Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Mona Khan
  3. Made In Pakistan

Made In Pakistan

میڈ ان پاکستان

ویسے تو پاکستان میں ہر مظلوم فرد اپنی زندگی کے سفرکی گاڑی چلانے میں دن رات ایک کر دیتا ہے مگر مسافت طے کرنے کے لیے اصل گاڑی بھی بے حد ضروری ہے، چاہے وہ موٹرسائیکل ہو، رکشہ ہو یا چمچماتی نایاب گاڑی کو پورا کرنے کے لیے ملک کا معاشی پہیہ مناسب اسپیڈ کے ساتھ چلتے رہنا چاہیے۔

اتفاق سے پچھلے دنوں میرا لاہور ایکسپو سینٹر میں ملک کی سب سے بڑی تین روزہ آٹو موبائل کی نمائش میں جانا ہوا اور اس نمائش کی سب سے خوبصورت بات یہی تھی "Make in Pakistan جس کے میزبان (PAAPAM) Pakistan Association of Automotive Parts and Accessories Manufacturers کا مقصد ہی پاکستانی آٹو کمپنیوں کی حوصلہ افزائی اور پروموٹ کرنا تھا۔

میرا بھی جی چاہا کہ اس نمائش سے حاصل ہونے والی معلومات کو اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کروں تاکہ اس کی اہمیت اور افادیت سے ایک عام قاری بھی مستفید ہو سکے۔ میرے لیے اس نمائش میں شرکت کرنا ایک حیرت انگیز اور خوشگوار تجربہ یوں رہا کہ اس نمائش میں شرکت نے میری معلومات میں بہت اضافہ کیا۔ 1999میں، اپنے قیام کے وقت سے، پی اے اے پی اے ایم نے کامیابی سے اپنا سفر طے کیا ہے اور اب اس کے رجسٹر شدہ ارکان کی تعداد 299 ہے۔

پاکستان میں تقریباً3، 000 آٹو پارٹس مینوفیکچررز کام کر رہے ہیں اور اِس انڈسٹری نے باعزت روزگار اور آمدنی کے تقریباً 3 ملین مواقع پیدا کیے ہیں، پانچ لاکھ ماہر کاریگروں کو بلا واسطہ اور 2.4 ملین افراد کو بالواسطہ ملازمت فراہم کی ہے۔ اس انڈسٹری نے 400 ارب روپے کی غیر معمولی سرمایہ کاری کا حجم پیدا کیا ہے اور قومی خزانے کو سالانہ 90 ارب روپے بطور ٹیکس ادا کرتی ہے۔

یہ نمائش 21 سے 23 فروری تک جاری رہی جس میں، نئی ٹیکنالوجیز کے بارے میں آگاہی اور انڈسٹری میں ہونے والی پیشرفت کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کے شوقین سمیت ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ نمائش کی خاص بات یہ تھی کہ 100 سے زائد مقامی اور بین الاقوامی آٹو مینوفیکچررز کی مصنوعات اور خدمات کی وسیع رینج موجود تھی۔ پاکستان کی آٹوموبیل انڈسٹری میں ہونے والے شاندار ترقی اور وسیع گنجائش کا مظاہرہ پیش کیا گیا تھا جس سے آٹو مینوفیکچرنگ میں مستقبل کا ہب بننے کے لیے قوم کی جدوجہد کا اظہار ہوتا ہے۔

آٹو شو میں مقامی کار، ٹرک، بس، ٹریکٹر، موٹرسائیکل سازکمپنیوں اور ان کے پرزہ جات بنانے والے کمپنیوں کے سو سے زائد اسٹالز لگائے گئے، افتتاحی تقریب میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں انجم نثار، لاہورچیمبر کے صدر عرفان اقبال شیخ، انجینئرنگ ڈویلپمینٹ بورڈ کے چیئرمین الماس حیدر، پاپام کے سینئر رہنما اور پڈمک کے چیئرمین نبیل ہاشمی، پاپام کے چیئرمین کیپٹن ریٹائرڈ محمد اکرم سمیت دیگر نے شرکت کی۔

(PAAPAM) کے چیئرمین کیپٹن (ر) محمد اکرم کا کہنا تھا کہ نمائش Make in Pakistan اس لیے منعقد کی گئی ہے تا کہ لوگوں کو آگاہی ہو کہ پاکستان میں آٹو کی بڑی صنعت موجود ہے اور اس میں جتنی بھی پاکستانی کمپنیاں ہیں وہ بہت اعلیٰ اور عمدہ کام کر رہی ہیں، بس یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان آٹو پارٹس کی لوکل مارکیٹ کو آگے لانے میں مدد کرے اور ایسی پالیسیز لائی جائیں جن سے یہ صنعت مزید ترقی کرے۔

صدر ایف پی سی سی آئی میاں انجم نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان آٹوشو2020 کا انعقاد خوش آیند ہے، پاکستان کی آٹوکی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، تاہم اس وقت آٹو سمیت تمام صنعتی شعبوں کو سب سے اہم مسئلہ شرح سود ہے، حکومت شرح سود کو کم کرے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔

نبیل ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاپام کے زیر اہتمام یہ سولہواں آٹو شو ہے، اس آٹو شو میں دنیا بھرسے خریدار آ رہے ہیں، اگرحکومت آٹو سیکٹر کے لیے نرم پالیسیاں فراہم کرے تو یہ سیکٹر مزید ترقی کر سکتا ہے۔ آٹو شو کے دیگر اہم پہلوؤں میں معلومات پر مبنی متعدد سیمینارز اور تربیتی ورکشاپس بھی تھے جن میں فاضل مقررین اور ماہرین نے شرکاء سے خطاب کیا اور اْنہیں قیمتی معلومات فراہم کیں۔ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد نے اِن سیمینارز اور ورکشاپس کو بہت سراہا۔

انڈسٹری کے رہنماؤں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ، ماہرین کی مشاورت سے، ایک مؤثرآٹو پالیسی تیار کرے کیوں کہ ہماری انڈسٹری کو تیزی سے ترقی کرنے کے قابل بنانے کے لیے ایک اہم پالیسی کا طویل عرصے سے انتظار ہے۔ ایسو سی ایشن آٹو انڈسٹری کو متحد رکھنے والی قوت کے طور پر اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

پاکستان آٹو شو 2020کے دوسرے دن "آٹوموٹیو انڈسٹری کا مستقبل" کے عنوان سے ایک سمپوزیم منعقد ہوا۔ پی اے اے پی اے ایم سمپوزیم 2020کے پہلے ایڈیشن کا مقصد ایک ایسا پلیٹ فراہم مہیا کرنا تھا جہاں صنعت کے اہم اسٹیک ہولڈرز اور اوریجنل ایکوپمنٹ مینوفیکچررز (او ای ایم ) کو ایک دوسرے کے قریب آ سکیں اور پائیدار ترقی کے لیے معلومات کا تبادلہ کرنے کے علاوہ پالیسیوں کو ہم آہنگ بنانے اور آٹو انجینئرنگ انڈسٹری کو درپیش حالیہ چیلنجوں سے نمٹنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے تجاویز پیش کر سکیں۔

سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے چیف آرگنائزز، افتخار احمد نے کہا "اس ایونٹ کا بنیادی مقصد صنعت، حکومت، تعلیمی اداروں کے درمیان رابطہ، اسٹیک ہولڈروں، انجینئروں، اوریجنل ایکوپمنٹ مینوفیکچررز (او ای ایم)، آٹو پارٹس بنانے والوں (اے پی ایم)، اور استعمال کرنے والوں کو اکھٹا کرنا تھا تا کہ وہ بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو سمجھ سکیں اور اپنے شعبے کی پائیدار ترقی کے لیے مناسب پالیسیاں تشکیل دینے کے علاوہ قومی معیشت میں اپنے حصے میں اضافہ کر سکیں۔"

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad