وہ شے لائو جس کی منڈی میں ڈیمانڈ ہے
میں اور شوکت ایک ہی گائوں کے تھے۔
اکٹھے گلیوں میں کھیلے۔ کھیتوں میں تتلیاں پکڑیں۔ مقامی پرائمری سکول سے دونوں نے ایک ساتھ پانچویں جماعت پاس کیزمانے کی گردش بھی عجیب ہے۔ آج ہم دونوں ایک ہی شہر میں رہ رہے ہیں۔ مگر باہمی رشتہ گائوں والا نہیں! وہ برابری کا رشتہ تھا۔ آج حالات مختلف ہیں۔ شوکت ایک کامیاب بزنس مین ثابت ہوا۔ میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ پھر معاشی جبر تلے پستا، اس سے گاہے بگاہے قرض لیتا رہا، مکان بنایا تو اس نے مدد کی بچوں کی شادیوں پر اس سے ادھار مانگا۔
برابری سے چلا ہوا یہ رشتہ اب عجیب و غریب شکل اختیار کر چکا ہے۔ ملنے جائوں تو باہر کھڑے کھڑے ملتا ہے۔ سماجی تقاریب میں، جو اس کے گھر منعقد ہوتی ہیں۔ مجھے کبھی نہیں دعوت دی جاتی! اپنے کسی بچے کی شادی پر شوکت نے مجھے نہیں بلایا۔ یہ ہے معاملہ پاکستان اور یو اے ای کا!
برابری کے تعلقات کیسے قائم ہو سکتے ہیں؟ کہاں پاکستان کی دریوزہ گری! کہاں یو اے ای کی بخشیش!! جس ملک کے وزیر اعظم اور درجنوں وزراء اور عمائدین اقامے کی خاطر ویلڈر، الیکٹریشن، ڈرائیور، کلرک اور چپراسی بن کر یو اے ای میں مزدوری کر رہے ہوں۔ اس ملک کو یو اے ای برابری کی سطح پر کس طرح رکھ سکتا ہے؟
یو اے ای کو معلوم ہے کہ پاکستان کے سابق صدر اور سابق وزیر اعظم یو اے ای کے محتاج ہیں۔ پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت سے وہاں کارخانے لگائے گئے۔ سابق صدر کا دوسرا (یا پہلا؟) گھر ہی دبئی میں ہے۔ ایک عشرے تک گورنری میں داد عیش دینے والے عشرت العباد نے بچوں کی شادیاں وہیں کیں۔ جس ملک کے حکمران عملاً یو اے ای کے شہری ہوں اور اپنے ملک میں اپنی دولت نہ رکھتے ہوں وہ ملک پاکستان کو کیسے برابری کی سطح پر رکھ سکتا ہے؟
پاکستان یو اے ای کے سامنے کب کورنش بجا نہیں لایا؟ معدوم ہوتے پرندوں کا شکار۔ جو خود پاکستانیوں کے لئے ممنوع ہے۔ یو اے ای کے شہزادوں کے لئے ہمیشہ دستیاب رہا! ہماری وزارت خارجہ ان شہزادوں کے لئے کنیز کا کام کرتی رہی! کشکول میں کبھی انہوں نے کوئی ایئر پور ٹ ڈال دیا کبھی صحرا کے درمیان کوئی سڑک پکی کرا دی۔ ان کی خدمت کے لئے عزتیں تک گروی رکھی گئیں! سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟
دوسری طرف بھارت ہے! کسی ملک کے حکمران کی خاطر بھارت نے اپنے کسی قانون میں کبھی لچک نہیں دکھائی۔ اس کے حکمرانوں کی جیبوں سے یو اے ای کے اقامے کبھی نہیں نکلے۔ بھارت کا کوئی سابق صدر کوئی عشرت العباد دبئی میں مقیم نہیں! سونیا گاندھی کا کوئی محل، دبئی میں بے نظیر بھٹو کے محل کے ساتھ نہیں کھڑا ملتا! بھارت نے کبھی مفت تیل کی بھیک مانگی نہ بیل آئوٹ ہونے کے لئے منت زاری کی!
یو اے ای کی بڑی بڑی کمپنیاں بھارتی چلا رہے ہیں۔ ڈینیوب گروپ، این ایم سی ہیلتھ کیئر، آسٹر ڈی ایم ہیلتھ کیئر، جویا گروپ ان میں سے صرف چند ہیں! روزنامہ گلف نیوز کے مطابق 2018ء کے دوران بھارت اور یواے ای کی تجارت کاحجم 36ارب ڈالر رہا!(اس میں تیل کی خریدو فروخت شامل نہیں) اس وقت یواے ای میں 4365بھارتی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ 238کمرشل کمپنیاں ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں بھارت نمایاں کردار نہ ادا کر رہا ہو۔ جائیداد کی خریدو فروخت، تھوک، پرچون، ٹرانسپورٹ، عمارتی تعمیراتی، ایڈمنسٹریشن، آئی ٹی، مواصلات، اطلاعات، تعلیم، ہر میدان میں بھارتی آگے آگے ہیں۔ ایک ہفتے میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار سے زیادہ پروازیں آتی جاتی ہیں۔ بھارت کے ہر بڑے شہر سے ہوائی جہاز براہ راست یو اے ای جا رہے ہیں۔
اس سال مارچ میں ابو ظہبی نیشنل آئل کمپنی نے دو بھارتی آئل کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کی رو سے آئل اور گیس دریافت کرنے کے حقوق ان بھارتی کمپنیوں کو ملے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری سترہ کروڑ ڈالر کی ہے۔ حال ہی میں بھارت کے ریڈی سڈی (reddy sidi)گروپ کو سیمنٹ کا کارخانہ لگانے کا ٹھیکہ ملا ہے یہ سرمایہ کاری پونے اٹھارہ کروڑ ڈالر کی ہے! یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ ہر تیسرا شخص یو اے ای میں بھارتی ہے۔ یعنی کل آبادی کا تقریباً 30فیصد!!
میں شوکت کو ہمیشہ گائوں کے حوالے سے دیکھتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ بچپن کے اکٹھے گزارے دنوں کے صدقے شوکت مجھے برابری کی سطح پر رکھے گا۔ مگر شوکت کے لئے گائوں کا تعلق کوئی تعلق نہیں! وہ مجھے بزنس کی عینک سے دیکھتا ہے اور اس عینک سے میں اسے بہت چھوٹا، بہت حقیر نظر آتا ہوں۔ خدا کے بندو! امہ امہ کا نام لے کر یو اے ای اور بھارت کی قربت پر دھاڑیں مار مارکر رونے والو!امہ کا تصورتمہارا یک طرفہ تصور ہے! یو اے ای، سعودی عرب، بحرین یا کوئی اور مسلمان ملک امہ کے حوالے سے تمہیں بھارت پر کبھی ترجیح نہیں دے گا کیوں کہ یہ عملاً ممکن نہیں! ان ملکوں کی معیشتیں امہ کی بنیاد پر نہیں قائم! مگر یو اے ای کا انحصار امہ پر ہوتا تو وہ آج یورپ اور امریکہ کا مقابلہ نہ کر رہا ہوتا! ملٹی نیشنل کمپنیوں پر یورپی اور امریکی بیٹھے ہیں۔ آپ میں سکت ہوتی تووہاں آپ بیٹھے ہوتے جس ملک سے اپنی ایئر لائن نہیں چل رہی اور جس کا دعویٰ فقط اس گئے گزرے غرورپر مشتمل ہے کہ ایمیریٹ کو ہم نے اُڑنا سکھایا تھا۔ اسے یو اے ای گھر میں رکھے یا گھاٹ میں؟ ایک سٹیل مل تھی اور ایک ایئر لائن۔ دونوں بدترین سیاسی بھرتیوں، سیاسی مداخلتوں کی نذر ہو گئیں۔ آپ کے مقابلے میں بھارت اپنے کارخانے اپنے جہاز، اپنی ریل گاڑیاں، اپنا آئی ٹی کا کاروبار، دو سو فیصد زیادہ ظفریابی سے چلا رہا ہے۔ آپ خود سوچیے آپ زیادہ مفید ہیں یا بھارت؟ آپ کے حکمران بھارت سے لے کر دبئی اوردوحہ تک پاکستان کے نہیں اپنے ذاتی کاروبار کے لئے تعلقات کے جال بچھاتے رہے! سو، ان کا ذاتی کاروبار خوب پھلا پھولا۔ ملک کے کاروبار کے لئے محنت کرتے تو ملک ترقی کرتا! لیس للانسان الاما سعیٰ۔ انسان وہی حاصل کرتا ہے جس کے لئے کوشش کرتا ہے!
ان بھاری بھرکم فربہ، لحیم شحیم مذہبی کم، مسلکی زیادہ رہنمائوں کو تلاش کرو جو مشرق اوسط سے آئے ہوئے عباپوش دینی شخصیتوں کی آمد پر آپے سے باہرہو کر تقریبات پر تقریبات منعقد کرتے ہیں اور کسی دوسرے مسلک کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتے! آج وہ منقار زیر پر ہیں۔ اس لئے کہ یہ ملک کبھی ان کی ترجیح نہیں رہا! ان کی ترجیح یہ ملک ہوتا تو اپنے مسلک کے اندر مقید نہ ہوتے۔ جن کے راستے میں یہ پھول نچھاور کرتے ہیں اور سرخ قالینیں بچھاتے ہیں وہ مودی کے ساتھ معانقوں پر معانقے کر رہے تھے مگر یہ کبھی احتجاج نہیں کریں گے۔ کیسے کریں؟کریں تو ریال ملنے بند ہو جائیں گے! ریال ملنے بند ہو گئے تو ایک ایک اینٹ کی بنی ہوئی سیاسی جماعتیں نہیں چلیں گی جن کی بنیاد پر سینٹ کی ممبریاں ملتی ہیں! کبھی دریوزہ گر بھی احتجاج کرتے ہیں؟؟
مشرقی وسطیٰ کے ملکوں کے تعلقات بھارت سے ہیں یا امریکہ سے! اس لئے کہ بھارت کے پاس مضبوط، عظیم الشان معیشت ہے! امریکہ کے پاس کرہ ارض کا سب سے طاقت ور لشکر ہے اور جدید ترین ہتھیار! رہے آپ تو آپ لوہے کے تاروں سے بنے ہوئے لمبے ٹوکرے میں پڑے جو پاپڑ بیچ رہے ہیں ان کی طلب ہی منڈی میں نہیں! بھائی! وہ شے لائو جس کی ڈیمانڈ ہے!!