روس کے صدر نے بھی معذرت کر لی!
پہلی چوائس شمالی کوریا کا سپریم لیڈر کِم جانگ اَن تھا!
ملاقات کی درخواست اس نے فوراً منظور کر لی۔ مگر دقت یہ ہوئی کہ دوستوں نے شمالی کوریا جانے سے منع کر دیا ان کا کہنا تھا کہ اگر سپریم لیڈر آف نارتھ کوریا کو تمہاری کوئی بات بری لگی یا اسے تمہارا لباس اچھا نہ لگا یا تمہارا جوتا۔ تو پھر تم واپس کبھی نہ آئو گے۔
دوبارہ عرض گزاری کی! یہ طے ہوا کہ ملاقات ٹوکیو میں ہو گی۔ ہم دونوں ٹوکیوپہنچے۔ ملاقات ہوئی۔ میں نے وہ پیشکش کی جو کرنا چاہتا تھا اور جس کے لئے ملاقات کا یہ سارا جھنجھٹ پالا تھا۔ مذاکرات کی ابتدا میں آثار مثبت تھے میں خوش ہوا کہ کام بن گیا مگر آخری سوال اس نے جو پوچھا اسی کا مجھے ڈر تھا۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا! کم جانگ ان نے معذرت کی۔ اپنی بے بسی کا اظہار کیا اور واپس شمالی کوریا چلا گیا۔
کم جانگ ان اتنا جابر حکمران تھا کہ شمالی کوریا میں کوئی شخص سانس بھی اس کی مرضی کے بغیر لینے کی ہمت نہ کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ کون ہو سکتا ہے جو میری پیشکش پر غور کرے اور قبول کر لے؟
دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائی۔ صرف دو سربراہان مملکت ایسے دکھائی دیے جن سے امید باندھی جا سکتی تھی۔ پہلا شام کا صدر بشارالاسد تھا۔ آمریت، سختی اور چنگیز خانی اوصاف اس نے اپنے والد حافظ الاسد سے ورثہ میں پائے تھے۔ حافظ الاسد مرد آہن تھا۔ تیس سال۔ جی ہاں پورے تیس سال1970ء سے لے کر 2000تک شام کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ اس کے بعد اس کے خلف الرشید بشارالاسد نے تخت و تاج سنبھالا۔ "عرب بہار" نے بڑے بڑے عرب حکمرانوں کا پتہ پانی کر دیا مگر بشارالاسد ڈٹا رہا۔ داعش نے گھیرا تنگ کیا مگر کچھ نہ کر سکی۔ ظلم کرنے میں بشار الاسد کا ثانی کوئی نہیں! ہزاروں باشندے مارے گئے۔ ترکی سے لے کر سعودی عرب تک، روس سے لے کر ایران تک، سب اس جنگ میں کود پڑے۔ گھمسان کا رن پڑا مگر بشارالاسد اسی طرح دمشق میں بیٹھا حکومت کر رہاہے۔ اس سے زیادہ مناسب کون ہو گا جو میری کانٹوں بھری پیشکش قبول کر لے۔
جس شام میں دمشق پہنچا ہوں، مطلع ابر آلود تھا۔ ہوا خنک تھی۔ ایک قہوہ خانے میں چائے پی۔ جامع دمشق میں نوافل ادا کئے۔ پھر بی بی صاحبہؑ کے مزار مقدس پر جا کراہل بیت کے وسیلے سے دعا مانگی کہ اس مشن میں کامیابی نصیب ہو!ایک ہفتہ انتظار کرنے کے بعد دربار سے اطلاع ملی کہ صدر نے پندرہ منٹ کا وقت خصوصی طور پر نکالا ہے۔ ملاقات ہوئی ترجمان موجود تھا مگر بشارالاسد، میں حیران ہوا کہ، میری مادری زبان سے جو میں فتح جنگ میں بولتا ہوں، بخوبی واقف تھے۔ ترجمان کو انہوں نے ہاتھ کے خفیف سے اشارے سے منع کر دیا اور براہ راست مخاطب ہوئے۔ "سنا چاچا، کِنج آونا ہویا؟ میں تونڈے واسطے کے کر سکنا واں؟"
خدا کی قدرت! دمشق ! شام کا صدر! اور گفتگو یوں ہو رہی تھی جیسے میں اپنے آبائی گائوں جھنڈیال میں بیٹھا تھا!
میں نے دست بستہ عرض کیا کہ آپ سے امیدیں لگا کر حاضر ہوا ہوں! کرم کیجیے! دستگیری فرمائیے!بشارالاسد سوچ میں پڑ گئے میں تلخ شامی قہوے کے گھونٹ پیتا رہا۔ آخر میں صدر نے پوچھا"اُس کا کیا ہو گا؟"اس کا میرے پاس جواب نہ تھا۔ میں ملتجی ہوا"عالی مرتبت! اس کا کچھ نہیں ہو سکتا! وہ اسی طرح رہے گی!"تو پھر میری طرف سے معذرت ہے!" بشار الاسد نے نرمی سے کہا!ایک خدمت گار کو بشار الاسد نے حکم دیا۔ "چاچے آں چوپڑی وئی روٹی تے لسّی پیش کرو"
دمشق کی لسی میں وہ سرور وکیف نہ تھا جو میرے گائوں کی لسی میں ہوتا ہے! لگتا تھا چاٹی آمریت زدہ تھی!
