Jab Main Ne Anchor Banne Ka Imtihan Diya
جب میں نے اینکر بننے کا امتحان دیا

قصہ اُن دنوں کا ہے جب ایکسپریس نیوز ٹیلے وژن چینل پر مارننگ شو کی تیاری ہو رہی تھی۔ یادداشت درست ساتھ دے رہی ہے تو 2016 کا سن تھا اور جنوری کا مہینہ۔ شو کی آزمائشی مشقیں جاری تھی۔ ٹیلے وژن کی زبان میں اسے mock rehearsal یا صرف mock کہہ دیا جاتا ہے۔ اس مشق میں وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو اصل نشریات میں کیا جانا ہو، فرق بس اتنا کہ اصل شو کے مہمان بھی اصلی ہوتے ہیں، لیکن آزمائشی مشق کے دوران چینل میں کام کرنے والوں کو ہی مختلف کردار دے کر مہمان بنا دیا جاتا۔
کوئی وزیر بن جاتا، کوئی کسی سیاسی جماعت کا ترجمان، کوئی رپورٹر، کوئی ماہر معیشت۔۔ غرض موضوع کے حساب سے جس فرضی مہمان کی ضرورت ہوتی، نیوز روم سے کسی کو بھی اٹھا کر کیمرے کے سامنے بٹھا دیا جاتا۔ آزمائشی مشقوں کا مقصد پروگرام تیار کرنے والی ٹیم اور پیش کرنے والے اینکرز کی تیاری تھی۔ میں بھی نیوز روم میں کام کر رہا تھا تو اس مارننگ شو کی آزمائشی مشق میں کئی بار مجھے بھی بطور مہمان مدعو کیا گیا اور میں نے کئی کردار نبھائے۔
سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا۔ ٹھٹھکا میں اُس روز جب معمول کے اوقات کار سے ہٹ کر مجھے دفتر بلایا گیا اور کہا گیا کہ مارننگ شو کی آزمائشی مشق میں آپ نے سرخیاں پڑھنی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ آپ کا باقاعدہ میک آپ وغیرہ بھی کیا جائے گا اور ٹائی کوٹ بھی پہنیے گا۔
اب ٹائی کوٹ میرے پاس کوئی تھا نہیں، تو دیگر اینکرز کی الماریوں سے استفادہ کیا گیا۔ سبھی نے کشادہ دلی سے مدد کی۔ میک آپ والے نے بھی مجھے حسین بنانے کے لیے کمر کسی۔ یوں مکمل آرائش اور زیبائش کے بعد میں نے کیمرے پر سرخیاں پڑھیں۔ (بائیں طرف والی تصویر اس موقع پر میک آپ روم میں لی گئی)
حیرت یہ تھی کہ خاص میرے لیے ایسا اہتمام کیوں ہوا؟ بتایا گیا کہ ایسا کرنے کے لیے ادارے کے سربراہ نے کہا تھا۔ اُن سے جا کر پوچھا، وہ مسکرا کر بولے، کیوں بتائیں آپ کو؟
خیر، تھوڑے عرصے بعد کچھ ایسا ہوا کہ مارننگ شو کا منصوبہ ملتوی ہوگیا یا کھٹائی میں پڑ گیا۔
جنوری گزرا، فروری اور مارچ بھی گزر گئے۔ موسم نے پسینے نکالے تو میں نے حجام کے آگے سر جھکایا اور اضافی بوجھ سے نجات حاصل کر لی۔ اصل میں حجامت میرے لیے قیامت ہے۔ یا تو نائی کے پاس جاتا ہی نہیں ہوں اور جب چلا جاؤں تو بال اتنے چھوٹے کرا لیتا ہوں کہ اگلے کئی ماہ تک دوبارہ جانا ہی نہیں پڑتا۔ حجامت کے بعد سر کے بال بس اتنے ہی رہ گئے تھے جتنی نامہ اعمال میں نیکیاں۔ ایسے میں ایک بار پھر وہی احکامات آئے۔ اب کی بار واضح طور پر بتا دیا گیا کہ چینل انتظامیہ آپ کو اینکر بنانے کا سوچ رہی ہے، تو آپ کا امتحان لینا ہے۔ بولے تو آڈیشن۔
