Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Daily Urdu Columns Ka Muqabala Blog Naweesi, Aik Jaiza

Daily Urdu Columns Ka Muqabala Blog Naweesi, Aik Jaiza

ڈیلی اردو کالمز کا مقابلہ بلاگ نویسی، ایک جائزہ

ڈیلی اردو کالمز ڈاٹ کام کی جانب سے ماہ مارچ میں مقابلہ بلاگ نویسی کے نتائج کا اعلان باقاعدہ شیڈول کے مطابق بارہ اپریل کو کر دیا گیا ہے۔ اس مقابلہ میں کُل 26 بلاگرز نے شرکت کی۔ پہلی پوزیشن جناب جاوید ایاز خان نے حاصل کی۔ دوسری جناب ممتاز حسین جبکہ تیسری پوزیشن کے حقدار جناب نصرت عباس داسو قرار پائے۔ اسی طرح چوتھی پوزیشن کے مشترکہ حقدار محترمہ نمرہ اعجاز اور جناب سلامت اللہ خان کوقرار پائے۔

شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

مقابلہ جیتنے میں ناکام رہنے والوں تھوڑے بہت افسردہ دل اور شکستہ خاطر ہوں گے جو کہ ایک قدرتی امر ہے کیونکہ کامیابی خوشی کا باعث ہوتی ہے جبکہ ناکامی افسوس کا سبب بنتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس افسردہ دلی کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ ڈیلی اردو کالمز کی جیوری نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مقابلہ میں شامل ہونے والے تمام بلاگز معیار کی کسوٹی پر قابل تعریف قرار پائے ہیں اور اسی وجہ سے مقابلہ میں پوزیشن ہولڈرز کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔

اس مشکل کو حل کرنے کے لیے جیوری نے باریک بینی سے بلاگز کا جائزہ لینے کے بعد فاتحین کا اعلان قلمبند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مقابلہ کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے بلاگرز کو دل چھوٹا کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے بلکہ انہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حقائق کا سامنا کیا جائے اور اپنی کوتاہیوں، خامیوں، اغلاط وغیرہ بارے غور کیا جائے اور تحریروں کو مزید جاندار، مدلل اور ٹھوس بنایا جائے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ناکامی کوئی آسمان سے نہیں ٹپکتی بلکہ ناکامیوں میں ہماری دیدہ نا نادیدہ کمی بیشیوں کا دخل ہوتا ہے۔

ابا جی ہم سب بہن بھائیوں کو نصابی کتابی نظریات سے بچانے کے لیے تاریخی طور پر درست حقائق بتا تے تھے تاکہ ہم جماعتیا کلچر سے محفوظ رہ سکیں۔ لیکن ساتھ ہی ابا جی نے واضح کر دیا تھا کہ امتحانات میں نمبر گیم میں حصہ لینا ہے تو پھر وہی کچھ پرچوں میں لکھ نا چاہیے جو کہ سرکاری کتابوں میں درج کیا جاتا ہے کیونکہ نوے فیصد سے زائد اساتذہ، پیپر چیکر (جیوری) نظریاتی طور پر کتابوں سے وابستہ ہیں اور اسی وجہ سے اگر مولانا ابو الکلام آزاد، فاطمہ جناح یا قائداعظم کا کوئی قول جس سے دو قومی نظریہ کی نفی ہوتی ہو، یا اسلامائزیشن پر سوال اٹھتا ہو، پرچے میں لکھا جائے گا تو صفر نمبر یقینی ہوگا۔

اسی تناظر میں اب ہم دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ بلاگ چیکرز یعنی مقابلہ کی جیوری کی نفسیات کیا ہے، انہوں نے کون سے نکات کو سامنے رکھتے ہوئے فاتحین کا اعلان کیا۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے پوزیشن ہولڈرز کے بلاگ کا مطالعہ ایک لازمی عنصر ہے کیونکہ انہی بلاگز کے جائزہ سے جیوری کی پسند و ناپسند بارے قیاس کیا جا سکتا ہے۔

ماہ مارچ میں جناب جاوید ایاز خان نے کُل سات عدد بلاگ لکھے اور ان بلاگز کے موضوعات میں بڑھاپا، محبت، نفرت، تنہائی جیسے معاشرتی ایشوز کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یقینی طور پر جاوید ایاز خان صاحب کے طرز تحریر میں روانیت، الفاظ کا برمحل انتخاب، شگفتگی، ٹھہراؤ، مفاہمت پسندی، دھیما مزاج اور صلح جویانہ اور پند ونصائح جیسی خصوصیات بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ جبکہ حسِ مزاح اور حسِ سیاست کا تذکرہ شاید ہی کہیں موجودہو۔ حالانکہ معاشرتی مسائل کو سیاست سے جُدا نہیں کیا جا سکتا، یہ دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں۔ اکیسویں صدی اور سرمایہ دارانہ دنیا میں پند ونصائح سے کہیں زیادہ ضرورت دو ٹوک الفاظ میں "ساڈا حق، ایتھے رکھ" کی ہے!

