بٹنگیاں، کریم رول اور گھڑونچی
کیا کسی کو بٹنگیاں یاد ہیں؟سائز میں اخروٹ سے ذرا زیادہ بڑی! نرم اور کھٹی میٹھی! کہاں گئیں؟ زمین کھا گئی انہیں یا آسمان نگل گیا؟
اور املوک؟ کالے رنگ کا بیر جتنا پھل! بیجوں سے لبریز! پٹھانیاں ڈھیروں ڈھیر سامنے رکھی چھانٹتی صاف کرتی رہتیں۔ ہر دکان پر ہوتے تھے اور ارزاں!
کیا غضب ہے اب جاپانی پھیل (Persimmon) کو املوک کہا جا رہا ہے۔ یعنی پھلوں کے نام بھی چوری ہونے لگے۔ مشہور شاعر انوری نے دیکھا کہ لوگ چوک پر جمع ہیں اور ایک شاعر شعر سنا رہا ہے۔ نزدیک ہو کر سنا تو یہ اُسی کے یعنی انوری کے اشعار تھے۔ اُس نے سنانے والے سے پوچھا کہ یہ کس کے اشعار سنا رہے ہو؟ جواب دیا کہ انوری کے! پھر پوچھا کہ تم کون ہو؟ کہنے لگا میں انوری ہی ہوں۔ اس موقع پر انوری نے اپنا مشہور جملہ کہا کہ شعر تو چوری ہوتے سنے تھے، آج پورے کا پورا شاعر چوری ہوتے دیکھ لیا۔
لسوڑھے کدھر گئے؟ میٹھا اور گوند کی طرح چپک جانے والا پھل۔ گھر گھر گلی گلی لسوڑھوں کے درخت تھے۔ گھنے، سایہ دار! شیشم کو آئینہ دکھانے والے! کہاں گئے؟
سنگتروں کا ماتم ایک گزشتہ کالم میں ہو چکا۔ قارئین نے اس نوحہ خوانی میں ساتھ دیا۔ آلوچہ ایک پھل تھا۔ اب نہیں نظر آتا۔ منٹو کا افسانہ "لیچیاں، الائچیاں اور آلوچے" پڑھنے والے نوجوان پوچھیں گے کہ آلوچہ کیا ہوتا ہے!
یوں تو ایسے پھل بھی آ گئے جو ہمارے بچپن لڑکپن میں نہیں ہوتے تھے۔ یہ کالم نگار جب ڈھاکہ یونیورسٹی سے چھٹیاں گزارنے آتا تو سوغات کے طور پر انناس کے ساتھ کیلے بھی لاتا کہ اُس وقت مغربی پاکستان میں کم یاب بلکہ نایاب تھا۔ چیکو اب کراچی سے آ کر پنجاب میں بکتا ہے۔ پہلی بار اسے بھی ڈھاکہ ہی میں دیکھا اور لیچی بھی! تب دو روپے سینکڑہ تھی۔ اب لیچی عام میسر ہے۔ ایک دوست نے پہلی بار انناس دیکھا تو بیچارے کو "اِنّ النّاس" کا لقب دیا۔ جاندار ہوتا تو احتجاج کرتا کہ النّاس یعنی انسانوں میں کیوں شامل کر رہے ہو؟ اب تو کُتّا بھی اپنے پِلّے کو نصیحت کرتا ہے کہ ع
بھاگ! ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
اور کتے کا بچہ بدتمیزی کرے تو کتا اسے شرم دلاتا ہے کہ کیا انسان کے بچوں والی حرکتیں کر رہے ہو!
ایک بھائی صاحب کریم رول بھی تھے۔ ہر بیکری میں نظر آتے تھے۔ کھاتے تھے تو خالص بالائی سے منہ بھر جاتا تھا۔ معدوم ہو گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں! شاید اس لیے کہ بالائی اور مکھن خالص عنقا ہو گئے۔ شکرپارے نہیں ملتے۔ بوندی دیکھنے کو ترس گئے۔ بوندی سے بوندی والے لڈو یاد آ گئے۔ موتی چور لڈو ذرا اچھے نہیں لگتے۔ میلبورن میں ایک انڈین دکان میں بوندی والے لڈو نظر آئے۔ چھ کا پیکٹ تھا! سات ڈالر میں ملے۔ تین راستے میں گھر جاتے ہوئے کھا لیے۔ باقی تین رات کو، غیبی مدد یہ ہوئی کہ پوتوں سمیت، کوئی اور ان کی طرف راغب نہیں تھا۔
وڑیاں (یا بڑیاں) قصۂ پارینہ بن گئیں۔ دال سے بنی ہوئی! دھوپ میں سکھائی گئیں، پکتی تھیں تو گوشت کا ذائقہ دیتی تھیں۔ یہاں خود انسان فانی ہے تو اس کی بنائی ہوئی وڑیاں کیسے ہمیشہ رہتیں۔
ہم کہیں نہیں گئے۔ جہاں تھے وہیں رہے مگر ہمارے اردگرد کی دنیا بدل گئی۔ وہی گائوں اور وہی قصبے ہیں مگر جو کچھ کھاتے تھے، پیتے تھے، پہنتے تھے، اب نہیں نظر آتا۔ جن مکانوں میں رہتے تھے ان کا طرزِ تعمیر بدل گیا۔ چھتوں پر لکڑی کی کڑیاں تھیں۔ سرکنڈوں کی چقیں ڈالی جاتی تھیں۔ اس کی جگہ لنٹرنے لے لی۔ اینٹوں کے بجائے بلاک بننے لگے ہیں۔
آپ کے نزدیک جو بچہ بیٹھا ہے، اس سے پوچھیے صحن کیا ہوتا ہے اور برآمدہ کسے کہتے ہیں؟ چھپر کیا ہوتا ہے؟ نیم چھتی کس چڑیا کا نام ہے؟ اکثر نے نام ہی نہیں سنا ہو گا۔ رات دن چوبیس گھٹنے بند مکانوں میں، گھومتے پنکھوں اور مہنگے ایئرکنڈیشنروں کے دامن میں رہنے والے لوگ۔ ساری زندگی وٹامن ڈی کی گولیاں کھاتے گزار دیتے ہیں۔ دھوپ سے رشتہ نہ قدرتی ہوا سے۔ پہلے نالائق سے نالائق شخص کو بھی اگر تاریخ یا حساب یا جغرافیہ نہیں آتا تھا تو کم از کم پسینہ ضرور آتا تھا، اب پسینے سے بھی گئے۔ برقی رَو جاتی ہے تو چیخیں آسمان تک پہنچتی ہیں۔
مصالحے ریڈی میڈ آ گئے۔ ایک نیا جہان وجود میں آ گیا۔ کون مانے گا کہ ہر روز شام کو ہانڈی کے لیے تازہ مصالحہ تیار ہوتا تھا۔ نمک چٹانوں کی صورت میں خریدا جاتا تھا۔ پھر اسے پیسا جاتا تھا۔ بزرگ نمک کا پتھر نما ٹکڑا جیب میں رکھتے تھے۔ جہاں مغرب کی اذان ہوئی، جیب سے نمک کا ٹکڑا نکالا اور چاٹ کر افطار کر لیا۔ دھنیا، سرخ مرچ، ہر شے تازہ کُوٹی جاتی تھی اور ہر روز کُوٹی جاتی تھی۔ ہنڈیا مٹی کی ہوتی تھی۔ آگ لکڑیوں کی تھی۔ ایک خاص ذائقہ تھا جو آسمانوں کو پرواز کر گیا۔ پورا دائرہ گھوم کر اب عقل آئی ہے کہ نان سٹِک برتن نقصان دہ ہیں۔ اب پھر سٹیل کے برتنوں کی تلاش ہے۔ یہی لیل و نہار رہے تو کچھ عرصے میں مٹی کے برتنوں کی ڈُھنڈیا پڑے گی۔ ان الانسان لفی خسر کے الفاظ میں جو جہانِ معنی چھپا ہے، یہ بھی اسی کا حصہ ہے۔
بہت عرصہ پہلے کالم نگار نے گھڑونچی (گھڑونجی) بنوائی۔ گھڑے خریدے۔ پھر ہم سب اسے بھول گئے۔ چند برسوں بعد بیگم صاحبہ سے پوچھا، گھڑوِنجی کہاں گئی، تنک کر بولیں "میں نے اندر صندوق میں رکھی ہوئی ہے"!پھر کہا "اتنی بار مکان بدلنے، میں اسے کہاں لیے لیے پھرتی!" جیسے باقی سامان سر پر اٹھا کر لیے لیے پھرتی رہیں۔ کئی بار مٹی کے پیالے پانی پینے کے لیے منگوائے۔ مٹی کی پلیٹیں (صنحنکی) خریدیں۔ کچھ عرصہ بعد وہی گلاس، وہی چینی کی پلیٹیں! وہ تو شکر ہے کہ پلاسٹک کے برتنوں سے جان چھوٹی۔ ایک زمانے میں انہوں نے بڑی چڑھائی کر رکھی تھی۔ ہمارے ہاں(ضلع اٹک، تلہ گنگ اور میانوالی) میں مکھڈی حلوہ پکانے کے خاص آداب تھے۔ کالا باغ کی کڑاہی مشہور تھی۔ ایک برخوردار کالا باغ سے تھے۔ ان کے ذریعے لوہے کی خاص کڑاہی منگوائی۔ ہلانے کے لیے چمچ یا ڈوئی نہیں ہوتی۔ لوہے کا ہموار چمچ ہوتا ہے جسے سپیتا(Supeta) کہتے ہیں۔ یہ انگریزی کالفظ نہیں، انگریزی میں اس لیے لکھ دیا کہ تلفظ معلوم ہو جائے۔ کڑاہی اور سپیتا دونوں کہیں پڑے ہوں گے۔ حلوہ نان سٹِک پَین ہی میں پکتا ہے۔ لکڑی کی ڈوئی کے ساتھ! اعتراض کیا کریں کہ غنیمت ہے پکا دیا جاتا ہے۔ ملازم نہ ہو تو ہلانے میں کالم نگار بیگم صاحبہ کا ہاتھ بھی بٹاتا ہے کہ اسے پکانے میں کچھ مشقت درکار ہوتی ہے۔
کس کس چیز کو یاد کریں۔ کھیر نیم ریڈی میٹر قسم کی بازار سے پیکٹ میں ملنے لگی ہے۔ کھاتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے گناہ سرزد ہو رہا ہو۔ کہاں وہ کھیر جو چاولوں سے بنتی تھی اور مٹی کی پلیٹ میں کھائی جاتی تھی۔ وجدان سے لے کر ادراک تک سب کچھ روشن ہو جاتا تھا۔
یہ سوچیے کہ ہماری نسل، جو ریلوے اسٹیشن پر کھڑی گاڑی کا انتظار کر رہی ہے، ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گئی تو ان غائب شدہ اشیا کا تذکرہ بھی کون کرے گا؟ علامہ درست فرما گئے ع
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
عجائب گھروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ وقت آندھی ہے جو سب کچھ اڑا لے جاتا ہے اور شاعر مرثیہ گوئی کرتے رہ جاتے ہیں۔ شوکت واسطی مرحوم کہہ گئے ؎
شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا