Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Muhammad Izhar Ul Haq
  3. Aakhir Molana Wazir e Azam Kyun Nahi Ban Sakte

Aakhir Molana Wazir e Azam Kyun Nahi Ban Sakte

آخر مولانا وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتے

ہر طرف زرد رومال نما پگڑیوں کی بہار تھی۔ معلوم ہوا مولانا کی حکومت آ چکی ہے۔ کچھ دیر کے بعد ٹیلی ویژن چینل تقریب حلف برداری دکھا رہے تھے۔ مولانا ملک کے نئے وزیر اعظم تھے۔

سول سروس کے ایک مخصوص گروہ نے جو ہمیشہ باڑ پر رہتا ہے کہ بوقت ضرورت پھلانگ کر اس طرف یا اس طرف ہو جائے۔ سب سے پہلے سر پر زرد رومال نما پگڑیاں باندھیں۔ ایک افسر سے پوچھا کہ اس کمال سرعت سے کایا کلپ کیسے ہو گئی؟ تڑ سے جواب دیا۔ "یاد نہیں؟ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہمی نے سب سے پہلے واسکٹ اپنائی تھی!"

پہلا حکم نئی حکومت نے یہ دیا کہ سرکاری دفاتر سے قائد اعظم کی تصاویر ہٹا دی جائیں۔ دوسرا حکم یہ تھا کہ آئندہ قائد اعظم کا لفظ استعمال کرنے والے کو دو سال قید بامشقت کی سزا دی جائے گی۔ بانی پاکستان کے لئے سرکاری ہدایت کی رو سے "جناح صاحب" کا لفظ بروئے کار لایا جائے گا۔

اس کے بعد تبدیلیوں کا ایک زبردست ریلا آیا جس میں ستر سال کے پاکستان کا سب کچھ بہہ گیا۔ یہ ایک نیا پاکستان تھا۔ مینار پاکستان کا نام بدل کر "شیخ الہند مینار" رکھ دیا گیا۔ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کے لئے تاریخ کی کتابیں ازسرنو لکھی جانے لگیں۔ قائد اعظم اور تحریک پاکستان کا ذکر ہر جگہ سے حذف کر دیا گیا۔ جمعیت علماء اسلام کے جن اکابر نے تحریک پاکستان کی حمایت کی تھی۔ ان کا ذکر مدارس میں بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔ مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع کی کتب مع تفاسیر پر پابندی عائد کر دی گئی۔

نیا بیانیہ یہ جاری کیا گیا کہ تحریک پاکستان اصولاً غلط تھی۔ اس ضمن میں جمعیت علماء ہند اور احرار کا موقف درست تھا۔ مگر چونکہ پاکستان اب ایک امر واقعہ (Fait Accompli) ہے اس لئے ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔

قائد اعظم کے مزار کے اردگرد خار دار تاریں لگا دی گئیں۔ عام لوگوں کا وہاں جانا ممکن نہ رہا۔ مارکیٹ سے راتوں رات علامہ اقبال کی تصانیف غائب ہو گئیں۔ اقبال کے خطبہ الہ آباد پر، جس میں انہوں نے علیحدہ مملکت کا تصور پیش کیا تھا۔ پابندی عائد کر دی گئی۔ علامہ کا مشہور قطعہ(زدیوبند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی ست) لکھنے یا پڑھنے والے کے لئے تین سال قید بامشقت کی سزا رائج کی گئی۔

ہر اس ادارے کا نام تبدیل کر دیا گیا جس میں قائد اعظم کا لفظ آتا تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی کا نام حسین احمد مدنی یونیورسٹی رکھ دیا گیا۔ قائد اعظم ایئر پورٹ کا نام قاسم نانوتوی ایئر پورٹ ہو گیا۔ قائد اعظم میڈیکل کالج کا نام مولانا مظہر علی اظہر میڈیکل کالج رکھ دیا گیا۔ مولانا مظہر علی اظہر وہی صاحب تھے جنہوں نے سب سے پہلے قائد اعظم کو کافرِاعظم کہا تھا۔

تاریخ پاکستان کو تاریخ پاک و ہندمیں بدل دیا گیا۔ مسلم لیگ کے ساتھ ساتھ کانگرس کی تشکیل اور خدمات بھی پڑھائی جانے لگیں۔ پاکستان کی جگہ اکثر و بیشتر، برصغیر کا لفظ ڈال دیا گیا۔ نئی لکھی جانے والی تاریخ میں بھارت اور پاکستان کا ذکر برابر برابر کیا گیا۔

