Sunday, 20 April 2025
  1.  Home
  2. Muhammad Irfan Nadeem
  3. Sirf Islam

Sirf Islam

صرف اسلام

آپ آج رات آسمان کی طرف دیکھیں، کچھ دیر خاموش رہیں اور سوچیں آپ جس سیارہ پر رہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ آپ جس زمین پر رہتے ہیں وہ ایک نظام شمسی کا حصہ ہے اور اس نظام شمسی میں ایک ارب سے زائد ستارے اور سیارے موجود ہیں۔ پھر اس نظام شمسی جیسی اربوں کہکشائیں اس کائنات کی وسعتوں میں بکھری پڑی ہیں اور یہ معلوم کہکشائیں اس کائنات کا صرف پانچ فیصد ہیں باقی پچانوے فیصد کائنات ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر پر مشتمل ہے جس کے بارے میں انسان کچھ نہیں جانتا۔

ہماری زمین جو ہمیں بہت بڑی لگتی ہے وہ سورج کے مقابلے میں ایک ذرے کے برابر بھی نہیں اور سورج خود اس کائنات کے کسی کونے میں ایک معمولی سا نکتہ ہے۔ کائنات ایک ایسا سربستہ راز ہے جسے جتنا کھولا جائے اتنے ہی نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ انسان اپنی ابتدا سے تاحال ستاروں کو تک رہا ہے، پہاڑوں کو چھو رہا ہے، سمندروں کی گہرائی کو ناپ رہا ہے اور ذروں کے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے مگر یہ تمام کوششیں ایک بنیادی سوال کے گرد گھومتی ہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ ہم کیا ہیں؟ یہ سب کس نے بنایا؟ کیوں بنایا؟

اس ترتیب اور نظم کا خالق کون ہے؟ وہ کیسا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ وہ کیا چاہتا ہے؟ اس نے یہ رنگ و بو کی دنیا کیوں بسائی ہے؟ یہ کائنات کی گونجتی فضا، ستاروں کا رقص، کہکشاؤں کا نظم اور انسانی شعور کا وجود یہ سب کچھ کس نے اور کیوں پیدا کیا اور وہ خود کون ہے، کہاں ہے، کیسا ہے؟ انسانی تاریخ کے ہر دور، ہر تہذیب اور ہر قوم میں یہ سوالات زیر بحث رہے ہیں اور ہر عہد کا انسان اس حتمی حقیقت اور خالق کی دریافت میں متجسس اور سرگرداں رہا ہے۔

کبھی یہ سوال افسانے اور اساطیر کی شکل میں ابھرا، کبھی فلسفیوں کے افکار میں، کبھی سائنسدانوں کے تجربات میں اور کبھی صوفیوں اور عارفوں کی دعاؤں میں۔ ہر عہد کا انسان جاننا چاہتا تھا اور آج بھی جاننا چاہتا ہے کہ کاش وہ دریافت کر لے کہ یہ سارا منظرکس نے تخلیق کیا ہے؟ وہ کوئی ذات ہے یا محض ایک قانون؟ وہ کسی ایک جگہ رہتا ہے یا ہر جگہ موجود ہے؟ وہ بے حس و حرکت ہے یا شعور و ارادے کا مالک؟ اور اگر وہ شعور رکھتا ہے تو وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوششیں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فکری، سائنسی اور روحانی سفر بن گیا ہے۔

ہر عہد کے انسان نے اس حتمی حقیقت اور خالق کو دریافت کرنے کی کوشش کی، اس کی موجودگی کے آثار تلاش کیے اور اس کے افعال کا مشاہدہ کیا مگر انسان کی تشنگی برقرار رہی۔ یونانی فلسفے میں افلاطون اور ارسطو نے کائنات کی ترتیب و تنظیم کو ایک اعلیٰ تر عقل یا "محرکِ اول" کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ وہ وجود قابلِ مشاہدہ نہیں بلکہ محض فکری ادراک کے دائرے میں رہتا ہے۔ قرون وسطیٰ میں مسلم مفکرین ابن سینا، فارابی اور امام غزالی نے خالق کی موجودگی پر فلسفیانہ اور کلامی دلائل دئیے۔ ابن سینا نے "واجب الوجود" کا تصور پیش کیا۔

مغربی فلسفے میں کانٹ، ہیگل، اسپینوزا اور دیگر مفکرین نے اس حتمی حقیقت اور خالق پر دلائل دئیے مگر کسی بھی فلسفی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اس حتمی حقیقت کو جان گیا ہے۔ نیوٹن نے کائنات کے قوانین کو خدا کا عکس قرار دیا، آئن سٹائن نے کہا کائنات کی ہم آہنگی کسی "خدائی عقل" کی مظہر ہے مگر وہ بھی اس خدا کو محض تصور میں لاسکا مشاہدہ نہ کر سکا۔ انسانی تاریخ کے تمام فلسفیوں اور سائنسدانوں کی ان سب کوششوں کے باوجود آج تک انسان اس حتمی حقیقت کو نہیں پا سکا، نہ اس کو دیکھ سکا، نہ مکمل جان سکا اور نہ ہی کسی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس حقیقت کو دنیا میں حسی طور پر دریافت کر چکا ہے یا دریافت کر سکتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں مذہبِ اسلام ایک منفرد اور جرأت مندانہ دعویٰ کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اسلام اس حتمی حقیقت اور اس خالق کو دنیا میں حسی طور پر دیکھنے کی بات تو نہیں کرتا لیکن اسلام یہ دعویٰ ضرور کرتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب انسان اس حتمی حقیقت اور اس خالق کو حسی طور پر دیکھ سکے گا۔ اسلام ایک ایسی حقیقت کی بشارت دیتا ہے جو نہ فلسفہ دے سکا، نہ سائنس اور نہ کوئی اور مذہب اور وہ بشارت یہ ہے کہ آخرت کے دن اہلِ ایمان کو اس حتمی حقیقت اور خالق کا دیدار نصیب ہوگا اور یہ دیدار محض نظریاتی یا تخیلاتی تجربہ نہیں ہوگا بلکہ ایک حقیقی اور براہِ راست مشاہدہ ہوگا۔ قرآن کہتا ہے "اس دن کچھ چہرے تر و تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ "

احادیث میں یہ مضمون مزید وضاحت سے آیا ہے، حضرت جریر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "تم اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے تم چودہویں کے چاند کو دیکھتے ہو، تمہیں اس کے دیدار میں کوئی دھندلاہٹ یا رکاوٹ محسوس نہیں ہوگی۔ " حتمی حقیقت اور خالق کے بالفعل مشاہدہ کا یہ دعویٰ نہ صرف منفرد ہے بلکہ تمام انسانی خواہشات، سوالات اور تلاشوں کا منطقی و فطری انجام بھی ہے۔

دنیا کے تمام فلسفی اور سائنسدان صرف تصور کر سکتے ہیں، مفروضے قائم کر سکتے ہیں، اندازے لگا سکتے ہیں اور دلائل اکٹھے کر سکتے ہیں مگر حقیقت اور خالق کی حتمی دریافت ان کے بس سے باہر ہے۔ اس دنیا میں انسان کا خالق سے رشتہ ایمان، عبادت اور قربت پر قائم ہے مگر آخرت میں وہ اس خالق کو براہِ راست دیکھ سکے گا اور یہی لمحہ انسان کے تمام سوالات کا جواب بن جائے گا۔ یہ حقیقت ہمیں بتاتی ہے کہ اگر کسی انسان، فلسفی یا سائنسدان کا تجسس اسے حتمی حقیقت کو پانے اور خالق کی دریافت پر مجبور کرتا ہے اور وہ اس حقیقت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے واحد راستہ اسلام ہے۔ اس خالق کو دیکھنے اور اس کائنات کی وسعتوں اور رازوں کو جاننے کے لیے اسے دائرہ اسلام میں آنا پڑے گا۔

اسلام کے سوا اس حتمی حقیقت کو دریافت کرنے کا دعویٰ نہ سائنس کر سکتی ہے، نہ فلسفہ اور نہ دیگر مذاہب۔ صرف اسلام ہی وہ واحد مذہب اور راستہ ہے جس نے اس مشاہدے کی خبر دی ہے اور اسے صرف ایمان، عبادت اور نیک اعمال کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سوال "کیا ہم اس کائنات کی وسعتوں اور رازوں کو جان سکتے ہیں اورکیا ہم اس سارے نظم کے خالق کو دیکھ سکتے ہیں؟" کا حتمی، مکمل اور آخری جواب صرف اسلام ہے۔

دنیا کی تمام فکری، فلسفیانہ اور سائنسی کوششیں صرف تلاش تک محدود ہیں، یہ کبھی دریافت تک نہیں پہنچ سکتی لیکن اسلام ایک ایسا دروازہ جس کے پار وہ حقیقت ہے جس کے لیے انسانوں نے ہمیشہ جستجو کی ہے۔ پس اگر انسان اس کائنات کے خالق کو حقیقت میں دیکھنے کا متمنی ہے، وہ اس کائنات کی حقیقتوں کو جاننے کا خواہاں ہے، وہ ظن و تخمین کی دنیا سے نکل کر یقین و مشاہدہ کی وادی میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اسے ایمان کے راستے پر آنا ہوگا اور اس ایمان کی واحد اور مکمل صورت دین اسلام ہے۔ یہی وہ دین ہے جو انسان کے ازلی تجسس کی تسکین کا سامان فراہم کرتا ہے، جو کائنات کی وسعتوں اور اس کے رازوں کو منکشف کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور اس حتمی حقیقت کے دیدار کی خوش خبری دیتا ہے۔ وہ دیدار جو عقل و علم کی انتہا اور انسان کی سب سے بڑی مراد ہے۔

Check Also

Atta Ul Haq Qasmi Ke Sath Goron Ke Dais Mein

By Abdullah Shohaz