کراچی، PSL اور سندھ رینجرز
اپنی ڈائری کے اوراق کو جب میں پلٹتی ہوں تو وہاں مجھے وہ اجڑا ہوا کراچی یاد آتا ہے۔ جب میں ایک دن اسکول کے بستے میں اپنی کتابوں کو رکھتے ہوئے والد صاحب کے یہ الفاظ سنتی ہوں " ہمیں کراچی سے چلے جانا چاہیے، یہ شہر اب ہمارا نہیں رہا۔" یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہر میں بوری بند لاشیں ملنا معمول کی بات تھی، لاقانونیت کے راج نے عام شہریوں کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا تھا۔ ان میں بعض تو اتنے دلبرداشتہ یا مایوس ہوئے کہ وہ ایک اور ہجرت کرنے پر مجبور کردیے گئے۔ شہر میں سیاسی مخالفین کو اذیتیں دینے کے لیے ٹارچر سیلز بنائے گئے تھے۔ دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ، قتل وغارت گری کا بازارگرم تھا۔
بھتہ خوری کے عمل نے عام شہری سمیت تاجر طبقے کو خوفزدہ کردیا تھا۔ شہر کا کوئی گھر، گلی، محلہ یا سڑک راہزنوں سے محفوظ نہ تھی، شاہراہیں مقتل بن چکی تھیں۔ حصول روزگار کے لیے گھروں سے نکلنے والا ہزارہا افراد کے اہل خانہ کو یہی دھڑکا لگا رہتا کہیں وہ شام کو زندہ سلامت لوٹیں گے یا پھر کسی اندھی گولی کا نشانہ بن جائیں گے۔ ناجائز اسلحہ کی نمائش اور استعمال علاقہ غیر کہلانے والی سر زمین کی طرح معمول کی شرح کہیں بلند ہو چکی تھی۔
ٹارگٹ کلنگ کے لیے کرائے کے قاتل بے خوف دندناتے پھر رہے تھے۔ حکومتوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے خود ایسے جرائم میں ملوث تھے۔ کرپشن، چائنا کٹنگ، اداروں میں لوٹ مار، جس پولیس نے اس شہرکو جرائم سے پاک کرکے امن و امان کو یقینی بنانا تھا اس کی اکثریت جرائم پیشہ افراد کی سر پرست بن چکی تھی۔ صوبائی و وفاقی حکومتوں میں اثر و رسوخ رکھنے والوں کے دباؤ میں ان جرائم پیشہ عناصر پر ہاتھ ڈالنے کی جرات پولیس نہیں کرسکتی تھی۔ گزشتہ تین دہائیوں کا عرصہ ایسا تھا کہ کراچی کو دس منٹ کے نوٹس پر بند کردیا جاتا تھا، جلاؤ گھیراؤ کے دوران رکشے، بسیں اور کھوکھے بھی جلائے جاتے تھے۔
ایک دن کی ہڑتال سے کراچی میں کئی ارب روپے کا معاشی نقصان ہوتا، امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث کراچی جو صنعتی مرکز تھا وہ صنعتیں یہاں سے پنجاب اور خیبر پختو نخوا منتقل ہونا شروع ہوگئیں، جو نئی سرمایہ کاری تھی، وہ بند ہوگئی۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی، جو شہر غریب پرور، بندہ نواز اورغریب کی ماں کہلاتا تھا۔ وہ انتہائی غیر محفوظ ہوگیا، غریب اور محنت کش طبقے کے لیے۔ کراچی کا قدیم ترین علاقہ جہاں محنت کش، مزدور طبقے کے افراد رہائش پذیر تھے، وہاں لیاری گینگ وار نے جنم لیا، اور عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا۔ شہر مقتل بن گیا، انسانی جانوں کی بے قدری اور وقعت کا اندازہ اس بے حسی سے لگایا جاسکتاہے جب کراچی کی سپریم کورٹ رجسٹری میں معزز ججز کے سامنے ایک اعلی پولیس افسر نے بیان دیا، کہ آج کا اسکور یہ رہا (یعنی اتنے افراد قتل ہوئے) عدالت نے پولیس آفیسرکی سرزنش کی لیکن حقیقت یہ تھی کہ بے حسی آخری حدوں کو پارگئی تھی۔ ہر طرف نا امیدی کی فضا تھی۔
یہاں تک لوگ سوچنا شروع ہوچکے تھے کہ کہیں مشرقی پاکستان کی طرح کراچی بھی علیحدہ نہ ہوجائے، لیکن جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو قانون فطرت کے تحت ظالموں کی پکڑشروع ہوجاتی ہے، چنانچہ اس قانونِ قدرت نے اپنا رنگ دکھایا اور ستمبر 2013ء میں رینجرز اس شہر کی نجات دہندہ بن کر مصروف عمل ہوئی۔ خفیہ ایجنسیوں نے جرائم پیشہ افراد، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کا سراغ لگایا اس نشاندہی پر رینجرز نے ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز کیا دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، راہزنوں، اشرافیہ کا لبادہ اوڑھے بدمعاشوں پر ہاتھ ڈالا گیا لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ ایسے عناصر کو گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کیا جاتا تو سزا دلوانے کے بجائے ایسا چالان بنایا جاتا کہ وہ عدالت سے رہا ہو جاتے۔
ایپکس کمیٹیوں کے اجلاس میں آپریشن کے حوالے سے جو فیصلے کیے جاتے پر اسرار طریقے سے وہ فیصلے ان عناصر تک پہنچ جاتے جن کو آپریشن کے شکنجے میں لانا تھا یہ لوگ گرفتاریوں سے بچنے کے لیے اندرون سندھ فرار ہو جاتے لیکن رینجرزکو اندرون سندھ تعاقب میں جانے پر قدغنیں عائد کر دی گئیں، ظاہر ہے رینجرز کا کام شہری امن و امان برقرار رکھنا نہیں ہے یہ ذمے داری پولیس کی ہے مگر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ سندھ حکومت نے اسے دس سال ہونے کو آئے پولیس کو اس قابل بنانے کے لیے ایک انچ پیش رفت نہیں کی کہ وہ رینجرز کی جگہ لے سکے اور رینجرز ملکی سلامتی کے حوالے سے اپنی اصل ذمے داریوں کی جانب لوٹ جائے۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ملک دشمنوں نے انتشار پیدا کرنے کی لیے ففتھ جنریشن وارکا سہارا لیا تھا، سندھ رینجرز نے کراچی میں 19ہزار سے زائد آپریشن کرکے امن وامان کی بحالی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سندھ رینجرزکی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ امن لوٹ آیا، کراچی کے امن میں رینجرز کا کردار کلیدی رہا ہے۔
قیام امن پر رینجرز کے تمام افسران، عہدیداران اور سپاہی داد کے مستحق ہیں۔ سندھ رینجرز کی محنت اور جانی قربانیاں کراچی کے امن آپریشن کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ سلام ان ماؤں کی عظمت کو جنھوں نے اپنے بیٹے وطن پر قربان کر دیے، صبرورضا کی پیکر ماؤں نے اپنی قوم کے کل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنا آج قربان کردیا۔ اس شہر میں میرے اپنے پیارے چھوٹے بھائی سید نصیرالدین شاہ ہمدانی کا خون بھی شامل ہے۔ آج یہ وہی شہر ہنستا ہے، کھیلتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو میری رونقیں واپس آگئیں اور جب PSL شروع ہوتا ہے تو پورا شہر دلہن کی طرح سج جاتا ہے۔ پورا شہر دیوانہ وار اسٹیڈیم کا رخ کرتا ہے، بغیر کسی خوف کے۔ سندھ رینجرز کا ہیڈکوارٹر کراچی میں ہے۔ جو بھارت کے ساتھ 912کلومیٹر لمبی سرحد ( لائن آف کنٹرول) کی حفاظت کرتا ہے۔ آج کل کراچی میں امن کی فضا قائم رکھنے میں سرگرم عمل ہے۔
ڈی جی رینجرز (سندھ) میجر جنرل عمر احمد بخاری کے زیر قیادت یہ آپریشن مکمل طور پر غیر سیاسی اور بلاامتیاز ہے اور ہر طرح کی مصلحت اور دباؤ سے آزاد ہے کیونکہ عوام کو خوف سے آزاد ماحول میسر کرنا، قانون کی بالا دستی اور امن وامان کی فضا بہتر رکھنا رینجرز کے اہداف میں شامل ہے۔ رینجرز شہر میں قیام امن میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے اور کراچی کے امن کی بحالی کا جب بھی تذکرہ ہو گا تو رینجرز کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس دلہن کو سجانے کا سہرا سندھ رینجرز کو ضرور جاتا ہے جنھوں نے کامیاب آپریشن کرکے دہشت گردی کے شہر سے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کراچی کے شہری جو امن و امان کے خواہشمند ہیں وہ کراچی میں رینجرز کے مستقل قیام کے آرزو مند ہیں، یہ خیال ہی ان کے لیے سوہان روح ہے کہ اس شہر سے رینجرز چلی گئی تو پھر وہ خدانخواستہ دوبارہ ہولناک صورتحال کا شکار نہ ہو جائیں۔