جو اماں ملی تو کہاں ملی!
بالآخر جاوید احمد غامدی بھی امریکہ منتقل ہو گئے۔
نامساعد حالات میں انہیں پاکستان چھوڑنا پڑا۔ کچھ عرصہ ملائیشیامیں رہے۔
بہت لوگ ان کے مداح ہیں، اختلاف کرنے والے بھی کم نہیں۔ یہ کالم نگار ان کا مداح بھی ہے اور کئی معاملات میں اختلاف بھی ہے۔ بالخصوص ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر صاحب جو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے شہسوار ہیں، دل دکھانے والی تقریروں کے ماہرہیں۔ ائمہ اربعہ کا ذکر تخفیف اور تصغیر کے ساتھ کرتے ہیں۔ جیسے وہ ان کے جونیئر ہوں۔ دوسری طرف یہ حضرات اپنے استاد کو"استاد امام" کہتے ہیں، گویا چار امام منظور نہیں مگر پانچواں خود بنا لیا ہے۔ اس کے باوجود اس میں کیا شک ہے کہ غامدی صاحب کی خدمات بہت ہیں۔ دین سے برگشتہ بے شمار نوجوان ان کے طریق کار سے متاثر ہو کر دین کی طرف پلٹے۔ دلیل اور اسلوب بیان ان کا متاثر کن ہے۔ روایتی مولویانہ طرز تبلیغ اب کارگر نہیں۔ بقول اقبال ؎
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشاد دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
بہر طور، موضوع یہ ہے کہ بالآخر انہیں بھی امریکہ میں پناہ لینا پڑی۔ اس سے پہلے گزشتہ صدی کے آخری سالوں میں ترکی کے اسلامی رہنما فتح اللہ گولن نے بھی امریکہ میں پناہ لی۔ ان کی غیر حاضری میں ان پر مقدمہ چلا۔ 2016ء میں ترک حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ہوئی۔ اس کے بعد سے ترکی حکومت، فتح اللہ گولن کو امریکہ سے نکلوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاحال یہ کوشش کامیابی کا چہرہ نہیں دیکھ سکی۔ گولن امریکہ کی پناہ میں ہیں۔
امام خمینی بھی بالآخر مغرب میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوئے۔ ایران سے نکل کر پہلے ایک برس ترکی میں رہے۔ پھر عراق گئے، صدام حکومت نے وہاں بھی نہ رہنے دیا۔ آخر کار پیرس کی ایک نواحی بستی میں منتقل ہو گئے، وہیں سے انقلاب کی سرپرستی کی اور وہیں سے فاتح اور نجات دہندہ بن کر وطن لوٹے۔
یہ تین مثالیں تو عصری تاریخ سے ان مسلمان رہنمائوں کی ہیں جو مغربی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
اب دو نمایاں ایسے مسلمان رہنمائوں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں کسی حکومت نے جلاوطن کیا نہ ان کی زندگی کو خطرات لاحق تھے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے مغرب کی طرف ہجرت کی یا ہجرت کی کوشش کی۔ علامہ طاہر القادری ایک عرصہ سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ پاکستان آتے ہیں مگر تھوڑے تھوڑے دنوں کے لئے، مستقل قیام ان کا کینیڈا ہی میں ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں آج کل وائرل ہورہی ہیں۔ ان تصویروں میں وہ انگریزی ہیٹ پہنے، کسی خوشگوار ساحل پر، تفریحی موڈ میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔
الہدیٰ کی شہرت یافتہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کینیڈا گئیں۔ وہاں انہوں نے مستقل قیام کے لئے جدوجہد کی۔ عدالتوں میں مقدمہ کیا مگر کینیڈا حکومت نے رہنے کی اجازت نہ دی۔ ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے بارڈر کراس کر کے امریکہ جانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکیں۔
اس سارے منظر نامے میں ہمارے لئے فکر کرنے کا بہت سامان ہے! سوچنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ سے سوال کرنے کی کہ پچپن مسلمان ملکوں میں کوئی ایسا مسلمان ملک نہیں جہاں امام خمینی سے لے کر فتح اللہ گولن اور جاوید احمد غامدی تک، ہمارے علماء اور رہنما پناہ لے سکیں۔ پچپن ملکوں میں کوئی ایک ایسا اسلامی دیار نہیں جہاں ہمارے طاہر القادری اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی جیسے علماء اور رہنما مقیم ہونے کی خواہش کریں اور رہنا پسند کریں!
یہ وہی مغرب ہے جسے ہمارے اکثر دینی رہنما"طاغوت" اور "کفر" کا نام دیتے ہیں۔ جسے فسق و فجور کا مرکز قرار دیتے ہیں ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
میرے جرم ِخانہ خراب کو تیرے عفوِ بندہ نواز میں
یہاں "جرم خانہ خراب" شعری مجبوری ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ان واجب الاحترام رہنمائوں کے لئے یہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں)
مولانا مودودی کی کتاب "پردہ" پڑھ لیجیے۔ مغرب کی جو بھیانک تصویر اس کتاب میں انہوں نے کھینچی ہے۔ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر علاج کے لئے اسی ملعون مغرب میں جانا پڑا۔ وہیں جان، جان آفرین کے سپرد کی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نہیں جانا چاہتے تھے۔ بیٹا اصرار کے ساتھ لے گیا مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ مولانا کے صاحبزادے نے اسی مغرب میں مقیم ہونا پسند کیا جس کے طرز زندگی اور جس کی تہذیب و تمدن کے خلاف ان کے والد زندگی بھر جہاد کرتے رہے۔ لکھتے رہے اور بولتے رہے۔ خلطِ مبحث کے شائقین یہاں یہ نکتہ نہ نکال بیٹھیں کہ ہم مولانا کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، یہاں یہ مثالیں دلیل کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ دعویٰ ثابت کرنے کے لئے کہ مغربی تہذیب کو مسلمانوں کے لئے زہر قاتل قرار دینے والے علماء اور رہنمائوں کی اولاد اسی مغرب کا رُخ کرتی ہے اور صرف مولانا مودودی ہی کی اولاد نہیں، آج کے بڑے بڑے، معروف و مشہور، بین الاقوامی شہرت یافتہ مسلمان علماء کی اولاد بھی مغرب ہی میں مقیم ہے۔ ان میں بڑے بڑے مفتیان کرام بھی شامل ہیں اور چوٹی کے علماء بھی! ایک بہت بڑے عالم دین کے صاحبزادے، جن کا تعلق بھارت سے ہے اور پاکستان کے مذہبی جرائد میں لکھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر قائد اعظم اور تصورِ پاکستان پر پوری قوت سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ مگر رہتے کہاں ہیں؟ برطانیہ میں!! جس بھارت کی تقسیم کو مسلمانوں کے حق میں غلط سمجھتے ہیں، وہاں خود رہنا نہیں پسند فرماتے!!یہ ایک عجیب مضحکہ خیز صورت حال ہے! بظاہر نفاق سے بھر پور! میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو! چار کروڑ سے زیادہ ان عام مسلمانوں کو تو چھوڑ دیجیے جو پچپن مسلمان ملکوں کو ٹھوکر مار کر مغربی ملکوں میں قیام پذیر ہیں۔ وہاں کی شہریتیں لے رکھی ہیں۔ پارلیمنٹوں کے رکن ہیں۔ جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ان کروڑوں عامیوں کو تو ایک طرف رکھیے، بات تو ان اکابر ان رہنمائوں، ان علما، ان برگزیدہ شخصیات کی ہو رہی ہے جو لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے لئے مرکز عقیدت ہیں اور رہنمائی کا مینار ہیں!
تو کیا یہ رہنما جرم کے مرتکب ہوئے ہیں؟ نہیں! حضور والا نہیں!! سبب یہ ہے کہ جو آزادی، جو حریت فکر اور کام کرنے کا جو ماحول مغربی ممالک مہیا کرتے ہیں وہ کسی ایک مسلمان ملک کے دامن میں بھی نہیں! طاہر القادری اگر وہاں مقیم ہیں، ڈاکٹر فرحت ہاشمی اگر وہاں رہنے کی متمنی ہیں، تو اس لئے کہ وہاں فکری آزادی ہے! ذہن پرکوئی قدغن نہیں اور ہونٹوں پرکوئی مُہر نہیں! ریاست شہریوں کی یوں سرپرستی کرتی ہے جیسے ماں باپ کرتے ہیں! فتح اللہ گولن اور غامدی صاحب اگر پناہ لیے ہیں تو اس لئے کہ وہاں کوئی بارود بھری گاڑی ان کی رہائش گاہوں سے نہیں ٹکرا سکتا! ع
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت!