ارضِ موعود
تصویر دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکاارض موعود یعنی Promised-Land کا تصور عبرانی بائبل سے آیا۔ ابراہام اور اس کی اولاد کو دودھ اور شہد بھری زمین کی بشارت دی گئی۔
یہ وعدہ یہودی کتابوں کی رُو سے، ابراہام سے کیا گیا پھر ان کے فرزند اسحاق سے، پھر اسحاق کے فرزند یعقوب سے! اس ارض موعود کا محل وقوع مصر کے دریا سے فرات تک کا تھا۔
ارض موعود یا پرامزڈ لینڈ صیہونیت کا مرکزی ستون ہے۔ اسی تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا"وسیع تر" اسرائیل اب بھی یہودیوں کے خواب کا حصہ ہے! اردگرد کے عرب علاقوں پر ان کی نظر ہے۔
یہ تو تھی یہودیوں کی ارض موعود! یہودیوں کی پرامزڈ لینڈ! کیا مسلمانوں کی بھی کوئی ارض موعود ہے؟جہاں تک مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر کا تعلق ہے کسی دیار کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا۔ ہماری آسمانی کتاب، ارشاداتِ نبویؐ، تفاسیر، فقہ، کہیں بھی کسی ارض موعود کا کوئی ذکر ہے نہ وعدہ!
تاہم اس زمانے کے مذہبی رہنمائوں نے جب دیکھا کہ بیچارے مسلمانوں کی کوئی ارض موعود نہیں تو انہیں مسلمانوں پر ترس آیا۔ وہ روئے یہاں تک کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ان کی مقدس نورانی داڑھیاں آنسوئوں سے بھیگ گئیں ان کے متبرک متشرع حجاب اور نقابیں، اشکوں سے تر ہو گئیں!وہ سوچ میں پڑ گئے۔ مراقبوں میں چلے گئے۔ چلّے کاٹے۔ عبادتیں کیں پھر ان کے دلوں پر روشنی اتری ان کے چہرے بشاشت سے دمک اٹھے۔ پیشانیاں طمانیت کے نورسے جگمگانے لگیں! گھور اندھیرے میں انہیں راستہ دکھائی دینے لگا۔ انہوں نے سروے کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اپنے ملکوں سے جوق در جوق کفار کے ملکوں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ یعنی جن ملکوں سے یہودی، نقل مکانی کر کے اسرائیل کا رُخ کر رہے تھے ان ملکوں میں مسلمان بسنے لگے تھے۔ مسلمانوں کی آبادی کے سمندر میں تلاطم آیا۔ ہجرت کی لہر اٹھی اور آسمان تک اونچی ہو گئی۔ پاکستان، ایران، ترکی، بنگلہ دیش، مصر، لبنان، شام، البانیہ، بوسنیا، لیبیا، مراکش، سوڈان، ماریطانیہ، سینی گال اور صومالیہ سے مسلمان لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں نکلے اور امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، ہسپانیہ، ہالینڈ، بلجیم، یونان، جاپان، سنگا پور، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک جا کر بس گئے۔ عملی طور پر یہ سارے ملک مسلمانوں کے لئے ارض موعود تھے۔ مگر مسلمان رہنمائوں نے فیصلہ کیا کہ کسی ایک ملک کو ارض موعود قرار دیا جائے۔ مسلمان رہنمائوں نے خود بھی وہیں مقیم ہونے کا فیصلہ کیا۔
یہ قرعہ فال کینیڈا کے نام نکلا۔ بیورو کریٹ اور سیاست دانوں کے نام تو ہجرت کے حوالے سے میڈیا میں آتے ہی رہتے ہیں، چھپے رستم صحافی اور اینکر پرسن ہیں۔ بعض ایسے ایسے مشہور و معروف اینکر پرسن اور صحافی و کالم نگار، بیرونی شہریتیں رکھتے ہیں کہ خلق خدا سنے تو دنگ رہ جائے۔
خیر یہ جملہ معترضہ تھا! ہم مذہبی رہنمائوں کی بات کر رہے تھے۔ ہمارے مذہبی رہنمائوں کو اسلام کی "تبلیغ" کے لئے کینیڈا بہت موزوں نظر آیا۔ یوں تو امریکہ بھی مذہبی رہنمائوں کا عملی طور پر ارض موعود ہے۔ بہت سے ثقہ مذہبی رہنمائوں کے بیٹے امریکہ میں آباد ہیں۔ ایک معروف پیر صاحب، جو روحانی شخصیت ہیں، امریکہ میں اکثر پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ایک عزیز امریکہ میں اسلامی سنٹر چلاتے ہیں۔ وہ جب بھی پاکستان آتے ہیں تو نہ جانے کہاں کہاں سے، کون کون سے کونوں کھدروں سے مولانا حضرات نکل کر ان کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک کی عرضداشت یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح امریکہ پہنچنے کا بندوبست ہو جائے۔ تبلیغ کا جو مزا امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں آتا ہے وہ افریقہ، ایشیا اورجنوبی امریکہ کے غریب پس ماندہ ملکوں میں کہاں آتا ہے!
سو قرعہ فال کینیڈا کے نام نکلا۔ اب اس کا مطلب یہ نہ لیجے کہ کوئی باقاعدہ اعلان ہوا، یا فتویٰ جاری ہوا یا مبلغین کا کوئی بورڈ بیٹھا۔ بس یہ سمجھنے کی بات ہے وہ جسے انگریزی قانون میں circumstancial Evidence یعنی واقعاتی ثبوت یا قرائنی شہادت کہتے ہیں۔ اسے ذہن میں رکھیے!
سب سے پہلے حضرت شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری نے فیصلہ کیا کہ وہ کینیڈا منتقل ہو جائیں۔ کینیڈا میں اسلامی تعلیمات کی اس قدر شدید ضرورت تھی کہ ملک میں اپنے لاکھوں عقیدت مندوں کو روتا، بلکتا چھوڑ کر حضرت شیخ الاسلام کو بادل نخواستہ کینیڈا منتقل ہونا پڑا۔ کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیے گا کہ کینیڈا کا انتخاب انہوں نے اس لئے کیا کہ رہنے کے لئے بہترین ملک ہے۔ رہائش کے لئے اعلیٰ ترین ریٹنگ لینے والا شہر وینکوور کینیڈا ہی میں ہے۔ کینیڈا فلاحی مملکت ہے۔ ہر شہری کو حکومت کی طرف سے علاج کی بہترین سہولیات میسر ہیں۔ بوڑھوں کو وی آئی پی درجہ دیا جاتاہے۔ قانون کی حکمرانی ہے انصاف کا بول بالا ہے۔ خوراک خالص ہے۔ رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری، سفارش کی لعنتوں سے پاک ہے۔ مگر یہ سب عوامل حضرت شیخ الاسلام کی نگاہِ دُوربیں میں ہیچ تھے۔ وہ ان دنیاوی سہولیات کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے کینیڈا منتقل ہونے کا واحد مقصد اسلام کی خدمت تھا اورکینیڈا اس مقصد کیلئے افریقہ یا ایشیا کے غریب ملکوں کی نسبت بہتر تھا!
ماڈل ٹائون سانحہ میں چودہ انسان قتل ہوئے۔ حضرت شیخ الاسلام نے انصاف لینے کے لئے کئی بار پاکستان آ کرکوشش کی مگر جب بھی یہ کوشش کامیاب ہونے لگتی، حضرت کو اسلام کی خاطر واپس کینیڈا جانا پڑ جاتا۔
پھر اسلام کی بہت بڑی مبلغہ ایک خاتون نے بھی جن کا لمبا چوڑا اسلامی تعلیمات کا سلسلہ پاکستان میں چل رہا تھا، کینیڈا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ کیا بات ہے کینیڈا کی اور اس کے معیار زندگی کی! روایت ہے کہ انہوں نے بیٹیوں کی شادیاں کینیڈا میں کر دیں۔ انہیں کینیڈا کی حکومت نے کینیڈا چھوڑ کر چلے جانے کا بھی کہا مگر وہ عدالتوں میں مقدمہ لڑتی رہیں۔ اب کینیڈا جیسی جنتِ ارضی چھوڑ کر کون جائے۔ رہا پاکستان! تو کینیڈین پاسپورٹ لے کر پاکستان میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا جو ثواب ہے، وہ پاکستانی پاسپورٹ پر کہاں ملے گا!
تازہ ترین تصویر دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا ہے۔ حضرت مولانا طارق جمیل کینیڈا میں حضرت شیخ الاسلام طاہر القادری سے ملاقات فرما رہے ہیں۔ ساتھ غالباً مولانا کے صاحبزادے ہیں! اب خیریت پوچھنے کے لئے تو مولانا شیخ الاسلام سے پاکستان میں بھی مل سکتے تھے۔ یہ جو کینیڈا میں ملاقات ہو رہی ہے، کہیں منتقل ہونے کے لئے ضروری معلومات کا تبادلہ تو نہیں ہو رہا؟
ویسے مولانا کی خدمت میں مخلصانہ عرض ہے کہ کینیڈا کے دارالکفر سے بہتر کوئی اور جگہ روئے زمین پر تبلیغ کے لئے مناسب نہیں! کیا بات ہے ارض موعود کی!