کیا شائستگی بازار میں دستیاب ہے؟
"موسم گرما میں کپڑوں کے نیچے بنیان پہنیںاور خدارا خوشبو کا استعمال کریں۔ دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرنا مذہب اور اخلاقیات دونوں کے خلاف ہے۔
کان اور ناک کے بال صاف کریں۔ ناک کے بال اکھاڑنے کیلئے عوامی مقامات مناسب جگہ نہیں۔ ازراہ کریم یہ فریضہ گھر پر سرانجام دیں۔ دوسرے لوگوں کو اس عمل سے گھن آتی ہے۔ یہ الگ بات کہ آپ کو احساس نہیں ہوتا۔
عوامی مقامات پر ناک اور کان میں انگلی گھما کر صفائی کا "اہتمام" کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ اس "اہتمام" کے بعد جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے ہیں تو اسے عجیب و غریب صورت حال میں ڈال دیتے ہیں۔ ہاتھ ملائے تو مصیبت نہ ملائے تو نامناسب!
کرنسی نوٹ گنتے ہوئے لعاب دہن کا بے دریغ استعمال نہ کریں۔ ضرورت ہو تو پانی بھی تو موجود ہے۔ یہ سوچیے کہ یہ کرنسی نوٹ کن کن ہاتھوں سے ہو کر آپ تک پہنچے ہیں!
گاڑی چلاتے وقت تنگ سڑکوں پر اوورٹیکنگ سے اجتناب کریں۔ کیا آپ نے کبھی گاڑی پارک کرتے وقت سوچا ہے کہ دوسروں کو غلط پارکنگ سے کس قدر اذیت ہوتی ہے۔ دو گاڑیوں کی جگہ گھیرنے کا حق آپ کو کس نے دیا ہے؟کوئی قریبی عزیز کسی منصب پر فائز ہے تو رشتہ داری سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں۔ اس کے منصب کا استحصال نہ کریں۔ سرکاری ملازموں کو یہ احساس نہ دلائیں کہ وہ آپ کے سامنے کیڑے مکوڑے ہیں۔
نماز روزے کا رشتہ آپ کے اور آپ کے معبود کے درمیان ہے۔ زعمِ تقویٰ میں دوسروں کے ساتھ حقارت سے نہ پیش آئیں۔ ان کی عبادات کے حوالے سے سوالات نہ کریں۔ کم از کم آج دوپہر تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ خلق خدا کے اعمال کا حساب آپ رکھیں گے۔ کل کا نہیں معلوم! خاص طور پر یہ پوچھنا کہ "کیا آپ روزے سے ہیں؟" ایک انتہائی نامناسب سوال ہے!
ذاتی اور نجی زندگی کے متعلق سوالات کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں! تنخواہ کتنی ہے؟ پنشن کتنی مل رہی ہے؟ آپ کے بچے کیوں نہیں؟ آپ کے بچے یا پوتے فلاں سکول میں کیوں نہیں پڑھ رہے؟ ایسے تمام سوالات پست ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
جگہ جگہ تھوکنے سے پرہیز کریں۔ چھلکے اور ریپر گاڑی سے باہر نہ پھینکیں۔ گاڑی میں شاپنگ بیگ رکھیں جسے ڈسٹ بن کے طور پر استعمال کریں۔ پکنک پر جائیں تو اس مقولے پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ع جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
تمام کوڑا کرکٹ، چھلکے، ہڈیاں وغیرہ شاپنگ بیگ میں ڈال کر گاڑی میں رکھیں اور پکنک کے مقام پر چھوڑ کر نہ آئیں۔ پبلک ٹائلٹ کو اس حال میں چھوڑ کر آئیں جیسے آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ پبلک بیت الخلا کسی بھی قوم کی اجتماعی ذہنیت کی عکاس کرتے ہیں۔ وہاں اپنی خطاطی، اپنے ادبی ذوق اور اپنے سیاسی اور مذہبی خیالات کے نمونے چھوڑ کر نہ آئیں۔ خواتین کے ناموں کی وہاں بے حرمتی نہ کریں، اپنی بے مثال مصوری کے نشان دیواروں پر نہ ثبت کریں۔ یہ نفسیاتی عارضے کی علامات ہیں۔
جسم کے مناسب اور نامناسب اعضا پر دوسروں کی موجودگی میں خارش سے پرہیز کریں۔ اگر ناگزیر ہو تو اس ضرورت کیلئے خلوت کا انتظام کریں۔ دوستوں کی کال کا جواب ضرور دیں۔ خواہ تاخیر ہی کیوں نہ ہو جائے۔ کسی کی کال کا جواب نہ دینا۔ رِنگ بَیک نہ کرنا تکبر کی علامت ہے۔ خاص طور پر ہمارے تاجر بھائی۔ سب نہیں مگر اکثر۔ فون کال کی رقم بچاتے ہیں۔
کوئی مشورہ لیتا ہے تو دیانت دارانہ مشورہ دیں مگر اس کے بعد اس کے حق میں داروغہ نہ بن جائیں کہ مشورے پر عمل ہوا ہے یا نہیں! ایک صاحب اس لئے ناراض ہو جاتے ہیں کہ نومولود بچے کا نام ان کا تجویز کردہ کیوں نہیں رکھا گیا؟ یہ گائودی پن کی نشانی ہے!
