لوگ کیا کہیں گے
سازشیں، غیبتیں، پیٹھ پیچھے وار
لوگ بھول بیٹھے ہیں کہ کوئی کن بھی کہتا ہے
عجیب ستم ہے کہ ہم ڈروخوف کی وجہ سے کبھی کبھارجائز بات پر بھی لب سی لیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ابھی پچھلے دنوں سینئر صحافی کا کالم پڑھا جس کا عنوان تھا "میڈیا کا بد ترین بحران" تو ہمیں بھی اپنا بحران یاد آیا، جب زمانے کی گرم ہوا کھانے کے عادی نہیں تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایکسپریس انٹرٹینمنٹ پرجویریہ مسعودکا مارننگ شو"ست رنگی"کرتی تھی اور شوکو خواتین میں کافی پذیرائی مل رہی تھی۔ ایکسپریس کی رمضان ٹرانسمیشن میں ہی ڈاکٹر نے خوش خبری سنائی کہمیں کانٹینٹ منیجرکے ساتھ ساتھ اب ماں کے مرتبے پر فائز ہونے جا رہی ہوں۔
لاہور سے کراچی رمضان ٹرانسمیشن کرنے کے بعد آنا ہوا تو ایک نامور چینل نے کانٹینٹ پروڈیوسرکا اشتہار دیا، جس پر میں نے بھی اس جاب کے لیے اپلائی کیا، جوائن کرنے سے پہلے مجھے کچھ کانٹینٹ ڈیزائن کرنے کو کہا گیا جس کو سراہتے ہوئے مجھے اس بنیاد پر رکھا گیا کہ یہ میری پکی نوکری ہوگی۔ جوائن کرتے وقت نہ کوئی فارم بھرا گیا، لہٰذا اس فارم کے کسی کونے میں ضرور کرتی کہ i am expecting۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ رات دو بجے جویریہ سعود نے مجھے کال کی اورکہا کہ ہم ایک ٹیم ہیں، ایکسپریس کی، فیملی ہیں اور تمہیں جو مسئلہ ہے وہ ڈسکس کرکے حل ہو سکتا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ میرے شوہر جو ان دنوں بے روزگار تھے، ان کے لیے جاب کے حوالے سے اپنا یقین دلایا۔ یہ لکھتے ہوئے میں جویریہ سعود سے معذرت کرنا چاہوں گی کہمیں ان کے اس پیار اوراپنائیت کو سمجھ نہ سکی۔
زندگی میں ہر انسان خوب سے خوب تر اور آگے بڑھنے کی لگن رکھتا ہے اوردوسرا ایک نامورچینل کا حصہ بننا یہ میری دیرینہ خواہش بھی تھی کیونکہ 2009 میں کراچی یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرزکے بعد میں نے ایڑی چوٹی کا زورلگایا تھا کہ کم سے کم میں انٹرن شپ پاکستان کے اتنے بڑے چینل سے کرسکوں جس پر فیض احمد فیض کا شعر ہے۔
نہیں نگاہمیں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر توآرزو ہی سہی
بظاہر شروع شروع میں ہر چیز صحیح لگ رہی تھی مگر اصل امتحان تو زندگی میں اب شروع ہونے والا تھا جب صبح سویرے 6 بجے میرے گھرکے باہرگاڑی کھڑی کر دی جاتی تھی جس پر آفس کا یہ کہنا تھا کہ ایک محترمہ جو چینل کی پرانی ایمپلائی تھیں، ان کے کام کی نوعیت کی وجہ سے جلدی پہنچنا تھا چونکہ بدقسمتی سے میں ان کی پڑوسی تھی تو ان صاحبہ کی بدولت میں آفس 6:45 پر موجود ہوتی۔ نئی نئی جاب تھی لہٰذا اپنی سر توڑ کوشش رہتی تھی کہ اپنی محنت سے جگہ بنالی جائے اور اپنی نوکری سے کھیلا نہ جائے۔ مجھے اپنے کانٹینٹ کو بار بار ایک ایک الفاظ چیک کروانے کے لیے دو دوگھنٹے انتظار کرنا پڑا، میری ایک اور محترمہ باس تھیں۔
شاید وہ میری ذہانت کے ساتھ ساتھ صبرکا لیول بھی چیک کر رہی تھیں، مجھے کبھی اپنے آفس دعوت دے کر بٹھا دیتیں اور اپنے سامنے قلم اور ڈائری لے کر میرے مارننگ شو کے آئیڈیاز پوچھے جاتے اور وہ لکھنے میں مگن رہتیں۔ مجھے کام کرتے دو ماہ مشکل سے ہونے کو تھے کہ ایک دن میرے سینئر پروڈیوسر نے اپنے آفس بلا کر کہا کہ H.R میں آپ کے کام کے حوالے سے اچھے ریمارکس نہیں گئے جس میں Slow Coordination بھی ہے۔
میں حیرانگی سے ان کا منہ تکتی رہی کہ میرا کام تو کوآرڈینیشن کا تو ہے ہی نہیں جبکہمیں صبح 6:45 سے لے کر رات دس یا گیارہ بجے واپس گھر جاتی ہوں اور جو میری ماں بننے کی کنڈیشن تھی اس پر میں نے کبھی کسی ایکسکیوز نہیں دیا تھا۔ شاید یہ زندگی میں پہلی دفعہ تھا کہ میرے کام پر سوال اٹھایا گیا ہو۔ یقینا ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کسی پرانے ایمپلائی کو بچانے کے چکر میں مجھے پیش کردیا گیا۔
میرے سینئر پروڈیوسر نے ذرا دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھی آفر دی کہ اس ماہ کام کرنا چاہیے تو کریں تب تک دیکھتے ہیں۔ میں نے ان کی اس آفر کے ساتھ شکریہ کیا اور اپنا لیپ ٹاپ اور آفس کی دوسری امانت اٹھا کر اپنی قابل احترام باس محترمہ کے آفس میں رکھا اور نہایت ادب کے ساتھ میسج کیا کہ مجھے میرے کام کی اجرت بس ٹائم پر دے دیجیے گا۔ وہ دن میرے لیے بہت زیادہ کرب آمیز تھا اور آنکھوں سے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔
اگر موجیں ڈبو دیتیں توکچھ تسکین ہو جاتی
کناروں نے ڈبویا ہے، مجھے اس بات کا غم ہے
آفس سے گھرکا راستہ رکشے میں کوئی طویل سفر لگ رہا تھا۔ آنکھوں میں آنسو اور ذہن میں دس ہزار سوچیں کہ میاں کی بے روزگاری اور آنے والے دنوں میں بچے کی آمد شاید زندگی اس موڑ پر مجھے زیرو پر لے آئی تھی۔ یہ لکھتے وقت میں پھر اسی درد بھرے احساسات سے گزر رہی ہوں مگر اس کو شیئرکرنے کا مقصد ان تمام خواتین کو ہمت دلانا ہے جو اپنی زندگی کی کسی نہ کسی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
میں اپنی اس حالت میں بھی گھر نہ بیٹھی بلکہ بذریعہ ریل گاڑی اسلام آباد پہنچ گئی۔ پی ٹی وی نیوز پر۔ اس وقت عبدالمالک پی ٹی وی ایم ڈی اور پرویز رشید انفارمیشن منسٹر تھے۔ خیر انھی بے روزگاری کے دنوں میں اسلام آباد میں اسی چینل کا مارننگ شو ضرور دیکھتی تھی اور وہ شو میرے انھی آئیڈیاز پر ڈیزائن کیے جاتے تھے جو اپنی باس محترمہ کے ساتھ ڈسکس کرتی تھی اور اس وقت بے کار کہہ کر رد کردیتی تھی۔
ابھی میرا بیٹا صرف تین ماہ کا ہی ہوگا کہ مجھے آج نیوزکی رمضان ٹرانسمیشن کرنے کی بہت اچھی آفر آئی اور میں اپنے کام میں مصروف ہوگئی، کچھ ماہ ہی گزرے ہوں گے تو یہ خبر بھی مل گئی تھی کہ مذکورہ چینل پر ہوسٹ تبدیل کرکے نادیہ خان آگئی ہے اور ساتھ ساتھ پرانی ٹیم میں بھی رد وبدل کیا گیا، شاید اس دفعہ انھیں کوئی مجھ جیسا بکرا نہ ملا ہو۔
بے شک بر ا وقت اس لیے آتا ہے کہ ایک دن ضرور اچھا وقت آتا ہے کیونکہ رات کے بعد نئی صبح ہے۔