مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں
بخار تھا کہ ٹوٹنا تو کیا، کم ہونے کا بھی نام نہ لیتا تھا۔ محلے کے ڈاکٹر نے کم مائگی کا اعتراف کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ہسپتال لے جائو۔ اُس وقت دارالحکومت میں ایک ہی ہسپتال تھا۔ پولی کلینک۔ مگر یہ پولی کلینک کے سنہری دن تھے۔ شہر کی آبادی محدود تھی۔ ہسپتال کی انتظامیہ چُست تھی اور ذمہ دار۔ پولی کلینک کی راہداریاں تب بھی چھلک رہی ہوتی تھیں مگر آج کی طرح "ٹریفک جام" نہیں تھا!یہ 1976ء یا 1977ء تھا۔ پولی کلینک کے جس ڈاکٹر نے والد گرامی کا معائنہ کیا، سرخ سفید رنگ کا تھا! وجیہہ شخصیت۔ انداز مسحور کُن! …اردو پر میانوالی کا لہجہ غالب! اُس نے ایک ہاتھ والد گرامی کے کندھے پر رکھا۔ دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے پہلے ہاتھ پر ایک یا دو بار ضرب لگائی۔ اور کہا پھیپھڑوں میں پانی ہے۔ نکالنا ہو گا۔ ہسپتال داخل کریں گے۔ علاج لمبا ہے۔ انشاء اللہ مریض ٹھیک ہو جائے گا۔ معائنے، تشخیص اور گفتگو سمیت سارا معاملہ دو منٹ میں نمٹ گیا۔ تین ماہ والد گرامی ہسپتال داخل رہے۔ بھائی دونوں چھوٹے تھے۔ تیسرا ایک حادثے کی نذر ہو چکا تھا۔ بعد میں تو دونوں بھائیوں نے خدمت کا موقع ہی نہ دیا۔ وہ تین ماہ کالم نگار ہسپتال ہی رہا۔ ایک بار مریض کا یہ حال بھی ہوا کہ یاس غالب آ گئی اور اعزہ و احباب کو بلا لیا۔ تین ماہ یہ عجیب و غریب ڈاکٹر علاج کرتا رہا۔ بات کم کرتا۔ خود اعتمادی بلا کی تھی۔ کالم نگار پریشانی اور مایوسی کا اظہار کرتا تو یقین کے ساتھ کہتا "انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیگا"۔ کبھی جھڑک دیتا۔ ایک بار خوراک کا پوچھا تو کہنے لگا۔"بُھکا رکُھس۔"ایک دن جب والد گرامی نقاہت سے اور مرض کی شدت سے بے حال تھے، ڈاکٹر نے نیم سنجیدگی سے کہا؟ ؟ ابھی تو آپ نے مجھے قرآن پاک پڑھانا ہے، میں نے نہیں پڑھا ہوا"۔ بات آئی گئی ہو گئی! والد گرامی روبصحت ہو گئے۔ ڈاکٹر اپنی بات بھول گیا۔ اُس وقت کا اسلام آباد سہل تھا اور باہم متصل۔ ہمارے گھر سے ڈاکٹر کے گھر کا پیدل فاصلہ دس منٹ کا تھا۔ ایک ڈھلتی شام کو والد گرامی اس کے گھر پہنچ گئے۔ اس نے بٹھایا اور پوچھا فرمائیے۔ کہا جس طرح کہ طے ہوا تھا، میں صحت یاب ہو چکا اور اب قرآن پڑھانے آ گیا ہوں۔ ڈاکٹر نے اس حال سے نکلنے کی بہت کوشش کی۔ کبھی کہا، یکم سے شروع کریں گے۔ حساب کتاب میں سہولت ہو گی۔ والد گرامی ہنسے، میں پیشہ ور ٹیوٹر نہیں ہوں کہ معاوضہ لوں۔ بہر طور، ڈاکٹر کو انہوں نے الحمد سے الناس تک کلام پاک پڑھایا اور جہاں جہاں مناسب سمجھا سمجھایا! ڈاکٹر اسلم خان نیازی نے والد گرامی سے تعلّق پھر عمر بھر نبھایا۔ پورے خاندان کے معالج رہے۔ بارہا گھر پر آئے، ایک بار کلینک میں فیس دینے کی کوشش کی تو خالص میانوالی کے لہجے میں سرزنش کی، "اوے اظہار! جوائنٹ سیکرٹری تھی گیاں پر عقل نہیں آئی۔"ڈاکٹر اسلم خان نیازی دارالحکومت کے اس بڑے اور قدیم ترین سرکاری ہسپتال میں تین عشروں سے زیادہ میڈیسن کے شعبے کے سربراہ رہے۔ شام کو اپنے کلینک میں مریض دیکھتے۔ سینکڑوں ہزاروں مریضوں کا علاج کیا۔ ذیابیطس، ٹی بی اور امراض سینہ کے نامور ماہر کے طور پر شہرت پائی۔ شاگرد ڈاکٹروں اور سٹاف کے جلو میں رائونڈ کرتے تو لگتا بادشاہ دورے پر ہے! ذہن پر چھا جانے والی شخصیت، عمدہ ترین فرنگی ملبوس! لہجے میں خود اعتمادی! مریض کے رتبے منصب اور امارت سے مکمل بے نیازی! کئی انتظامی سربراہ آئے اور گئے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ ڈاکٹر اسلم خان نیازی پر حکم چلائے یا امارت اور عہدے کی بنا پر ترجیحی سلوک کرائے۔ ایک بار انجکشن لگاتے ہوئے دیکھا کہ شیشی میں پھپھوندی لگی ہے۔ سیدھا ایم ایس کے کمرے میں گئے، انجکشن کی شیشی اس کے میز پر دے ماری اور کہا یہ معیار ہے تمہاری ادویات کا؟ عمران خان اُن کے سگے ماموں کے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ مرحومہ اکرام اللہ خان مرحوم کی بہن تھیں۔ ڈاکٹر صاحب والد گرامی مرحوم سے اور ان کے بعد کالم نگار سے گھنٹوں باتیں کرتے۔ ایک آدھ بار کے علاوہ عمران خان کا ذکر کبھی نہ کیا۔ اپنے "خانکی خیل"ہونے کا ذکر اکثر کرتے۔ ان کے والد ڈاکٹر نور محمد ہمارے محترم دوست، معروف کالم نگار اور تجزیہ نگار جناب حفیظ اللہ نیازی کے پھوپھا تھے۔ 1922ء میں ڈاکٹر بنے۔ نصف صدی میانوالی میں خلق خدا کا علاج کیا۔ نیک نامی کمائی عزت دینے والے پروردگار نے بے پناہ عزت بخشی۔ روایت ہے کہ ڈاکٹر اسلم خان نیازی لندن اور ایڈنبرا سے اعلیٰ ترین ڈگریاں لے کر آئے اور میانوالی میں پریکٹس کا آغاز کیا تو فیس، اس زمانے کے اعتبار سے، ذرا زیادہ رکھی۔ والد ڈاکٹر نور محمد کو معلوم ہوا تو بیٹے کو سرزنش کی کہ میرے غریب لوگوں سے اتنی فیس؟ ڈاکٹر اسلم خان نیازی دارالحکومت میں رہ کر میانوالی کو کبھی نہ بھولے۔ شروع میں ہر پندرہ دن بعد اور بعد میں ہفتہ وار میانوالی جا کر کلینک کرتے۔ اُس وقت موٹر وے نہ تھی۔ فتح جنگ، کھوڑ اور ڈُھلیاں موڑ والے راستے سے اپنی کار پر جاتے۔ معمول تھا کہ دوران سفر، شاہراہ کے کنارے کسی مریض کی چارپائی دیکھتے تو رُک جاتے۔ گاڑی سے اتر کر مریض کے لواحقین سے اپنا تعارف کراتے مریض کا معائنہ کرتے اور مشورہ دے کر دوبارہ سفر شروع کرتے۔ کچھ عرصہ عام ویگن کے ذریعے بھی جاتے اور آتے رہے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو معمول الٹ کر لیا۔ اب مستقل کلینک میانوالی منتقل ہو گیا اور ہفتہ وار یا پندرھویں روز اسلام آباد پھیرا ڈالتے۔ ہمارا خاندان اُن کے بچوں کی شادیوں پر باقاعدہ بلایا جاتا۔ ٹائیگر جنرل نیازی کو پہلی اور آخری بار ایسی ہی ایک تقریب میں دیکھا۔ روایتی پگڑی پہنے مہمانوں میں بیٹھے تھے۔ کالم نگار کے بزرگ دوست لیفٹیننٹ جنرل کمال اکبر بھی، جو مسلح افواج کے "سرجن جنرل" رہے۔ ان خاندانی تقاریب میں شامل ہوتے رہے۔ ان کی ڈاکٹر اسلم خان نیازی سے قریبی عزیز داری تھی!ڈاکٹر صاحب مرحوم کا روحانیت سے گہرا لگائو تھا۔ اوراد و وظائف بہت کرتے۔ ایک بار بتایا کہ مریض کا معائنہ کرتے وقت پروردگار سے التماس کرتے کہ "اے مینڈا مریض اے۔ اِساں ول کر دے" (یہ میرا مریض ہے۔ اسے تندرست کر دے)! قدرت نے طب کے علم کے ساتھ حکمت بھی عطا فرمائی تھی۔ حاذق طبیب، حکیم بھی ہوتا ہے۔ اِس زمانے کی اصطلاح میں یوں سمجھیے۔ آئی کیو بلند ہوتا ہے۔ تشخیص میں کمال حاصل تھا۔ کالم نگار کی والدہ مرحومہ ایک بار سخت بیمار پڑ گئیں۔ سی ایم ایچ کی اعلیٰ ترین سہولت حاصل تھی! ہفتوں وہاں داخل رہیں۔ افاقہ نہ ہوا۔ گھر واپس لے آئے اور عرضِ مدعا ڈاکٹر صاحب سے کیا۔ فوراً گھر تشریف لائے۔ طنز کیا کہ "وڈا افسر تھی گیاں، ہُن تواں سی ایم ایچ وچ پروٹوکول ملنا تے اُٹھے گِھن گیاں " (بڑے افسر ہو گئے ہو۔ سی ایم ایچ میں پروٹوکول ملتا ہے تو وہاں لے گئے!) معائنہ کیا دوا تشخیص کی۔ شفا دینے والے نے دو دن میں بیماری کا زور توڑ ڈالا۔ مرض میں شفا اُسی کی ذات پاک عطا کرتی ہے!نومبر کا ایک ابر آلود دن تھا۔ استانبول میں بلا کی سردی تھی! فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا ڈاکٹر اسلم خان نیازی رحلت فرما گئے۔ اسی زمین سے ہم پھوٹے، اسی میں لوٹنا ہے۔ پھر اسی سے اٹھائے جائیں گے۔ ایک وجیہہ شخصیت نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ ہزاروں مریضوں کی بے لوث، نم آنکھوں بھری دعائیں، ان کے ساتھ لحد میں اتریں۔ کتنوں ہی کی مسیحائی کی! سینکڑوں ہزاروں کا فی سبیل اللہ علاج کیا۔ خوف نہ لالچ۔ انفاق فی سبیل اللہ کا یہ عالم تھا کہ عید آتی تو تھان کے تھان کپڑوں کے خریدتے اور ملازمین اور غربا میں بانٹتے۔ کردار کی مضبوطی کے جو واقعات کالم نگار کے علم میں ہیں ’ ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں! غالب نے ایسے ہی عظیم انسانوں کے لئے کہا تھا ؎مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئمتونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے