سر جان جیکب اور جیکب آباد کے لوگ
ان کی ذہانت، سچائی، ایمانداری اور بہادری دیکھتے ہوئے انھیں کچھ عرصے کے لیے 18 جنوری 1858 میں کمشنر کی بھی ذمے داری سونپی گئی تھی مگر ان کا دل تو خان گڑھ کے لوگوں سے جڑاہوا تھا، اس لیے وہ زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارتے تھے۔ انھوں نے دو بڑے Clocks بنائے تھے جن میں سے ایک تو اب بھی جیکب آباد کے ایک چوراہے پر لگا ہوا ہے۔ انھوں نے جو Clock بنوایاتھا اس میں تاریخ، وقت، مہینہ، شمسی اور قمری کیلنڈر بھی تھے۔ انھوں نے تقریباً 11 سال جیکب آباد میں گزارے جو ان کی زندگی کے سنہرے دن تھے اور یہ عرصہ 1847 سے 1858 تک تھا۔
ان کا پسندیدہ گھوڑا Messengerتھا، جب وہ مر گیا تو جیکب کو بڑا صدمہ ہوا اور اسے ریڈکراس اسپتال جیکب آباد میں دفن کیا گیا۔ انھیں اپنی والدہ سوزینہ(Sussena) سے بھی بڑا پیار تھا۔ ان کے دادا ایڈورڈ جیکب سرجن کے علاوہ فیور شام شہر کے میئر بھی رہ چکے تھے اور انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی تھیں۔ جان جیکب نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے گھر ہی میں حاصل کی تھی۔
ان کے بھائی Herbert جیکب بھی ہندوستان آرمی سے میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جان جیکب 1841 میں کمانڈر آف کیولری (گھوڑے سوار) رجمنٹ بھی رہ چکے تھے اور ان کے کنٹرول میں 500 سولجرز اور کئی توپیں ہوتی تھیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب جان جیکب کو بالائی سندھ میں ہونے والے لوگوں پر حملے کو روکنے کے لیے بھیجا گیا تھا تو انھوں نے وہاں پر 4 آرمی چیک پوسٹ بنائیں جو خان گڑھ (جیکب آباد)، مبارک پور، گڑھی حسن کشمور اور شاہ پور تھیں۔
وہاں جاکر جان نے خان گڑھ کا قلعہ گرا کر اپنی رہائش بنوائی۔ آہستہ آہستہ انھوں نے خان گڑھ کے لوگوں کا اعتماد بحال کرا کر انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ علاقہ نہ چھوڑیں اور زمینداروں، بیوپاروں اور عام آدمی کو کہا کہ وہ اپنا اپنا کام کریں اور انھیں پورا تحفظ دیا جائے گا جو ا نھوں نے کرکے دکھایا جس کی وجہ سے زراعت نے ترقی کی اور پھر مزید آبپاشی نظام کو بہتر بنانے کے لیے انھوں نے بیگاری کو چوڑا کردیا۔ پہلے سال کوئی بھی زرعی یا آبپاشی ٹیکس نہیں وصول کیا، لیکن دوسرے سال One Fourth ٹیکس لگایا اور بعد میں دو سال کے بعد One Third Share کردیا اور جو بھی رقم ٹیکس کی مد میں آتی تھی، اس رقم سے انھوں نے نئی سڑکیں بنوائیں تاکہ جیکب آبادسے دوسرے شہروں میں فصل اور دوسری اشیا بھیجی جاسکیں اور وہاں سے یہاں پر لائی جاسکیں جس سے جیکب آباد تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔
کینال کے دونوں طرف Path بنائے گئے اور اس میں بہترین اچھے اور مضبوط قسم کے درختوں کے پودے لگائے گئے تاکہ اس سے لکڑی بھی حاصل ہو اور ٹھنڈک بھی۔ ان خدمات کے سلسلے میں انگریز حکومت نے انھیں 1855 میں لیفٹیننٹ کرنل بنادیا۔ انھیں آثار قدیمہ سے بھی بڑی دلچسپی تھی۔ وہ 1857 میں برگیڈیئر پھر جنرل بنائے گئے۔
آخری دنوں میں اے ڈی سی کوئین وکٹوریا آف انگلینڈ بھی رہے۔ وہ ایک Committed شخص تھے، جن میں انتظامی صلاحیتوں سے لے کر سیاست، سائنس، مکینک انجینئر، ادیب، رومانی شاعری اور Arthmatics تک بڑی دسترس اور عبور حاصل تھا۔ جیکب آباد کے لوگوں اور علاقے سے انھیں اتنی محبت ہوگئی تھی کہ انھوں نے شادی نہ کی اور اپنی فیملی، دوستوں اور رشتے داروں سے دور رہے، صرف علاقے اور ان کے لوگوں کی محبت کی وجہ سے۔ ایک دن کسی نے سوال کیا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ "شادی کے لیے اپنے ہم سفر کو سمجھنا ہوتا ہے اسے وقت دینا پڑتا ہے جو میں نہیں دے سکتا۔" جیکب میں یہ بھی صلاحیت تھی کہ وہ بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔
قانون کی بالادستی، امن و امان کی بحالی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ جیکب آباد کی ترقی کے لیے انھوں نے وہاں پر تجارت کرنے والوں کو کہا کہ وہ خود اشیا کی قیمتیں مقرر کریں۔ مستری اور مزدوروں سے کہا کہ وہ اپنی اجرت خود مقرر کریں جو ان کا حق ہے۔ اس وجہ سے سب خوش ہوئے، ایمانداری سے کام کیا اور سب لوگ خوشحال ہوتے گئے اور شہر بھی ترقی کرگیا۔ جب وہ سندھ کے ایکٹنگ کمشنر بنے تو انھوں نے ریلوے نظام کو ملیر اور ریجنل ریلوے سروس کی شروعات کروائی۔
جب وہ پورا سندھ دیکھ چکے تو انھوں نے کئی کتابیں لکھ ڈالیں، یہ کتابیں اس وقت لندن کی لائبریری میں موجود ہیں مگر افسوس ہم انھیں سنبھال نہیں سکے۔ ان کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے انھیں کئی میڈلز، انعامات اور سرٹیفکیٹس سے نوازا گیا۔ جان جیکب برٹش حکومت کے آرمی آفیسر تھے جو بعد ازاں انتظامی افسربنے، لیکن ان کو سندھ اور شہر جیکب آباد سے اتنا پیار تھا کہ وہ واپس انگلستان نہیں گئے۔
انھیں دماغی ملیریا ہوا، جو جان لیوا ثابت ہوا، اور وہ 6 دسمبر 1858 کو جیکب آباد میں ہی وفات پاگئے، پورا علاقہ سوگ میں کئی دن تک بند رہا، ان کی تدفین میول شاہ قبرستان میں کی گئی اور اس موقع پر عام آدمی سے لے کر بڑے سرداروں اور انگریز سرکار کے افسران نے شرکت کی۔ جان جیکب کی محبت ابھی تک جیکب آباد کے لوگوں کے دل میں زندہ ہے۔ بزرگ اپنی اولاد کو جان جیکب کی مہربانیوں، محبتوں اور اپنائیت کی کہانیاں سناتے آرہے ہیں جس کی وجہ سے وہ نئی نسل کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ وہ انھیں اپنے خاندان کا فرد سمجھ کر یاد کرتے رہتے ہیں۔