آخری امید روسی صدر پیوٹن تھا! ایک سخت گیر حکمران!بلبن اور امیر تیمور کی یاد تازہ کر دینے والا! بیس برس سے روس جیسے عظیم الشان ملک پر حکمرانی کر رہا ہے! اتنا بڑا ملک ! ٹائم زون جس میں گیارہ ہیں۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک چھ ہزار کلو میٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ ریل گاڑی میں سات دن یہ فاصلہ طے کرنے میں لگتے ہیں!ایسے آہنی ہاتھ سے صدر پیوٹن کاروبارسلطنت چلارہا ہے کہ سٹالن اور خروشچیف اس کے سامنے طفلانِ مکتب لگتے ہیں!
جس صبح میں ماسکو پہنچا ہوں موسم سرد تھا۔ خوش شکل روسی عورتوں نے رنگا رنگ جیکٹیں زیب تن کر رکھی تھیں۔ مرد وہاں کے چست اورسریع الحرکت تھے۔ کئی دن کریملن کے چکر لگانے کے بعد، پیوٹن نے وقت دیا۔
عرض مدعا سن کر وہ بھی سوچ میں پڑ گیا مجھے پوری توقع تھی کہ پیوٹن وہی سوال دہرائے گا جو شمالی کوریااور شام کے حکمران پوچھ چکے تھے۔ یہی ہوا۔ "کیا وہ بھی میری عمل داری میں شامل ہو گی؟"ظاہر ہے جناب صدر!"میں نے مودبانہ لہجے میں عرض کیا۔ I am sorry old manپیوٹن نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ اس نے جاپان روانہ ہونا تھا!
میں شکست خوردہ واپس پاکستان پہنچا! اور اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا۔ دو دن کچھ کھایا نہ پیا! بیوی پوچھ پوچھ کر تھک گئی۔ بچے الگ ذہنی تنائو میں! مگر ملک کے مقابلے میں بیوی بچوں کی کیا اہمیت ہے!
آج فیصلہ کیا ہے کہ اس معاملے کو چھپانے کے بجائے قوم کو اعتماد میں لوں ! قصہ یہ ہے کہ صدر کم جانگ ان، صدر بشار الاسد اور صدر پیوٹن دنیا کے ان تینوں سب سے زیادہ سخت گیر حکمرانوں سے ایک ہی التجا کی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان سے حالات سنبھالے نہیں سنبھل رہے! آ کر پاکستان کی باگ ڈور سنبھالیں۔ کم از کم دس برس تک انہی فولادی ہاتھوں سے انتظام کریں جن سے شمالی کوریا، شام اور روس کو چلا رہے ہیں!تینوں ابتدا میں آمادہ ہوئے۔ مگر تینوں نے آخر میں ایک ہی سوال پوچھا کہ کیا پنجاب پولیس بھی ان کی عملداری میں شامل ہو گی؟ میں اس کا کیاجواب دیتا! پنجاب پولیس ملک کی انتظامیہ کا جزو لاینفک ہے! تینوں نے معذرت کر لی! تینوں بے بس نظر آئے۔
کریملن سے نکل رہا تھا کہ صدر پیوٹن کے معاون خصوصی نے آ لیا۔ کہنے لگا" آپ حضرات کو شاید احساس نہیں کہ آپ کے ملک میں سب سے بڑا مافیا پنجاب پولیس کا ہے!یوں تو آپ کے ہاں اور بھی طاقت ورمافیا ہیں تاجروں کا مافیا، گداگروں کامافیا، مدارس کے مالکان کا مافیا، جاگیرداروں کا مافیا، بلوچستان کے سرداروں کا مافیا، مگر طاقت ور ترین مافیا پنجاب پولیس کا ہے! ماضی کے حکمرانوں نے پولیس کے افسروں سے ذاتی دوستیاں رکھیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں زبردست ملازمتیں ازسرنو دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک غیر تحریری معاہدہ وجود میں آ گیا۔ معاہدہ یہ کہ پولیس حکمرانوں کی باندی بنے گی۔ دوسری طرف پولیس کو قتل و غارت گری کی کھلی چھٹی ملے گی! یہی ہو رہا ہے ! پولیس جسے چاہے قتل کرے، جسے چاہے چھوڑ دے۔ لاہور کی شاہراہ پر قتل کرنے ولے جاگیردار کے بیٹے کو چھوڑ دے۔ ماڈل ٹائون میں چودہ قتل کر دے۔ ذہنی مریض صلاح الدین کوموت کے گھاٹ اتار دے! پولیس والوں کو ہتھکڑی تک لگ نہیں سکتی! سزا کیا ملے گی! اس مافیا کے ٹوٹنے کا آغاز اس دن ہو گا جس دن پہلا پولیس والا قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا جائے گا اور زبان اس کی باہر آ جائے گی!"۔ پیوٹن کے معاون خصوصی نے ایک خصوصی فرمائش بھی کی۔
ناصر درانی ہمیں دے دیجیے، ہم اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا لیں۔ "اس کا میں کیا جواب دیتا!