حلف برداری کے بعد مولانا کو بتایا گیا کہ عام طور پر نیا حکمران قائد اعظم کے مزار پر حاضری دیتا ہے۔ مولانا نے اس کے بجائے مولانا مدنی کے مزار پر حاضر ہونے کا فیصلہ کیا۔ بھارت میں وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم مولانا کا خود استقبال کیا اور مزارتک ذاتی رہنمائی کی۔ نئی حکومت نے اس عزم صمیم کا اظہار کیا کہ ہر تقرری خالص اور خالص میرٹ پر ہو گی۔ چنانچہ مولانا نے ایک بھائی کو وزیر خارجہ، دوسرے کو وزیر داخلہ اور تیسرے کو وزیر خزانہ مقرر کیا۔ ان کے صاحبزادے نے ڈپٹی وزیر اعظم کا منصب سنبھالا۔

ایک قانون یہ بنایا گیا کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کو ایم اے یا ایم ایس سی کی ڈگری اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک کہ وہ ایک مخصوص مسلک کے کسی مدرسہ سے پانچ سال کا ریفریشر کورس نہ کر لیں۔ چنانچہ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات کے ریوڑ کے ریوڑ مدرسوں کی جانب رواں ہوئے۔ اکثر طالبان نے اپنے اپنے رفقائے زندگی مدارس سے پسند کئے۔

مفتی منیب الرحمن صاحب کو رویت ہلال کمیٹی سے مستعفی ہونا پڑا۔ ان کی جگہ ایک اور مفتی صاحب کا تقرر ہوا۔

اکرم درانی صاحب کو وزارت ہائوسنگ اور تعمیرات کا تاحیات وفاقی وزیر مقرر کیا گیا۔

مولانا کی کابینہ میں ڈاکٹر عشرت حسین، عمر ایوب، خسرو بختیار، ماروی میمن، یوسف بیگ مرزا۔ زبیدہ جلال، فہمیدہ مرزا، علی حیدر زیدی، اعظم خان سواتی، محمد میاں سومرو، شیخ رشید احمد، عبدالحفیظ شیخ، ثانیہ نشتر، فردوس عاشق اعوان، اور ڈاکٹر شمشاد اختر شامل تھیں۔ ان میں سے مرد وزراء نے زرد رومال نما پگڑیاں باندھنا شروع کر دی تھیں۔ خواتین وزراء نے افغانستان سے درآمد شدہ شٹل کاک سفید برقعے پہن لئے تھے۔ مولانا بوجہ مصروفیت، خود کابینہ اجلاس کی صدارت کبھی نہیں بھی کرتے تھے۔ ایسے میں ان کی جگہ ڈپٹی وزیر اعظم (ان کے صاحبزادے) کابینہ اجلاسوں کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد امیر مقام، طلال چودھری، طارق عظیم، زاہد حامد، ثناء اللہ زہری اور طارق فاطمی بھی کابینہ کا حصہ بن گئے۔

یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ وفاقی سیکرٹری صرف مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والا تعینات ہو سکے گا۔ اس کی مدد کے لئے اس کے نائب کے طور پر سی ایس ایس کے ذریعے آنے والا افسر نائب وفاقی سیکرٹری مقرر ہو گا۔ مگر وہ فائل پر اپنا نام نہیں لکھ سکے گا۔ لازم ہو گا کہ وہ لمبا کرتا، بلند شلوار اور سیاہ رنگ کی واسکٹ پہنے یوں تو زرد رومال نما پگڑی اب انگریزی سوٹ کے اوپر بھی پہنی جا سکتی تھی۔

یہ خواب جب ایک دوست کو سنایا تو وہ حیران قطعاً نہیں ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسا خواب ہی میں نہیں، حقیقت میں بھی ہو سکتا ہے۔ اگر پراگیا ٹھاکر بھارتی پارلیمنٹ کی ممبر ہو سکتی ہے تو مولانا وزیر اعظم کیوں نہیں ہو سکتے؟

پراگیا ٹھاکر کا قصہ یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی کٹر رکن ہے۔ اس نے برملا کہا کہ گاندھی کا قاتل ہیرو تھا۔ ہیرو ہے اور ہیرو رہے گا۔ مودی نے زبانی مذمت کی مگر پارٹی نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ الٹا اسے ٹکٹ سے نوازا گیا۔ وہ بھوپال سے تین لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے جیتی اور آج پارلیمنٹ میں براجمان ہے۔

خطے میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان کے پیش نظر کچھ بھی ناممکن نہیں۔ بھارت میں اگر گاندھی کے قاتل کو ہیرو کہنے والی لاکھوں ووٹوں کے مارجن سے انتخابات جیت سکتی ہے تو پاکستان میں قائد اعظم کو جناح صاحب کہنے والے اور تحریک پاکستان کے مخالف حکومت کیوں نہیں بنا سکتے۔ اگر انہوں نے بھارت جا کر کہا تھا کہ ایک عدد گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے!

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra