کراچی کا بادشاہ اپنے انجام کی طرف
کراچی کا بادشاہ بالآخر اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے۔
ہر ظالم اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ اکثر اس دنیا میں اور سارے کے سارے آنے والی دنیا میں! یہ دنیا ایک حساب کتاب سے بنائی گئی ہے۔ ایک نسبت تناسب سے!! یہ کسی بچے کی کاغذ پر کھینچی ہوئی الل ٹپ لکیریں نہیں جن کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔
ماضی قریب میں رومانیہ کا بادشاہ (کہلاتا صدر تھا!) چی سسیکو! سیاہ و سفید کا مالک! فرعون اور نمرود اس کے سامنے ہیچ تھے۔ پھر ہوا کا رخ بدلا۔ بادشاہ اور ملکہ دونوں طاعون زدہ چوہوں کی موت مرے!
شاہ ایران! اپنے آپ کو کسریٰ اور کیقباد کا وارث گرداننے والا! بوریا نشین امام خمینی نے اس کا طلسم پاش پاش کر ڈ الا۔ روئے زمین پر مارا مارا پھرتا رہا۔ مشکل سے قبر کے لئے تین ضرب چھ کا رقبہ نصیب ہوا۔
پاکستانی سیاست کی سیاہ بختی اور حالات کی ستم ظریفی نے الطاف حسین کو کراچی کا بادشاہ بنا دیا۔ عشروں تک الطاف حسین سیاہ و سفید کا مالک رہا! بلا شرکت غیرے مالک! کیا ساحل کیا سمندر! ہر جگہ اس کا سکہ چلتا تھا۔ سوا کروڑ آدم کے بیٹے اور بیٹیاں اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے۔ وہ کہتا اٹھو، لوگ اٹھ کر کھڑے ہو جاتے۔ وہ انگلی سے بیٹھنے کا اشارہ کرتا، سوا کروڑ انسان بیٹھ جاتے۔ وہ ہڑتال کا حکم دیتا۔ شاہراہیں سنسان ہو جاتیں۔ راستوں پر دھول اڑتی۔ بچے سکولوں سے گھر نہ پہنچ سکتے، مریض ہسپتال پہنچنے کے بجائے ملک عدم جا نکلتے۔ ایئر پورٹ، بسوں کے اڈے، ریلوے اسٹیشن، ہوٹل، ریستوران، ہر جگہ ویرانی کے بھوت ناچ رہے ہوتے! اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل اس کے اشارے کے غلام تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے خلاف ایک لفظ لکھتا یا ایک جملہ بولتا۔
جون ایلیا نے کتنے دکھ سے کہا تھا کہ اردو بولنے والوں کی ایک زمانہ تھا جب شناخت محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ابوالکلام آزاد، شبلی نعمانی، سلیمان ندوی، اکبر الہ آبادی، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا احمد رضا خان جیسے ابطال جلیل سے ہوتی تھی۔ پھر ان کا حوالہ جاوید لنگڑا، فلاں کمانڈو، فلاں ٹُنڈا بن گیا۔ وہ جو علم و ادب میں رہنمائی کرتے تھے، ان کے ہاتھوں سے الطاف حسین نے کتابیں چھین لیں اور بندوقیں تھمائیں۔ ٹیلی ویژن سیٹ بیچنے کا حکم دیا۔ بچہ بچہ دہشت گرد بن گیا۔ انسانی جسموں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کئے جانے لگے۔ بوریوں سے لاشیں برآمد ہونے لگیں۔ کہیں کٹے ہوئے سر ملتے کہیں اُدھڑے ہوئے جسم!الطاف حسین تقریر کرتا تو سننے والے فرشِ خاک پر مُردوں کی طرح بیٹھے ہوئے سر ہلاتے۔ نعرے لگاتے۔ موم کے پتلوں کی طرح کبھی ہنستے کبھی روتے۔ ان میں پروفیسر تھے اور ڈاکٹر۔ سیاست دان تھے اور عالم فاضل۔ الطاف حسین ایک نیم مجنون شخص کی طرح کبھی تقریر میں ہنستا کبھی روتا۔ کبھی گیت گاتا۔ کبھی قسم قسم کی آوازیں نکالتا۔ سننے والے ہنسی دباتے کہ ہنسے تو شام سے پہلے مار دیے جائیں گے۔ رونا چاہتے تو رو نہ سکتے۔ ووٹ ڈالنے کا دن آتا تو صبح دروازے پر دستک ہوتی۔ ایک غنڈہ گھر والوں کے شناختی کارڈ لے جاتا۔ حکم ہوتا کہ ووٹ ڈالنے آئو گے تو شناختی کارڈ واپس مل جائیں گے۔ کراچی کا بادشاہ حکم دیتا "میں فلاں کے سوئم میں بیٹھنا چاہتا ہوں" حکم کی تعمیل ہوتی۔ تیسرے دن الطاف حسین اس کے سوئم میں بیٹھا ہوتا۔
پاکستان کی تاریخ کے عجائبات جب مورخ لکھے گا تو عجائبات کی تعداد کم نہ ہو گی۔ زرداری صاحب صدر بنے۔ نیم تعلیم یافتہ میاں صاحب تین بار حکمران اعلیٰ بنے۔ سلمان فاروقی محتسب اعلیٰ مقرر ہوئے مگر ذہن میں آندھیاں چلانے والا عجوبہ الطاف حسین کی حکمرانی تھی۔ بے تاج بادشاہی! ایسی بادشاہی جس کے سامنے فرعون اور نمرورد کی بادشاہتیں گداگری لگتی تھیں۔
پھر نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ جنرل پرویز مشرف کا عہدِ اقتدار الطاف حسین کے لئے دودھ کا شہد ملا پیالہ ثابت ہوا۔ من تو شُدم تو من شدی والا معاملہ تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے پشتیبان بنے۔ جنرل مشرف کا کراچی کا دورہ ہوتا تو شہر سیل کر دیا جاتا۔ ان ظالموں نے کتنے ہی جاں بلب مریضوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بچوں کی مائیں کلیجے ہاتھوں میں لئے، شام ڈھلے تک سکولوں سے بچوں کی واپسی کے لئے تڑپتی رہتیں۔ کیا کسی نے حساب کیا ہے جنرل مشرف کتنی بار کراچی دورے پر گئے؟ کتنے پاکستانی اس کی وجہ سے مرے؟ کتنے بچے اذیت میں مبتلا ہوئے؟ کتنے گھنٹے ہر بار خلقِ خدا کے وقت سے ناوقت میں تبدیل ہوئے اورہر بار کتنے کروڑ کا صدمہ کراچی کی معیشت کو برداشت کرنا پڑا؟
جنرل پرویز مشرف نے غضب یہ کیا کہ الطاف حسین نے بھارت میں پاکستان کے خلاف جس روز زہر اُگلا، اسی شام دہلی کے پاکستانی سفارت خانے کو حکم دیا کہ سرکاری زرومال خرچ کر کے الطاف حسین کے اعزاز میں دعوت کی جائے جو کی گئی۔ یہ ایسا داغ ہے جسے جنرل پرویز مشرف کے ماتھے سے کوئی طاقت نہیں دھو سکتی!
الطاف حسین نے پاکستانی سیاست کا ایک اور افسوں بھی توڑ کر رکھ دیا۔ یہ مفروضہ غلط ثابت ہو گیا کہ پڑھی لکھی مڈل کلاس، جاگیرداروں اور صنعت کاروں سے زیادہ مخلص ثابت ہو گی۔ یوں تو یہ مفروضہ اکّا دکّا سطح پر ہر جگہ غلط ثابت ہو رہا ہے۔ رضا ربانی، اعتزاز احسن، احسن اقبال اور مشاہد حسین سے زیادہ پڑھا لکھا کون ہو گا۔ یہ سب مڈل کلاس کی نمائندگی کرنے والے ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ خاندانوں کی وفاداری کی زنجیر پائوں میں پہنے ہیں اور کچھ پارٹیاں یوں بدلتے ہیں جیسے رات دن میں بدلتی ہے اور دن رات کے کپڑے پہن لیتا ہے۔ تاہم پارٹی کی سطح پر اس مفروضے کو غلط الطاف حسین کی پارٹی نے ثابت کیا اور یہ سحر ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا۔ الطاف حسین کی پارٹی میں کوئی جاگیردار تھا نہ کوئی کروڑ پتی۔ مگر اس پارٹی نے کروڑ پتی یوں پیدا کئے جیسے فیکٹری لگی تھی۔ ہیوسٹن سے ڈلاس تک پٹرول پمپوں کی قطاریں لگ گئیں۔ خود پاکستان میں سیاست کرتے تھے اور خاندان والے لاس اینجلز، نیو یارک اور شکاگو کے گراں ترین حصوں میں شاہانہ زندگیاں گزارتے تھے۔ کئی دولت کما کر پیش منظر سے پس منظر میں چلے گئے۔ مزے کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ خلوص مڈل کلاس کی جاگیر نہیں۔ رہنمائی کا کام قدرت کسی سے بھی لے سکتی ہے۔ قائد اعظم، لیاقت علی خان، عبدالرب نشتر خواجہ ناظم الدین سب اَپر کلاس سے تھے۔
الطاف حسین کے جسم میں ٹریکر لگا دیا گیا ہے جو حکام کو اس کے محل وقوع کا ہر وقت پتہ دیتا رہے گا۔ سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تقریر کی اجازت نہیں۔ بیرون ملک سفر کی اجازت بھی نہیں۔ رات بارہ بجے سے صبح نو بجے تک گھر سے نکلنا منع ہو گیاہے۔ کراچی کا بادشاہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہاہے۔ رسی درازہوتی ہے مگر پھر ایک یوں لپیٹ میں لے لیتی ہے جیسے اژدھا انسانی جسم کو شکنجے میں کس کر رکھ دیتا ہے۔ الطاف حسین کے سر لاتعداد بے گناہوں کا خون ہے۔ درست ہے یا غلط، حکیم سعید اور امجد صابری جیسے مشاہیر کی اموات کا ذکر بھی اسی حوالے سے ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
ہے کوئی جو سبق سیکھے! ہے کوئی جو یاد رکھے کہ کھوپڑیوں میں زاغ و زغن انڈے دیتے ہیں اور آنکھوں کے سوراخ، سانپوں کی گزرگاہ بن جاتے ہیں۔