روز آزمائش آیا تو سبھی ساتھیوں نے دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ اسٹوڈیو کی طرف روانہ کیا۔ شفٹ پر موجود سبھی اینکروں نے بھی خوب حوصلہ افزائی کی اور خوشی کا اظہار کیا (یہ سوچتے ہوئے کہ اب آیا پروڈیوسر پہاڑ کے نیچے)۔ حسب روایت کوٹ اور ٹائی دیگر اینکرز سے مستعار لیے گئے۔ بلکہ بھائی عمران ثنا اللہ نے تو اپنی عینک بھی دی جس سے میں تھوڑا تھوڑا سا معتبر لگنے لگا۔ (دائیں طرف والی تصویر اس موقع کی ہے)
اب مجھ سے سرخیاں پڑھوائی گئیں، ایک سادہ اور ایک بریکنگ خبر پڑھوائی گئی، کسی مسئلے پر فرضی نمائندہ سے گفتگو کرائی گئی اور امتحان ختم ہوا۔ بعد میں کہا گیا کہ ابھی آپ کے بال بہت چھوٹے ہیں، جب ذرا اور بڑے ہو جائیں گے تو ایک بار پھر امتحان لیا جائے گا۔
ایک اور امتحان کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔ ایک باضابطہ آڈیشن دے چکا تھا، ایک اور آڈیشن بال بڑے ہونے پر لیا جانا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں میرا اینکر بننے کا کوئی بہت زیادہ جی نہیں چاہ رہا تھا۔ صاف انکار کرتے ہوئے بھی حیا سی آتی تھی۔ کچھ یہ بھی سوچتا تھا کہ چلو امتحان میں کامیاب ہو گئے تو بن جائیں گے اینکر، لیکن جز وقتی بنیں گے۔ مطلب اپنے افسروں سے کہیں گے کہ مجھ سے نیوز روم میں ہی کام لیجیے، ہاں کوئی ایک آدھ خبر نامہ بھی پڑھوا لیجیے۔
جب بال دوبارہ بڑھے اور منہ متھا کسی کو دکھائے جانے کے قابل ہوا تو ادارے کے سربراہ میرے پاس آئے اور مجھے لے کر ایک محترمہ کے پاس گئے۔ یہ اینکرز کے ملبوسات اور اسٹائلنگ کی ماہر تھیں۔ آڈیشن وغیرہ لینے کے معاملات بھی وہی دیکھا کرتی تھیں۔ ادارے کے سربراہ نے ان سے کہا کہ عمیر محمود کا آڈیشن لینا ہے۔ اس امتحان کے لیے اگلا روز طے ہوگیا۔
تب تک تو نیوز اینکر بننے میں رہی سہی دل چسپی بھی ختم ہی ہو چکی تھی۔ اگلے روز میں دھڑکتے دل کے ساتھ دفتر میں اپنا کام کرتا رہا اور بلاوے کا انتظار کرتا رہا، لیکن اُن خاتون کو آڈیشن لینا یاد ہی نہ رہا۔ یہی اس سے اگلے روز ہوا اور اس سے اگلے روز بھی۔ لگ بھگ دو ہفتے گزر گئے اور وہ میرا آڈیشن لینا بھول گئیں۔ ادارے کے جن سربراہ نے آڈیشن لینے کا کہا تھا، انہیں بھی یاد نہ آیا۔ میں تو اس صورت حال پر خوش تھا۔ لیکن ڈرتا اس بات سے تھا کہ اگر کبھی وہ پوچھ بیٹھے تو کیا ہوگا؟ جو میں نے جواب دیا کہ ان محترمہ نے پھر مجھے بلایا ہی نہیں، تو اس بات پر ڈانٹ نہ پڑ جائے کہ انہوں نے نہیں بلایا تھا تو آپ چلے جاتے۔
اس متوقع صورت حال کے لیے میں نے شعر بھی یاد کرکے رکھ لیا تھا۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
مطلب، کہہ دوں گا کہ جب ان خاتون نے نہیں پوچھا تو میری بھی وضع داری کا تقاضا تھا کہ ان سے نہ پوچھتا۔ بہرحال خیریت گزری، نہ کبھی ادارے کے سربراہ کو یاد آیا اور نہ ہی دوبارہ کبھی اینکر بننے کے امتحان سے گزرنا پڑا۔
جیہو جئی بوتھی
اوتھے ای آن کھلوتی