دوسری پوزیشن پر آنے والے جناب ممتاز حسین صاحب کا کوئی بلاگ نظروں سے نہیں گزرا، لہذا ان کے طرز تحریر پر رائے دینا ممکن نہیں۔

اسی طرح جناب نصرت عباس داسو نے بھی کل سات عدد بلاگ مختلف موضوعات جیسے تعلیم، پاکستانی معاشرہ، ڈارون ازم، حیاتی، سائنس وغیرہ پر لکھے۔ داسو صاحب ہر فن مولا ہیں اور ان کے پاس مختلف مضامین کے مطابق الفاظ کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔

حیران کن طور پر نمرہ اعجاز صاحبہ نے ماہ مارچ میں پہلی دفعہ دو بلاگ لکھے اور پلک جھپکتے ہی مقابلہ میں چوتھا درجہ حاصل کر لیا۔ ان کے دو بلاگز کے موضوعات نفسیات اور فیشن پر ہیں۔ موصوفہ کو جو چیز دیگر بلاگرز سے منفرد بناتی ہے وہ استفہامیہ انداز ہے۔ بہت سے سوالات کو اٹھاتی ہیں اور ان کے جوابات حاصل کرنے کے لیے مغز کھپائی کرتی ہیں۔ روایات اور جدیدیت میں توازن قائم کرنے کا پرچار کرتی ہیں۔

ایک اور حیران کن طور پر یہ ہوا ہے کہ سلامت اللہ خان صاحب نے بھی دو بلاگ برائے مقابلہ نویسی بھیجے اور سوا سال بعد بلاگ لکھے ہیں۔ ان کے بلاگ کے موضوعات زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔

فاتحین کے بلاگز کابالا مجموعی لب لباب دیکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے اور دیگر بلاگرز کے موضوعات، طرز تحریر، بے دھڑک پن وغیرہ کو تصور میں لایا جائے تو راقم السطور کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جیوری بھی دراصل "جاوید چوہدری۔ ٹو" ہے جس نے موٹیویشنل سپیکر اور یتیمانہ طرز تحریر کو سر آنکھوں پر بٹھایا ہے۔ آج جب دنیا مریخ پر آباد ہونے کی طرف جار ہی ہے، ہماری جیوری ہمیں ایک صدی قبل ڈپٹی نذیر احمد کے اکبری اور اصغری کے زمانے میں لے جانا چاہتی ہے اور یہی نظریہ جماعتیا کلچر کہلاتاہے۔ اس لیے نتائج بارے "کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے" کو بعید از عقل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ آج خالی نصیحتوں اور میٹھے بولوں سے کام نہیں چلتا۔ آج ایسی روش کو شاطرانہ سوچ سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بینکار، بیمہ ساز اور دکاندار کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کی بجائے ان باتوں کے عین اُلٹ سمجھا جائے تو غریب بندہ ان کے شر و عتاب سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ " آج کے آج، آپ کی کار" کے شکنجے میں پھنسنے والے آج ہزاروں نوجوان پچھتا رہے ہیں کہ کاش انہوں نے مارکس کا مطالعہ کیا ہوتا تو بینک کے جال میں نہ پھنستے۔

ایک تعجب خیز بات یہ بھی نوٹ کی ہے کہ ڈیلی اردو کالمز کی ویب سائٹ پر ٹاپ بلاگرز کا ایک ٹیب ہے۔ نتائج کومد نظر رکھا جائے تو مقابلہ کے فاتحین میں سے کوئی بھی ٹاپ بلاگرز میں شامل نہیں ہوا سوائے اکا دُکا باری۔ یہ بھی لمحہ فکریہ ہے اور یا پھر ٹاپ بلاگرز میں دو نمبر طریقے سے بھی شامل ہوا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ انتظامیہ یا ویب سائٹ بنانے والوں کا ہے اس لیے ہم مزید ٹوہ لگانے سے قاصر ہیں۔

مُکدی گل یہ ہے کہ ڈیلی اردو کالمز کی جانب سے مقابلہ بلاگ نویسی لکھاریوں کو اپنی لکھتوں کو نکھارنے، انہیں خوب سے خوب تر بنانے اور پروفیشنلزم کی طرف لے جانے کی ایک عمدہ کاوش ہے جسے جاری رہنا چاہیے۔ نتائج تیار کرنے کے لیے جیوری میں اضافہ کیا جائے اور مختلف سبجیکٹ اسپیشلسٹ طرز پر جیوری قائم کی جائے جو تعلیم، سیاست، اسلام، سائنس، خارجہ پالیسی، معاشیات وغیرہ کے مضامین کا احاطہ کرتی ہوتاکہ مستقبل میں ان موضوعات پر لکھنے والوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو سکے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan