چیئرمین شپ ان کے پاس نہیں، البتہ چند یونین کونسلوں کی سربراہی انھیں ضرور مل گئی تھی۔ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کراچی اور بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کی میئر شپ ایم کیو ایم اور سکھر و لاڑکانہ کی بلدیہ اعلیٰ کی میئر شپ پیپلز پارٹی کے پاس ہیں۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں چار ڈی ایم سیز ایم کیو ایم، دو ڈی ایم سی اور ضلع کونسل کراچی کی سربراہی پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور سندھ میں پی پی کی واضح اکثریت کی وجہ سے ہی سندھ حکومت نے بلدیاتی ادارے نہیں توڑے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی اور بلدیہ عظمیٰ لاہور کا ملک کا واحد لارڈ میئر مبشر جاوید کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ سوا سال قبل پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی بلدیاتی اداروں کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کی۔
پہلے بلدیاتی عہدیداروں کے اختیارات سلب کیے، انھیں ترقیاتی کام کرانے سے بھی روک دیا اور بعد میں آئینی مدت پوری ہوئے بغیر پنجاب حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے منتخب بلدیاتی عہدیداروں سے جان چھڑانے کے لیے بلدیاتی ادارے توڑ کر وہاں سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقررکر دیے تھے جس کے خلاف معزول چیئرمین اور میئر پنجاب ہائی کورٹ انصاف لینے گئے مگر کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی درخواستوں پر نہ حکم امتناعی ملا نہ کوئی فیصلہ آیا۔
بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں دیگر صوبوں کی طرح سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر (تقریباً) ہوئے تھے کیونکہ وہاں سیاسی جماعتوں کا اثر و رسوخ کم اور محدود ہے اور قبائلی اور سرداری نظام زیادہ با اثر اور موثر ہے اور بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب شخصی بنیاد پر ہوا تھا۔ اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی نہیں بنی تھی اور حکومت میں آتے ہی بی اے پی نے بلدیاتی اداروں کو توڑ دیا تھا۔ بلوچستان میں ایک سال بعد بلدیاتی عہدیداروں کا انتخاب ہوا تھا مگر انھیں اپنی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی۔
کے پی کے میں 2013 میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تھی جس نے اپنی مرضی کا مگر دوسرے صوبوں سے کچھ بہتر بلدیاتی نظام دیا تھا اور صوبے میں بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی نے پنجاب کی طرح واضح برتری حاصل نہیں کی تھی اور متعدد اضلاع اور بلدیاتی اداروں کی سربراہی مسلم لیگ (ن)، اے این پی، جے یو آئی، پیپلز پارٹی و دیگر کے پاس بھی تھی، اس لیے کے پی کے حکومت نے بلدیاتی اداروں کو مدت پوری کرنے دی اور اب وہاں بھی سرکاری ایڈمنسٹریٹر بلدیاتی ادارے چلا رہے ہیں۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان حکومتوں نے 1979 کے جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظام سے ملتا جلتا بلدیاتی نظام دے کر اور جنرل پرویز مشرف کا بااختیار ضلعی نظام ختم کرکے کرائے تھے اور چاروں صوبوں میں کمشنری نظام بحال کرکے بلدیاتی اداروں پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر مسلط کر دیے گئے تھے اور بلدیاتی اداروں کو محدود اختیارات دیے گئے تھے اور وہ صوبائی حکومتوں کے ماتحت اور محتاج تھے۔
جنرل پرویز مشرف ملک کے واحد حکمران تھے جنھوں نے ملک کو پہلی بار ایک با اختیار بلدیاتی نظام دیا تھا اور بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کو پہلی بار انتظامی اور مالی اختیارات دینے کے ساتھ کمشنری نظام ختم کرکے بیوروکریٹس کو منتخب ناظمین کے ماتحت کیا تھا۔ یہ انقلابی اقدام کسی بھی سیاسی حکومت کو کرنا چاہیے تھا جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آتی ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سیاسی حکومتیں ہمیشہ منتخب بلدیاتی اداروں کے خلاف رہی ہیں اور ملک کو منتخب بلدیاتی نظام آمر کہلانے والے جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے دیے اور پی ٹی آئی سمیت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں کبھی یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ دنیا کی طرح اس ملک کو بھی عوام کی حکمرانی کا با اختیار نظام دیتے۔ ضلعی حکومتوں کے نظام کو ختم کرنے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) برابر کی شریک جرم ہیں۔ جنھوں نے ملک کو پہلی بار ملے ہوئے بااختیار بلدیاتی نظام کو ختم کرکے 2008 میں جنرل ضیا الحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام میں ملک بھر میں ایک ہی جیسی ضلعی حکومتیں وجود میں آئی تھیں اور ملک بھر میں منتخب ناظمین کو ایک جیسے اختیارات حاصل تھے مگر اب چاروں صوبوں میں بلدیاتی نظام مختلف اور عوام کے منتخب بلدیاتی عہدیدار بے اختیار، صوبائی حکومتوں کے محکوم اور برائے نام اختیارات کے حامل اور بیورو کریسی کے محتاج اور رحم و کرم پر ہیں۔
دنیا بھر میں تین سطح پر وفاقی یا مرکزی، صوبائی اور شہری حکومتیں ہوتی ہیں، ترقی یافتہ ملکوں میں تو پولیس بھی میئروں کے ماتحت ہوتی ہے اور منتخب بلدیاتی عہدیدار عوام کے بنیادی مسائل حل کرانے کے لیے مکمل بااختیار ہوتے ہیں مگر پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی نظام صوبوں کو دے دیا گیا ہے جب کہ جنرل پرویز مشرف کا ضلعی نظام صوبائی حکومتوں کے ماتحت نہیں تھا اور ایک وفاقی ادارے کے ماتحت مگر اس کا محتاج نہیں بلکہ با اختیار تھا۔
جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف کے نظام میں بلدیاتی عہدیدار ان کی تقریبات کا بائیکاٹ کر دیا کرتے تھے مگر موجودہ بلدیاتی نظام میں بلدیاتی عہدیدار ڈپٹی کمشنر کے طلب کردہ اجلاس کے بائیکاٹ کی جرأت نہیں کرسکتا۔
ارکان اسمبلی بلدیاتی عوامی نمایندوں کے خلاف رہے ہیں اور ہر سیاسی حکومت انھیں ترقیاتی کام کرانے کے نام پر رشوت دیتی ہے جو سراسر غیر آئینی ہے کیونکہ تعمیری وترقیاتی کاموں کا آئینی اختیار ارکان اسمبلی نہیں بلکہ منتخب عہدیداروں کا ہے جو انھیں کرنے نہیں دیا جاتا اور ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لیے بلدیاتی انتخابات کرائے تھے مگر ان کے بعد بلدیاتی عہدیداروں کو آئینی اختیار بھی نہیں ملے اور ملک بھر میں ایک جیسا بلدیاتی نظام نہیں جب کہ ہر صوبے میں بلدیاتی نظام الگ الگ اور بے اختیار ہے۔ ملک میں پہلی بار وفاقی وزارت بلدیات موجود نہیں ہے اور ہر صوبے میں بااختیار وزیر بلدیات موجود ہیں جو اپنے اپنے صوبوں کے بلدیاتی اداروں کے بااختیار اور حقیقی سربراہ ہیں جو منتخب چیئرمینوں کو اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کے کراچی سے منتخب میئر کی یہ حیثیت ہے کہ سندھ حکومت نے اپنے مکمل کرائے گئے چھ ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب تک میں مدعو کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا اور اب پہلی بار انھیں وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر سندھ حکومت کے مکمل ہونے والے ساتویں ترقیاتی منصوبے شہید ملت انڈر پاس کی افتتاحی تقریب میں انھیں مدعو جس پر میئر کراچی نے خصوصی طور پر وزیر اعلیٰ کا شکریہ ادا کیا۔
سندھ میں بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہونے والی ہے جس کے بعد سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کو بلدیاتی اداروں پر مسلط کردیا جائے گا جو عوام کی نہیں سندھ حکومت کی نمایندگی کریں گے اور مرضی کی تقرریاں حاصل کریں گے۔
پنجاب حکومت نے (ن) لیگ سے انتقام کے لیے صوبے کے منتخب بلدیاتی سربراہوں کو غیر قانونی طور پر ہٹایا تھا جس کے خلاف عدلیہ سے رجوع کیا گیا تھا، یہ اہم مسئلہ سماعت کا منتظر ہے جب کہ یہ ایک اہم عوامی معاملہ تھا کیونکہ عوام کے منتخب نمایندوں کو قبل ازوقت ہٹایا گیا تھا مگر عوام کی سنتا کون ہے؟