کسی کی خریداری میں نقص نہ نکالیں۔ بہت گدگدی ہو رہی ہے تو خاموش رہیں! دوسروں کا دل توڑنا اور ان کی خریداری سے انہیں متنفر کرنا ہرگز مستحسن نہیں!
کسی کو یہ احساس دلانا کہ اس کی اولاد نرینہ نہیں اور افسوس کرنا کہ ساری اولاد لڑکیوں پر مشتمل ہے، انتہائی پست ذہنیت کی عکاس کرتا ہے! یہ جہالت بھی ہے اور جاہلیت بھی! جاہلیت جہالت سے کئی گنا زیادہ نقصان دہ ہے!روایت ہے کہ فیض صاحب سے کسی نے پوچھا آپ کی اولاد نرینہ کتنی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اولاد والی بات تو سمجھ میں آتی ہے، نرینہ کیا ہے؟ اولاد تو اولاد ہے نرینہ ہے یا غیر نرینہ!
بچی کی، خاص طور پر دوسری یا تیسری بچی کی پیدائش پر آپ کو موت نہیں پڑ جانی چاہیے۔ رشتہ داروں اور محلے والوں کی باتوں میں آ کر اپنے آپ کو جہالت اور جاہلیت کے اندھے گڑھے میں نہ پھینکیں۔ والدہ محترمہ پریشان ہوں تو انہیں خدا رسول کے احکام سمجھانے کی اور مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی کوشش کریں ایسا کرتے ہوئے والدہ کے احترام کا خاص خیال رکھیں بچی یا بچیوں کی پیدائش پر، ماں کے کہنے میں آ کر بیوی کو طلاق دینا، یا طعنے دے دے کر اس کی زندگی جہنم بنانا ظلم ہے۔ اس سے اجتناب کرنا ہو گا۔ مگر خیال رہے کہ ماں کے ادب میں کمی نہ آئے۔ یہی وہ مواقع ہیں جہاں توازن رکھنا لازم ہوتا ہے اور مرد کی حکمت عملی، صبر اور تحمل کی جانچ ہوتی ہے، یہ ہدایات ہمارے دوست میاں وقار احمد نے جو ایتھنز (یونان) میں مقیم ہیں، نقل کی ہیں۔ زیب داستان کے لئے ہم نے بھی کچھ اضافہ کیا ہے۔ مگر اس حوالے سے ایک اور پہلو قابل غور ہے! اور یہ پہلو ہی اس تحریر کا سبب بنا۔
ایک ایک بات کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے کہ "کافر" ملکوں میں یہ ہدایات دینے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی۔ اس لئے کہ یہ ساری احتیاطیں وہاں بدرجۂ اتم پہلے سے موجود ہیں۔ کوئی شخص سڑک پر تھوکتا یا ناک میں انگلی گھماتا نہیں نظر آتا۔ غلط اوورٹیکنگ کوئی نہیں کرتا۔ کوئی کسی سے تنخواہ پوچھتا ہے نہ عبادات کا حساب لیتا ہے نہ اولاد نرینہ کے اعداد و شمار لیتا ہے! گاڑی سے چھلکے، ماچس کی خالی ڈبیا، خالی ریپرکوئی نہیں باہر پھینکتا۔ کسی کو کال کریں تو ننانوے اعشاریہ نو فیصد حالات میں جواب دے گا۔ وعدہ کیا ہے کہ آپ کو فلاں اطلاع فراہم کرے گا تو ضرور کرے گا۔ اکثر و بیشتر مواقع پر آپ کو یاددہانی کی ضرورت نہیں پڑے گی! جہاز یا ٹرین میں یا بس میں آپ کسی کی نظروں کا ٹارگٹ نہیں ہوں گے۔ فون کریں گے تو اس قدر آہستہ کہ دوسروں کی سماعت مجروح ہو گی نہ متاثر! کچھ عرصہ ہوا لاہور سے راولپنڈی ریل کار کا سفر تھا۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے لاہور پنڈی کے سفر کے لئے یہ کالم نگار ہمیشہ ریل کار پارلر کو ترجیح دیتا ہے۔ ابھی گاڑی گوجرانوالہ پہنچی تھی کہ ایک صاحب نے فون پر کسی سے بزنس ڈیل شروع کر دی۔ آواز بلند، پاٹ دار اور والیم ٹاپ پر! خدا جھوٹ نہ بلوائے، کسی مبالغہ آرائی کے بغیر پورا راستہ، انہوں نے پورے ڈبے کو سولی پر لٹکائے رکھا۔ غنیمت ہے کہ بزنس کی اس ڈیل میں دشنام طرازی نہیں تھی مگر اوچھا پن اور بازاری لہجہ نمایاں تھا۔ جہلم آن پہنچا تو تنگ آ کر ایک ریلوے والے کی توجہ اس مصیبت کی طرف دلائی۔ وہ بیچارہ کہنے لگا، صاحب ! آپ خود بات کیجیے۔ ہماری تو بے عزتی کرتے ہیں ایسے لوگ اور شکایت بھی! صبر کے گھونٹ پیے۔ پنڈی کے قریب آ کر ان کی ڈیل فائنل ہوئی اور کانوں کو آرام نصیب ہوا۔
کاش! شائستگی بازار میں فروخت ہوتی! پیکٹوں کی شکل میںیا چائے کی ناخالص پتی کی طرح کھلی ہی سہی!